ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

کووڈ اور امریکا کی تعمیراتی صنعت

تحریر: الی ولف

جب امریکا کووڈ کی لپیٹ میں آیا تو اس شعبے سے وابستہ افراد پیش گوئی کر رہے تھے کہ اب ہائوسنگ سیکٹر بالکل تباہ ہو جائے گا۔ کووڈ پھیلنے کے پہلے 2 مہینوں میں ہی 22.4 ملین امریکی شہری اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئے جبکہ جی ڈی پی میں تاریخ کا تیز ترین انحطاط دیکھنے میں آیا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ ہائوسنگ مارکیٹ میں ایک ایسا انقلاب آیا جسے میں نقل مکانی کا جنون یا ’’مائیگریشن مینیا‘‘ کہتا ہوں۔ کئی صنعتوں میں‘ جہاں ورکرز کووڈ کے دوران گھر پر رہ کر بہترین طریقے سے کام کرتے رہے‘ دفتر جا نے کی مشقت سے جان چھوٹ گئی۔ میکنزی اینڈ کمپنی کے مطابق زیادہ تنخواہیں لینے والے امریکی کووڈ کے دوران گھر پر رہ کر کام کرتے رہے۔ اس لیے ان میں سے اکثریت شہر کے مہنگے ترین علاقوں سے سستے علاقوں میں شفٹ ہو گئی۔ ایک طرف لوگ کم قیمت مارکیٹس کی طرف مائل ہوئے تو دوسری طرف قرضوں پر شرح سود میں خاصی کمی ہو گئی مگر مکانات محدود تعداد میں دستیاب تھے، اس لیے منافع کے لالچ میں سرمایہ کار بڑی تعداد میں اس شعبے میں دلچسپی لینے لگے۔ خریداروں کا جوش و خروش بڑھ گیا تو مکانات کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف ریٹیلرز کے مطابق موجود مارکیٹ میں اب تک مکانات کی جتنی فروخت ہوئی اس کے مطابق گزشتہ سال مئی کے بعد مکانا ت کی قیمت میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر اس بوم میں سب کو مساوی مواقع نہیں مل سکے۔ مارکیٹ میں ان خریداروںکا سیلاب آ گیا جن کے پاس دولت تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ڈائون پیمنٹ دے کر ہر بولی جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری طرف کم آمدنی والے لوگ‘ جو دیگر علاقوں میں شفٹ ہونا چاہتے تھے‘ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بولی دینے میں ناکام رہے؛ چنانچہ متمول امریکی گھر پر رہ کر ہی اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دوسرے لوگ پیچھے رہ گئے۔ جوں جوں کووڈ پھیلتا گیا خریداروں کا اعتماد ختم ہوتا گیا۔ مارچ 2020ء میں گھروں کی فروخت انتہائی سست روی کا شکار ہو گئی۔ سال کے شروع کے مقابلے میں مئی میں ان کی فروخت میں 24 فیصد کمی واقع ہو گئی۔ مئی میں یہ اپنی آخری حدیں چھو رہی تھی؛ تاہم بہار 2020ء میں گھروں کی فروخت اس دہائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ لاکھوں امریکی اپنے کام پر واپس آ گئے،کئی مہینوں کی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد صارفین اپنی پسند کے گھر خریدنے کیلئے مارکیٹس میں امڈ پڑے جو بلڈرز اور ریٹیلرز کے لیے خو ش آئند بات تھی۔

 2020ء کے موسم گرما تک واضح ہو گیا تھا کہ ڈیمانڈ کے مقابلے میں گھروں کی سپلائی بہت کم تھی؛ چنانچہ گھروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ ریٹیلر ایسوسی ایشن کے مطابق 2019ء میںایک اوسط درجے کے گھر کی قیمت میں 2018ء کے مقابلے میں 4.9 فیصد اضافہ ہوا۔ 2020ء کے آخری 6 مہینوں میں یہ اضافہ 13.4 فیصد تک پہنچ گیا۔ ملک میں رنگ برنگی کہانیاں گشت کرنے لگیں، خریدار منہ مانگی قیمت سے بھی زیادہ ڈالر دے کر گھر خرید رہے تھے۔ منتظر خریداروں کی فہرست دو سال تک طویل ہو گئی تو ریٹیلرز نے بولیاں روک دیں۔ گاہک مکان کی قیمت جانے بغیر نئے مکان خریدنے کی امید پر کئی کئی دنوں تک کیمپ لگا کر بیٹھنے لگے، اس سے 2005ء میں آنے والے ہائوسنگ بوم کی یاد آ رہی ہے اور لوگوں میں قیمتوں کے حوالے سے تشویش بھی پائی جاتی ہے۔

