ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر بائیڈن اور فیس بک میں کشیدگی

تحریر: کارا سویشر

اگر یہ بات کئی لحاظ سے درست ہو‘ پھر بھی اس کے بارے میں اظہارِ خیال کرنا حیران کن ہے۔’’وہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں‘‘۔ صدر جو بائیڈن نے یہ بات اتنی اونچی آواز میں کہی کہ جمعہ کے روز وائٹ ہائوس کے جنوبی لان میں اترنے والے میرین ون ہیلی کاپٹر کے شور میں بھی پوری طرح سنائی دی۔وہ دہشت گردوں یا کسی بدمعاش ریاست یا گن مینو فیکچررز کے خلاف بات نہیں کر رہے تھے۔ وہ سلی کان ویلی سے تعلق رکھنے والے مارک زکر برگ اور شیرل سینڈبرگ جیسے ٹیک انٹرپرنیورز کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ ان کے پلیٹ فارمز کووڈ کی ویکسین کے بارے میں عوام میں خطرناک اور گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں۔کئی علاقوں میں کووڈ کیسز میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں‘ جب انہیں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیغام بھیجنے کا کہا گیا تو صدر بائیڈن نے کہا ’’اس وقت کووڈ صرف ان علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی اور یہ لوگ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں‘‘۔

یہ پیغام عین اس وقت دیا گیا ہے جب بائیڈن حکومت اورخاص طو رپر فیس بک کے مابین کشیدگی میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کشیدگی کے اشارے ہمیں ایک ہفتہ قبل ہی مل چکے تھے جب صدر بائیڈن کی پریس سیکریٹر ی جین ساکی اور سرجن جنرل ویوک مرتھی نے اس حوالے سے سگنل دیے تھے۔جین ساکی نے صحت عامہ کے سنگین بحران کی وجہ سے سوشل میڈیا پر دبائوڈالنے کا عندیہ دیا تھا مگر اس سے یہ تشویش بھی لاحق ہو گئی تھی کہ حقِ اظہارِ رائے کے تحفظ اور گمراہ کن معلومات کی تشہیر میں تواز ن کیسے برقرار رکھا جائے۔ دو ہفتے قبل میرے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن کے چیف آف سٹاف ران کلین نے بھی اشاروں کنایوں میں فیس بک پر الزام لگایا تھا کہ ان کے خیال میں بائیڈن حکومت 4جولائی تک اپنے وعدے کے مطابق 70 فیصد شہریوں کو ویکسین لگانے کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

’’فیس بک نے خو دہی ایسے ٹول متعار ف کرائے ہیں جن کی مدد سے لوگ ویکسین تلاش کر سکتے ہیں‘‘۔مگرمیں خو دبھی مارک زکر برگ کو یہ بتاچکا ہوں کہ جب ہم نے ویکسین نہ لگوانے والے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے ویکسین کیوں نہیں لگوائی تو انہوں نے ہمیں ایسی باتیں بتائیں جو درست نہیں تھیں۔ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ باتیں کہاں سے سنی ہیں تو ان سب کا مشترکہ جواب تھا کہ فیس بک سے۔جبکہ فیس بک اس طرح کی باتوں سے اتفاقِ رائے نہیں رکھتی۔ کمپنی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے ’’ہم اس طرح کے الزامات سے متاثرنہیں ہوں گے جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ دو ارب سے زائد لوگوں نے کووڈ اور ویکسین سے متعلق معلومات فیس بک پر دیکھی ہیں جو انٹر نیٹ پر دیکھی جانے والی سب سے زیادہ تعداد ہے۔33لاکھ سے زائد امریکی شہریوں نے ویکسین ڈھونڈنے والے ہمارے ٹولز استعمال کیے ہیں کہ ویکسین کہاں سے اور کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ فیس بک انسانی جانیں بچانے میں مدد کر رہا ہے۔فیس بک وہ گیٹ وے ہے جو کووڈ کے بارے میں درست معلومات دے رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ا س پر جھوٹ کا سیلاب بھی رواں ہے۔ مثلاًگزشتہ مئی میں نیویارک ٹائمز نے Plandemic کی نشاندہی کی تھی۔ یہ پورے 26منٹ کی ایک وڈیو تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ طاقتور لوگوں کا ایک خفیہ گروپ کووڈ اور اس کی ویکسین کے استعمال سے دولت کمانے کے ساتھ ساتھ دنیا پر اپنا کنٹرول مضبو ط کرنا چاہتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ’’یہ وڈیو 4 مئی کو آن لائن گئی اورمیکی ویلیس نے‘ جو ایک غیر معروف فلم میکر ہے‘ فیس بک،یو ٹیوب،ویمو اور ایک الگ ویب سائٹ پر شیئر کی تھی‘‘۔ تین دن تک فیس بک پر سازشی تھیوریز اور ویکسین مخالف تحریک کے حوالے سے ایک طوفان برپا رہا اور ان سب کا لنک یو ٹیوب پر موجود وڈیو کے ساتھ تھا۔پھریہ مین سٹریم پر آگئی اور ایک دھماکا سا ہو گیا۔Plandemicریلیز ہونے کے ایک ہفتہ بعد ہی اسے یو ٹیوب،فیس بک،ٹویٹر اور انسٹا گرام پر 80لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھا،بے شمار مرتبہ اسے آگے شیئر کیا گیا اور اس سے متعلق نئی پوسٹس بنا کر لگائی گئیں۔

یہ تو اس کے آغاز کی بات ہے ،اگلا پورا سال اس وڈیو کے حق میں اور اس کے خلاف معلومات کا ایک طوفان برپا رہا۔اس مہم میں وائٹ ہائوس کا اس وقت کا مکین بھی شامل ہو گیا۔یقینا اس میں فیس بک کا تو کوئی قصور نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کے ختم ہونے کے دعوے کرنا شروع کر دیے تھے یا ماسک نہ پہننے کا مشورہ دینا شروع کر دیا تھا یا بلیچ کے انجکشن لگانے سے امیونٹی میں اضافے کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں جبکہ باقی لوگ ان کی یہ احمقانہ باتیں سنتے اور برداشت کر تے رہے۔ انہوں نے ان ٹولز کو لوگوں کو واشنگٹن پر حملے کے لیے اکسانے میں بھی استعمال کیا۔ اس سارے عرصے میں میڈیا کی ڈرائیور سیٹ پر فیس بک، یو ٹیوب اور ٹویٹر براجمان تھے جنہوں نے ان لوگوں کو بائیڈن انتظامیہ کا آسان ہدف بنا دیا۔ کووڈ کے بارے میں ابتدائی دنوں میں فاکس نیوز پر ایسے بے بنیاد دعوے کرنے پر میں نے انہیں اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور آئندہ بھی بنائوں گا کہ ’’کورونا فلو سے زیادہ خطرناک نہیں ہے‘‘ پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’’ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘‘ اور آخر میں ویکسین کے خلاف ایک محاذ کھول لیا یا ویکسین کی ضرورت کے حوالے سے محض مشورے دینے شروع کر دیے تھے۔ 

آپ اس جھوٹ کوقبول کرنے پر افراد پر بھی الزام لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے اس کے بارے حقائق جاننے کی یا اس جھوٹ کی چھان پھٹک کیوں نہ کی۔ویکسین نہ لگوانے کا فیصلہ کرنا کسی کی ذاتی چوائس ہے خواہ یہ غلط ہی کیوں نہ ہو؛تاہم سوشل میڈیا کی بے پناہ طاقت اور اثر پذیری کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے ان پلیٹ فارمز کی جھوٹی انفارمیشن پھیلانے کی استعداد کمزور پڑ جاتی ہے۔ایک سچی انفارمیشن کی مدد سے جھوٹ کے طوفان کو روکنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت کی ایک بوری سے ایک بپھرے ہوئے سمندر کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ یہ ایک ایسی ہی کوشش کہی جاسکتی ہے جیسے کوئی مثبت شے یکدم ایک مضر یا انتشار پسند چیز بن جائے یا بات ایک الیکشن کی ساکھ سے شرو ع ہو کر نسل پرستی کی حد تک پہنچ جائے تاکہ یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک انتشار اور کنفیوژن میں ہی الجھا رہے۔ 

 جب سے فیس بک کا آغاز ہوا ہے کیا یہ لو گوں کو قتل کر رہی ہے؟ کیونکہ اسی کی بدولت تو یہ سب کچھ ہورہا ہے۔نہیں! بالکل نہیں!مگر اس کی وجہ سے مجھے جھوٹ کے بارے میں ایک مشہور قول یا د آرہا ہے ’’جب تک سچ ابھی جوتے پہن رہا ہوتا ہے جھوٹ آدھی دنیاکا چکر لگا کر واپس بھی آجاتا ہے‘‘۔ غلطی سے اس قول کو مارک ٹوئن کے ساتھ منسوب کردیا گیا ہے مگر یہ بات سب سے پہلے جوناتھن سویفٹ نے کہی تھی۔ بہرحال یہ قول کہیں سے بھی آیا ہو‘ ہم اسے ایک اور بہتر انداز میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب سے فیس بک آئی ہے جھوٹ پہلے سے کہیںزیادہ تیزی سے بھاگناشروع ہو گیاہے ۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement