ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان طالبان کی کامیابیاں

تحریر: نجم رحیم

2021ء میں افغان جنگ یہاں تک آپہنچی ہے کہ ایک تربوز فروش ایک تپتی سڑک پر تربوز فروخت کر رہا ہے ‘اس سے 30 فٹ کے فاصلے پر ایک سرکاری ہموی گاڑی کھڑی ہے اور سڑک کے ا ُس پار طالبان جنگجو کھڑے ہیں جو نظر نہیں آرہے ۔جب فائرنگ شروع ہوئی تو تربوز فروش اپنی ریڑھی چھوڑ کرجان بچانے کے لیے بھاگتا ہے۔پھر فائرنگ رک جاتی ہے اور تربوز فروش واپس آکرپھر سے اپنا دھندہ شروع کر دیتا ہے مگر وہاں کو ئی گاہک نہیں تھا۔

عبدالعلیم نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ میرے پاس اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہے‘ مجھے تو اپنے تربوز بیچنے ہیں۔ اس کی نظریں بدستور قندوز کی اس سڑک پر تھیں جہاںسے طالبان نمودار ہوئے تھے۔زیادہ ترلوگ یہاں سے جا چکے ہیں ۔ہر وقت جنگ جاری رہتی ہے۔ قندوز کی آبادی تین لاکھ چوہتر ہزارہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت ہے جہاں طالبان کے ساتھ جنگ ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔کئی ہفتوں سے طالبان نے ایک بھی گولی چلائے بغیرملک کے اہم اضلاع پر قبضہ کر رکھاہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستانی سرحدسے متصل اہم کراسنگ سپن بولدک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

یہ جنگ طالبان کی اہم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ کابل کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔وہ اہم سڑکوں پر قبضہ کرکے حکومت کو ایک تنگ سے علاقے تک محدود کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ جون کے آخر میں طالبان سرکاری فوجیوں اور پولیس کی قوت چیک کرنے کے لیے قندوز میں داخل ہو ئے تھے جنہوں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے۔ قندوز ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نعیم مینگل نے بتایاکہ اس دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں سویلینز قتل یا زخمی ہورہے ہیں۔ ایک ہی دن میں 70زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا ۔منگل کی رات دو شہری وہیں قتل ہوئے جہاں علیم تربوز فروش کھڑا تھا۔اس سے ایک دو بلاک چھوڑ کر ہی بڑا محاذِ جنگ ہے۔طالبان شہر کے اندر بھی اور شہر سے باہر بھی موجود ہیںجو فوجیوں اور پولیس کو ساری رات جگائے رکھتے ہیں۔جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے تومغرب کی اذان کے ساتھ ہی مارٹر گولوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔جولائی کے وسط سے شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان اور سرکاری فوجیوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

جنگ زیادہ تر رات کے وقت ہوتی ہے جب گرمی کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔دن کے اوقات میں پورا شہر سبزی اور پھل فروشوں سے بھرا ہوتا ہے مگر وہاں گاہک بہت کم ہوتے ہیں۔دکاندار اور گاہک دونوں کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔فرنٹ لائن کے قریب کی دکانیں بند ہوتی ہیں۔ایک قالین فروش مصطفی ترکمان کہتا ہے کہ یہ ایک مستقل جنگ ہے۔کوئی یہاں آسکتا ہے نہ یہاں سے جا سکتا ہے۔ہر رات میں جاگ جاتا ہوں تو مجھے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی دکان پر جاتا ہے۔شہر کے اندر اہم شاہراہوں پر افغان سپیشل فورسز کا قبضہ ہے جو عام فوجیوں سے زیادہ سخت جان اور تربیت یافتہ ہیں۔ان فورسز نے ایک کاٹن آئل فیکٹری پر قبضہ کر رکھا ہے جوکبھی اس علاقے کی خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ان کے کمانڈر کرنل مسعود نجرابی نے سرکاری فوجوں پر سخت ناراضی کا اظہار کیا جو یہاں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی تھیں ۔اس نے تسبیح پڑھتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں پر قبضہ رکھنا میری ڈیوٹی تو نہیں ہے۔طالبان قریب تر آتے جارہے ہیں اور وہ لوگوںکو اپنے گھرچھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ا س کے جوان جنگ لڑ لڑ کر تھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔ صوبائی گورنراس کے دفتر میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے گورنر نجیب اللہ عمر خیل نے کہا کہ ہمارے اوپر شدید دبائو ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کی زندگی خطرے میں ہے۔میرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔حالات اس سے بھی ابتر ہو سکتے ہیں۔ 