آج کی مارکیٹ مگر بالکل مختلف ہے۔ اس بوم کے پس پردہ آسان کریڈٹ کی سہولت نہیں ہے۔ دراصل گھروں کے خریدار مالی طور پر مستحکم ہیں۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں گھروں کی مارٹ گیج کی شرح گزشتہ سال کی 64 فیصد کے مقابلے میں 73 فیصد تک چلی گئی۔ اچھے کریڈٹ سے ہٹ کر آج کے خریداروں کی آمدنی اور قرضے کا تناسب بھی بہتر ہے۔ جن علاقوں میں گھر بدلنے کا جنون ہے وہاں امیر اور غریب میں حائل خلیج واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر یو ایس سینسس بیورو کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق فینکس میں گھر تبدیل کرنے کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی۔ ریڈلین کے مطابق فینکس لاس اینجلس والوں کے لیے نہایت پُرکشش منزل ہے۔ جنوبی کیلیفورنیا سے جانے والوں کو نئی جگہ پر اپنے گھر جیسا مکان نصف قیمت میں مل جاتا ہے۔ فینکس میں ایک اوسط گھر کا رقبہ 2500 مربع فٹ اور اس کی قیمت 5 لاکھ ڈالر سے کچھ زائد ہوتی ہے۔ اسی سائز کا مکان لاس اینجلس میں 15 لاکھ ڈالرز میں ملتا ہے۔ خریداروں کی بھرما رکی وجہ سے فینکس میں گھروں کی قیمت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جبکہ آمدنی میں صرف 3.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی قسم کا رجحان دیگر بڑی اور ترقی پذیر مارکیٹس مثلاً ٹیکساس اور فلوریڈا میں بھی پروان چڑھ رہاہے اور یہی کچھ چھوٹی مارکیٹس میں بھی ہو رہا ہے۔ زیادہ آمدنی والے امریکی شہریوں میں اجتماعی اضافے کے نتیجے میں مہنگے مکانات میں شفٹ ہونے کا رجحان مستقل طور پر جاری رہنے کا امکان ہے اور جیسے جیسے مارٹ گیج کے ریٹس بڑھیں گے یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرتا جائے گا۔ گھر تبدیل کرنے کی اس بھرمار کے نتیجے میں مقامی شہریوں کے لیے قیمتیں بڑھنے کا جو رسک پیدا ہوگا اس کے سدباب کے لیے حکام بالا کو چاہئے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹیشن کے نزدیکی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی حوصلہ افزائی کریں۔ غیر مستعمل کمرشل جگہ کو مکانات کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے اور ٹیکس ترغیبات کی صورت میں سستے گھروں کی تعمیر کی حوصلہ افز ائی ہونی چاہئے۔ بلڈرز اور ڈویلپرز کو بھی سستے گھروں کی تعمیر پر فوکس رکھنا چاہئے۔ خریداروں کو بھی گنجان آباد علاقوں میں چھوٹے گھروں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ قرض دہندگان کو بھی گزشتہ ہائوسنگ بوم کی طرح نرم شرائط کی غلطیوں کا اعادہ کیے بغیر مارٹ گیج تک آسان رسائی کا بندوبست کرنا چاہئے۔ اگر کڑے زون رولز میں نرمی کی جائے‘ تعمیراتی ورکرز کی بہتر ٹریننگ کیلئے زیادہ فنڈنگ کرنے کے ساتھ اگر پرو ہائوسنگ پالیسی اپنائی جائے تو امریکی عوام کی اکثریت کو اپنے گھروں کی ملکیت سے محروم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ر یسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement