امریکا: رحم کی اپیلیں اور اصلاحات
تحریر: مارک اوسلر
بہت سے باتوں نے ترقی پسند اور مرکز پسند ڈیموکریٹس کو تقسیم کر رکھا ہے لیکن وہ سب ایک بات پر متفق ہیں کہ محکمہ انصاف کے پراسیکیوٹرز کو رحم کی اپیلوں کا انچارج نہیں ہونا چاہئے۔ ڈیموکریٹک پرائمریز کے دوران کملا ہیرس، کوری بکر، ایلزبتھ وارن اور برنی سینڈرز نے اس سادہ اور عمدہ آئیڈیا کی توثیق کی تھی کہ رحم کی اپیلوں پر فیصلے کا اختیار محکمہ انصاف سے لے لیا جائے اور اسے دو جماعتی بورڈ کے سپرد کر دیا جائے جو اس سلسلے میں صدر کو مشورہ دے تاکہ عشروں سے جاری سستی اور التوا کا خاتمہ ہو۔ جب جو بائیڈن صدارتی امید وار نامزد ہو گئے تو یہ معاملہ بائیڈن سینڈرز یونٹی پلان اور ڈیمو کریٹک پلیٹ فارم کا حصہ بن گیا تھا۔ اس پلان کے مطابق رحم کی اپیل پر معافی کے اختیار کو غیر جانبداری اور اصولوں کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ بائیڈن حکومت اس اتفاقِ رائے کو مسترد کر نے پر تلی ہوئی ہے اور یہ اختیار محکمہ انصاف کے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت کی فوجداری جرائم میں انصاف سے متعلق ریفارمز اور وفاقی سسٹم میں پائے جانے والے نسلی تعصب کو ختم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
محکمہ عدل کے پاس رحم کی اپیلوں کے خلاف اختیار رکھنے سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پراسیکیوٹرز اس کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔ محکمہ عدل کے قوانین کے مطابق آفس آف پارڈن اٹارنی کیلئے مقامی پراسیکیوٹرز کی رائے کو وزن اور اہمیت دینا لازمی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہی لوگ کسی مجرم کو سزا دلواتے ہیں۔ پراسیکیوٹرز جن افراد کو سزائیں دلواتے ہیں‘ اس کے بعد وہ یہ نہیں جانتے کہ قید کے دوران ان کا طرزِ عمل کیسا تھا یا قید سے رہائی پانے کے بعد ان کے کیا پلان ہیں۔ ان کا مطمح نظر تو انہیں سزا دلوانا ہوتا ہے اس لیے مقدمے سے متعلق ان کا تجزیہ انہی حالات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی خواہش جتنی بھی اعلیٰ اور ارفع ہو‘ ان کے لیے اس رکاوٹ سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
امریکی نائب صدر کملا ہیرس‘ جو خود بھی ایک پراسیکیوٹر رہ چکی ہیں‘ نے موجودہ پراسیس میں مضمر ’’مفادات کے ٹکرائو‘‘ کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ اپنی الیکشن مہم کے دوران ان کا موقف تھا کہ محکمہ عدل کے وکلا کو یہ تعین نہیں کرنا چاہئے کہ جن لوگوں کو لیگل سسٹم میں موجود ان کے کولیگز نے ہی سزا سنائی ہو‘ وہی ان کی سزائوں میں تخفیف کریں۔ بائیڈن حکومت اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر رہی ہے کیونکہ وہ بھی رحم کی اپیل کے حوالے سے صدر بارک اوباما کی اپروچ کا اعادہ چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ ان کی پہلی مدتِ صدارت کے دوران جو ماڈل اپنایا گیا تھا‘ اس کے تحت سزا میں صرف ایک بار ہی تخفیف کی جا سکتی تھی اور معافی کئی بار مل سکتی تھی کیونکہ اس کا انحصار محکمہ عدل کے ناکارہ اور جانبدارانہ پراسیس پر ہے۔ جوبائیڈن حکومت کی ساری توجہ صدر اوباما کے دورِ صدارت کے آخری دو سالوں کے دوران رحم کی اپیلوں کے بارے میں کی گئی کوششوں پر ہی مرکوز ہے۔ بے شک ان کوششوں میں بھی انہیں جزوی کامیابی ہی مل پائی تھی۔ صدر اوباما نے رحم کی 1900 اپیلوں کی منظور ی دی تھی جن میں سے 11 فیصدکو مکمل معافی اور باقی اپیلوں میں سزا میں تخفیف کی گئی تھی۔ تخفیف والے سارے کیسز منشیات کے مجرموں کے تھے مگر زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ایسے ہزاروں کیسز کو مسترد یا نظر انداز کر دیا گیا تھا جو میرٹ پر زیادہ مستحق تھے۔ یہ سب کچھ ایک لاٹری کی طرح تھا۔ یہ موقع اور قسمت کی بات تھی کہ کسی کو ریلیف مل گیا اور زیادہ تر محروم ہو گئے تھے۔
اگر نئی حکومت کو درپیش مشکلات اور حالات کو دیکھا جائے تو اس پلان پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس وقت صدر جو بائیڈن کی میز پر 15 ہزار سے زائد رحم کی اپیلیں پڑی ہیں (زیادہ تر صدر اوباما دور کی ہیں) جبکہ صدر اوباما کو ورثے میں صرف 2 ہزار اپیلیں ملی تھیں۔ لگتا ہے کہ بائیڈن حکومت ایسے معیار کی تلاش میں ہے جس سے مختلف نتائج برآمد ہو سکیں مگر پراسیس کے بجائے معیار پر فوکس کرنے سے ایک ناکامی کی عکاسی ہوتی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اوباما حکومت کے تجربے سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ صدر اوباما کی رحم کی اپیلوں کا اقدام 2014ء سے شروع ہوا تھا جس میں ساری توجہ ایک معیار پر مرکوز تھی کہ مجرم کی جرائم کے حوالے سے سابقہ ہسٹری کیا ہے یا اس کا کسی گینگ سے تو کوئی تعلق نہیں مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک سال گزر گیا مگر صدر اوباما صرف0.3 فیصد اپیلوں پر ہی فیصلہ کر سکے۔ 2016ء میں جب اس معیار کو نظر انداز کیا گیا تو ان فیصلوں میں کچھ تیزی آئی۔ یو ایس سینٹینسنگ کمیشن کی ایک سٹڈی کے مطابق جن مجرموں کو سزا میں تخفیف ملی تھی ان میں سے صرف 5.1 فیصد ہی طے شدہ معیار پر پورا اترتے تھے۔ بالفاظ دیگر صدر اوباما کو اپنے مقصد میں محدود سی کامیابی مل سکی تھی وہ بھی جب طے شدہ معیارکو پس پشت ڈالا گیا۔ بائیڈن حکومت کا طے کردہ ٹائم ٹیبل تو اور بھی بدتر ہے۔ بعض ایکٹویسٹس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بائیڈن حکومت نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ 2022ء کے وسط مدتی الیکشن سے پہلے رحم کی اپیلوں کے فیصلے کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس بات سے دو چیزوں کی عکاسی ہوتی ہے؛ اول‘ یہ کہ اس بات کو صدر کی ترجیحات میں بہت نچلی سطح پر رکھا گیا ہے۔ دوم‘ یہ کہ ابھی تک حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پر عمل کیسے کرنا ہے۔ اس طرح ان ریفارمز کیلئے بھی طویل مدت درکار ہو گی جن کی کانگرس سے منظور ی کی ضرورت نہیں جبکہ ایسی اپیلوں کا ایک انبار لگا ہوا ہے جو عرصے سے فیصلے کی منتظر ہیں۔رحم کی اپیلوں کا ناقص نظام کئی عشروں سے چل رہا ہے اور دونوں سیاسی جماعتوں کے صدور نے شرمناک حد تک بہت کم اپیلوں کی منظور ی دی ہے۔ اگر حکومت محکمہ عدل کے ناقص اور متعصب پراسیس کے بجائے ان کے لیے ایک مجاز بورڈ تشکیل دیدے تو پچھلی اپیلوں پر تیزی سے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ ا س بورڈ میں ایسے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہئے جن کے پاس مجرم کا جیل ریکارڈ، ری انٹری اور بحالی کا ریکارڈ بھی میسر ہو۔ یہ بورڈ محکمہ عدل کے ساتھ بھی مشاورت کر سکے گا مگر محکمہ عدل اب فیصلے کا مجاز یا ذمہ دار نہیں ہو گا۔ اس طرح بورڈ بامقصد سفارشات دینے کا مجاز ہو گا اس کے بعد یہ صدر کی صوابدید ہو گی کہ وہ ان اپیلوں کو منظور کرے یا نہ کرے۔ بائیڈن حکومت اس پراسیس اور مطلوبہ مہارت کی اہمیت کا پورا ادراک رکھتی ہے۔ انصاف وہ آخری مرحلہ ہوتا ہے جہاں کوئی بھی استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)