قریب ترین محاذِ جنگ ایک پٹرول پمپ کے پاس ہے جہاں دو سرکاری ہموی گاڑیا ں کھڑی ہیں۔رات کے اندھیرے میں فوجیوں کو جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سارجنٹ عبدالمالک نے بتایاکہ ہم رات کو سو نہیں سکتے۔ ایک قریبی دکاندار حمید اللہ حامدی نے بتایا کہ یہاں روزانہ جنگ ہوتی ہے ۔جب یہ شرو ع ہوجاتی ہے تو پھر یہاں ایک قیامت کا منظرہوتا ہے۔ وہ  اپنی دکان شام چار بجے بند کر دیتا ہے مگر جنگ سے پھر بھی نہیں بچ سکتا۔

قندوز کے نواحی اضلاع پر بھی طالبان قبضہ کر چکے ہیں۔شہر سے جانے والی تمام سڑکیں بھی ان کے قبضے میں ہیں۔تاہم  قریبی ایئر پورٹ کام کر رہا ہے مگر یہاں ہرطرح کی تجارتی سرگرمیاں بند ہیں۔یو این او کے مطابق قندو ز کے 35ہزارسے زائد مکینو ں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبو رکر دیا گیاہے۔بے گھر ہونے والے زیادہ تر لوگ سخت گرمی میں قریبی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔انہیں بھوک اور افلاس کا سامنا ہے۔ 57سالہ دیہاتی بزرگ علی محمد کا کہنا تھا کہ یہاں روزانہ مارٹر گولے پھٹتے ہیں۔گزشتہ رات میں بھوکا تھا اور ہماری مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ سینکڑوںدیگر لوگوں کے ہمراہ بی بی آمنہ سکول میں خیموں میں پناہ گزیں ہے۔اس سکول کو اپنے گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔چار بچے جن کی عمریں ایک سے نو سال تک تھیں اپنی ماں کا برقع تھام کر کھڑے تھے۔ان کی 30سالہ ماں مسز اکبر کا کہناتھا کہ یہاں تو کسی جانور کے لیے بھی رہنا ممکن نہیں ہے۔حکومت کو جلداز جلد ہماری مدد کرنی چاہئے۔ان دیہاتی اضلاع پر کسی مزاحمت کے  بغیر قبضہ کر لیا گیا ہے اورطالبان ان ویران گھروں سے پولیس اور سکیورٹی فورسز پر بے دھڑک فائرنگ کرتے ہیں۔ان گھروں کے اصل مکین اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں یا طالبان نے انہیں یہاں سے پسپا ہونے پر مجبو رکر دیا ہے۔

کئی دیگر صوبائی دارالحکومتوں کامحاصرہ کیاجا چکا ہے۔اسی ماہ طالبان نے دوسرے بڑے افغان شہر قندھار کے ارد گرد کے راستوں پر قبضہ کر لیا ہے۔منگل کے روز سے شہر کے چار پولیس ڈسٹرکٹس میں جنگ جاری تھی۔ درجنوں زخمی سویلین لوگوں  کو قندھار کے ہسپتال لایا گیا ۔ہزاروں افراد یہاں سے بھاگ چکے ہیں۔ صوبائی کونسل کے ایک رکن نے بتایا کہ ہمسایہ صوبے ہلمند کا دارالحکومت لشکر گاہ بھی طالبان کے قبضے میں جانے والا ہے ۔تین شہروں پر حملہ جاری ہے یا اس کا محاصر ہ کیا جا چکا ہے۔

قندوز میں طالبان کے ساتھ تازہ ترین کشیدگی شروع ہوئی ہے۔وہ اس شہر پر پہلے  2015ء اور پھر 2016ء میں بھی قبضہ کر چکے ہیں۔دونوں مرتبہ افغان سکیورٹی فورسز نے امریکی فضائیہ کی مد دسے طالبان کو یہاں سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔یہیں پر امریکی جہازو ںنے ’’ڈاکٹرز ودآئوٹ بارڈرز ‘‘پر بھی غلطی سے بمباری کی تھی جس میں 42لوگ جاں بحق ہو گئے تھے مگر اس مرتبہ امریکی ان کی مدد کے لیے نہیں آئیںگے۔قندوز کی جنگ افغان متحارب گروپوں کے درمیان ہی لڑی جا رہی ہے۔قندوز کے پولیس چیف سید منصور ہاشمی نے اپنے ارد گرد ویران گھروں کو دیکھتے ہوئے بتایا کہ طالبان روزانہ رات کے وقت ان گھروں کی طرف آتے ہیں اور ہم پر فائرنگ کرتے ہیں۔رفتہ رفتہ وہ ہمارے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔

 قندوز ریجنل ہسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مرضیہ سلام یفتلی نے بتایا کہ قندوز کے شہری برستی گولیوں میں ہی خرید و فروخت کرتے ہیں۔وہ اب اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے۔وہ بازار یا سڑکوں پر زخمی ہوجاتے ہیں۔ ایک ٹیلی کمیونی کیشن ورکر عزم الدین صافی نے کہا کہ ا س جنگ میںدشمن کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ہمیں یہیں رہنا ہے ۔ہم اور کہاں جا سکتے ہیں؟

(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل ،مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement