ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

قوتِ گویائی کی بحالی میں کامیابی… (2)

تحریر: پام بیلک

ایک ہفتے بعد جب مجھے کومے سے ہوش آیا تو میں نے خود کو ہسپتال کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں پڑا پایا۔ ’’میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی مگر میں اپنی انگلی تک کو بھی نہ ہلا سکا۔ میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا؛ چنانچہ میں نے رونا شروع کر دیا مگر اس دوران بھی میرے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی۔ میں صرف اشاروں سے ہی سمجھا سکا۔ میرے دل میں آیا کاش میں کومے میں ہی رہتا‘‘۔

میساچوسیٹس جنرل ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر لی ہاچبرگ‘ جنہوں نے اس ریسرچ میں تو حصہ نہیں لیا مگر اس کی ایڈیٹوریل ٹیم کا حصہ تھے‘ کا کہنا ہے ’’یہ نئی اپروچ اس جدت کا حصہ تھی جس کا مقصد ان ہزاروں لوگوں کی مدد کرنا ہے جو بولنے سے قاصر ہیں مگر ان کے دماغ میں بولنے میں مدد دینے والے نیورل ریشے موجود ہوتے ہیں‘‘۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے دماغ پر چوٹ لگی تھی یا جن کے دماغ جزوی فالج کا شکار تھے۔ اس صورت میں مریض کے پٹھے بولنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر ہاچبرگ‘ جو برین گیٹ نامی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے الیکٹروڈز دماغ میں لگائے جاتے ہیں جو انفرادی سگنلز کو پڑھ سکتے ہیں‘ نے حال ہی میں ایک فالج زدہ مریض کے ہینڈ رائٹنگ کی حرکات کو ڈی کوڈ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’اب یہ محض چند سال کی بات ہے جب ایک ایسے مفید سسٹم کو کلینکس میں استعمال کیا جا سکے گا جو قوتِ گویائی کی بحالی کا باعث بنے گا‘‘۔

کئی سال تک پانچو بھی ایک پوائنٹر کی مدد سے سپیلنگ کرکے کمپیوٹر پر الفاظ لکھتا رہا۔ یہ پوائنٹر ایک بیس بال کی ٹوپی کی مدد سے سر کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل طریقہ کار تھا جس میں وہ ایک منٹ میں پانچ درست الفاظ لکھ لیتا تھا ’’مجھے اپنا سر آگے کی طر ف جھکا کرکی بورڈ پر ایک ایک حرف لکھنا پڑتا تھا‘‘۔ گزشتہ سال ریسرچرز نے اسے ایک ڈیوائس دی جو ایک ہیڈ کنٹرولڈ مائوس تھا مگر یہ دماغ میں لگے الیکٹروڈز جتنا تیز نہیں ہے۔ ان الیکٹروڈز کی مدد سے پانچو ایک منٹ میں 15 سے 18 الفاظ فی منٹ لکھ لیتا ہے۔ اس سٹڈی میں اس سے زیادہ سپیڈ ممکن نہیں تھی کیونکہ کمپیوٹر کو اشاروں میں مدد کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر چینگ کے مطابق اس سے بھی تیز رفتار ڈی کوڈنگ ہو سکتی ہے مگر یہ امر واضح نہیں ہے کہ یہ عام گفتگو جتنی سپیڈ یعنی 150 الفاظ فی منٹ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ سپیڈ ہی بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر اس پروجیکٹ کا فوکس بولنے پر ہے اورلکھنے یا ٹائپ کرنے کے لیے ہاتھ کے اشاروں کے بجائے یہ براہ راست دماغ کے اس حصے کو متحرک کرتا ہے جہاں الفاظ جنم لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’لوگوں کے اظہار خیال کے لیے یہ سب سے قدرتی طریقہ ہے‘‘۔

پانچو نے اپنی ای میل میں لکھا ’’کئی دفعہ میں اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کر سکتا تو بہت زیادہ ہنستا ہوں اور میں اس کا زیادہ تجربہ نہیں کرتا‘‘۔ الگورتھم کئی مرتبہ ایک جیسی آوازوں والے الفاط کو شناخت کرتے وقت کنفیوز کر دیتا تھا مثلاً going کو bring اورdo کو you کا سگنل دے دیتا ۔F کی آواز والے الفاظ جیسے faith, family, feel کوF  کے بجائے V کی آواز دے دیتا تھا۔ طویل جملوں کو لینگویج پریڈکشن سسٹم سے زیادہ مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس مدد کے بغیر How do you like my music? کو یہ سسٹم ڈی کوڈ کرتے وقت How do you like bad bring?  بنا دیتا تھا۔ اسی طرح Hello! how are you? کو Hungry how am you  سے ڈی کوڈ کرتا تھا۔

ڈاکٹر چینگ کہتے ہیں کہ کووڈ کے مہینوں میں جو سیشن ہوئے ان کے دوران دو طرح سے بہتری آئی کیونکہ ایک تو الگورتھم پانچو کی کوششوں سے کافی کچھ سیکھ گیا اور دوسرا یہ کہ بہت سی ایسی باتیں بھی تھیں جو یقینا پانچو کے دماغ میں تبدیل ہو رہی تھیں اور اس کے دماغ میں روشنی پھیلنے سے ہمیں وہ سگنل نظر آرہے تھے جو ہمیں ان الفاظ کو سمجھنے کے لیے درکار تھے۔ فالج کا حملہ ہونے سے پہلے پانچو اپنے آبائی ملک میکسیکو میں صرف 6th گریڈ تک سکول گیا تھا۔ اس کے بعد اپنی پختہ عزمی کی بدولت اس نے ایک ہائی سکول ڈپلومہ لیا تھا اورکالج کی کلاسز بھی لی تھیں۔ ویب ڈویلپرکا سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھا اور پھر فرنچ بھی سیکھ رہا تھا۔ ایک ای میل میں ا س نے لکھا ’’شاید کار کے تباہ شدہ ڈھانچے نے مجھے ایک بہتر اور ہوشیار انسان بنا دیا‘‘۔

اپنی کلائی کی محدود سی حرکت سے پانچو ایک الیکٹرک ویل چیئر بھی چلا لیتا ہے۔ کسی بھی سٹور پر جا کر وہ ادھر ادھر منڈلاتا رہتا ہے حتیٰ کہ کیشیئر سمجھ جاتا ہے کہ وہ کیا خریدنا چاہتا ہے جیسے کہ کافی کا ایک کپ وغیرہ۔ وہ کافی کا کپ میری ویل چیئر میں رکھ دیتے ہیں اور میں اسے لے کر گھر آ جاتا ہوں، اس طرح وہ کافی پینے میں میری مدد کرتے ہیں۔ میرے اردگرد رہنے والے لوگ ہمیشہ حیران ہوتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کافی خریدتے کیسے ہیں؟ آپ انہیں کیسے بتاتے ہیں کہ آپ کیا لینا چاہتے ہیں؟

وہ دوسرے ریسرچرز کے ساتھ مل کر الیکٹروڈز کی مدد سے ایک روبوٹک بازو استعمال کرنا بھی سیکھ رہا ہے۔ اس کا ہفتے میں دو مرتبہ سپیچ تھراپی کا سیشن مشکل اور تھکا دینے والا ہو سکتا ہے مگر وہ ہر روز وقت پر بیدار ہونے اور بستر سے نکلنے کا منتظر رہتا ہے کہ اس کے یو سی ایس ایف کے لوگ آنے والے ہیں۔ اس کی سپیچ سٹڈی پوری دہائی کی ریسرچ کی معراج ہے جس میں ڈاکٹر چینگ اور ان کی ٹیم نے دماغی سرگرمی کے لیے تما م Vowel and Consonant آوازوں کا خاکہ تیار کیا ہے اور اسے صحت مند افراد کے دماغوں میں نصب کیا ہے تاکہ وہ کمپیوٹرائزڈ آواز پیدا کر سکیں۔

ریسرچرز کہتے ہیں کہ پانچو کے دماغ کو الیکٹروڈز سٹڈی نہیں کرتے بلکہ وہ جو بھی لفظ بولنے کی کوشش کرتا ہے اس کے متعلقہ سگنلز کو ڈی کوڈ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فریڈ اوکن کہتے ہیں ’’وہ لفظ کو سوچ رہا ہوتا ہے یہ کوئی اڑتا ہوا خیال نہیں ہوتا جسے کمپیوٹر پکڑ لیتا ہے‘‘۔ ڈاکٹرچینگ کہتے ہیں ’’مستقبل میں شاید ہم یہ جاننے میں کامیاب ہو جائیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں‘‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنالوجی سے متعلق بہت سے اخلاقی سوالات بھی پید ا ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’مگر ہم قوتِ گویائی کو بحال کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔

ڈاکٹر موزز کا کہنا ہے ’’پانچو حقیقی معنوں میں اس کا بانی ہے‘‘۔ ان کی ٹیم ایسے حساس امپلانٹس بنانا چاہتی ہے جو وائرلیس ہوں تاکہ کسی قسم کا انفیکشن پھیلنے کا اندیشہ نہ رہے۔ پانچو کہتا ہے ’’میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل ہو جائوں مگر اب میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ میں صرف اپنے لیے ہی نہیں کر رہا ہوں‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیار یسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement