ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

اقلیتوں کی خود حفاظتی کی جنگ

تحریر: تھامس گبنز نیف

امید واحدی 2001ء میں اس وقت پیدا ہوا تھا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔اس کا بچپن پرامن گزرا ہے۔اس کا خاندان شمالی افغانستان میں بھنڈی ‘ٹماٹر اور بینگن اُگاتا ہے۔اسے یاد ہے کہ جب وہ سکول سے باہر آرہا تھا تو غیر ملکی فوجی اس پر کتابیں پھینک رہے تھے۔بھورے بالوں والا واحدی اب اپنے ہاتھ میں ایک رائفل اٹھائے پھرتا ہے ۔دھات اور لکڑی سے بنی ہوئی کلاشنکوف رائفل جو افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں ہر افغان کی زندگی کا جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔اس رائفل کی عمر واحدی کی عمر سے دو گنا زیادہ ہے مگر وہ اسے اٹھائے پھرتا ہے خواہ اس نے اس کاٹریگر اس جنگ میں چند ہفتے پہلے ہی کیوں نہ دبایا ہو۔اس نے بتایاکہ میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے لڑنا پڑے گا۔

اس رائفل نے واحدی کو اس کے بچپن کی یادیں بھی بھلا دی ہیں۔دراصل ان دو مہینوں میں سر پرمنڈلاتے خطرے کا نتیجہ ہے کہ طالبان تیزی سے ملک پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔جب سرکاری فوجیں طالبان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو گئیں تو امید واحدی بھی دیگر افغانوں کی طرح ملیشیا میں بھرتی ہونے پر مجبور ہو گیا۔امید واحدی شمال کے تجارتی مرکز مزار شریف میں رہتا ہے جہاںکے سینکڑوں رضاکار اپنے گھروں کے دفا ع کے لیے اسلحہ اٹھا چکے ہیں

یہ ملیشیاز نئے نہیں ہیں‘ گزشتہ بیس سال میںحکومت کی سرپرستی میں یہ کئی ناموں سے کام کر چکے ہیں۔ لوکل پولیس ‘علاقائی فوج ‘حکومت نواز ملیشیازوغیرہ مگر افغان رہنمائوں کی اعانت سے گزشتہ چند ہفتوںسے یہاں ایک ایسی تبدیلی نظر آرہی ہے جس سے ایک بار پھر1990ء والی خانہ جنگی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ایسی کوئی خوش آئند امید نظر نہیں آتی کہ امریکہ اور ا س کے اتحادیوں نے جو ایک بااختیار اور مرکزی حکومت قائم کی ہے وہ جاری رہ سکے گی۔امید واحدی نے اپنے افغان جھنڈے والے موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔‘‘وہ شہر میں موجود باقی ملیشیا سے ملنے کے لیے تیزی سے نکل گیا۔مزار شریف اور ا س کے گردو نواح میں موجود ان سرکاری فوجیوں کی مد د کے لیے ایسے ملیشیا ز صف بندی کر چکی ہیں جنہوں نے ابھی پسپائی دکھائی ہے نہ ہتھیار پھینکے ہیں۔طالبان نے حال ہی میں اپنے حملے کم کر دیے ہیں اور یہ انداز ہ لگانا مشکل ہے کہ ملیشیا ز اس بات کو کیسے لیتے ہیں۔ ملیشیاز میدانوںمیں موجود ہیں‘ وہ گاڑیوںکے جھرمٹ میں نقل وحرکت کرتے ہیں جس طرح ماضی میں نجی کنٹریکٹرز کی گاڑیاں چلتی تھیں ۔

ملیشیا کی چیک پوسٹس کبھی چھوٹی چھوٹی خندقیں ہوتی ہیں اور کبھی خالی چھوڑے ہوئے گھر جن پر رنگ برنگے سویلین لباس اور یونیفارم پہنے لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے۔اپنے ہتھیار چیک کرنے والے یا جنگی تربیت لینے والے جنگجوئوں کی فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔مزار شریف کے شمال مشرق میں جنرل رشید دوستم کی وفادار ملیشیا نئی مشین گنوں سے لیس کھڑی ہے ‘کوئی نہیں جانتا کہ یہ مشین گنیں انہوں نے کہاں سے لی ہیں۔وہ خندقیں کھود کر فرنٹ لائن پر اپنی صف بندی کر چکے ہیں۔

اس ازبک فرنٹ لائن سے محض چند سو گز قریب ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان جنہیں پورے افغانستان میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے اپنے گھر کی حفاظت کر رہا ہے ۔مزار شریف کے گردونواح میں حکومت کی منظوری کے بغیر ہزارہ قبیلے کے نوجوانوں کو ملیشیا میں بھر تی کر لیا گیاہے۔ کئی مرتبہ انہیں کچھ پیسوں کا لالچ دے کر بیرونی پوسٹوںکی حفاظت پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ 34سالہ موسیٰ خاں شجائی اس چھوٹی سی چیک پوسٹ کا کمانڈر ہے جس کے ساتھ ایک درجن سے زائد جنگجو یا اس کے قریبی رشہ دار ہیںاور ان میں سے کوئی بھی فوجی تربیت یافتہ نہیں ہے۔وہاں ایک 15سالہ جنگجو بھی نظر آرہا ہے۔اگر طالبان نے گزشتہ ماہ مزار شریف پر حملہ نہ کیا ہوتا تو شجائی آج بھی شہر میں اپنی چھوٹی سی دکان چلا رہا ہوتا۔شجائی نے بتایا کہ اس نے اپنا سٹور بند کرکے رائفل کیوں اٹھائی: جب جان محفوظ نہ ہو تو میں کس طرح اپنا سٹور چلا سکتا ہوں؟ واحدی اور شجائی جیسے کئی نوجوان اس جنگ کے لیے مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھے مقصدکے لیے کھڑے ہوئے ہیں یعنی اپنے وطن اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے ۔شاید انہیں طالبان سے تعلق رکھنے والے اپنے ہمسایوں سے بھی لڑنا پڑ جائے۔تاہم جہاں ملیشیا کے زیادہ تر ارکان اس جنگ میںنئے ہیںمگر بہت سے نئے نہیں بھی ہیں۔مزار شریف کی شمالی سرحد سے ملحق ضلع نہر شاہی کی ملیشیا میں افغان ہزارہ قبیلے کے لوگ بھی ہیں۔دوسرے جنگجو اور کمانڈرز سوویت افواج یا طالبان کے خلاف لڑ چکے ہیں۔کئی ملیشیا نوجوان 2001ء میں امریکی حملے کے بعد سرکاری فوج میں بھی شامل ہو گئے تھے اور اب فوج کی ملازمت چھوڑ چکے ہیں۔اب ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں رائفلز ہیں ۔لگتا ہے کہ افغانستان میں یہ سلسلہ کبھی نہیں رک سکتا۔یہ تمام ملیشیا فورسز ایک دوسرے سے مختلف ہیں جنگ کی ستائی ہوئی اس قوم کو حکومت اور پاور بروکرز مسلح کر رہے ہیں ۔جب کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کونسا علاقہ کس کے کنٹرول میں ہے۔

بلخ کے سابق گورنر اور ایک نئی ملیشیا کے کمانڈر عطا محمد نور نے نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔خانہ جنگی کے دوران عطا محمد ایک وار لارڈ اور جمعیت اسلامی کا کمانڈر تھا۔2001ء میں امریکی حملے کے بعد وہ بلخ کا گورنر بن گیا اور جب 2017ء میں صدر اشرف غنی نے انہیں برطرف کیا تو انہوں نے اس حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘مگر طالبان کے حملوں کے بعد وہ کشیدہ تعلقات کے باوجود ایک مرتبہ پھر صدر اشرف غنی سے ملا۔اسی ماہ مزار شریف میں اپنی رہائش گاہ میں عطا محمد نور نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز بری طرح ناکام ہو چکی ہیںاور ان نئی ملیشیاز کو ہم نے اپنے وسائل سے مسلح کیا ہے۔جنرل محمد صوفی بلخ میں ایک صوبائی کونسل کا رکن اور مزار شریف کے ایک اور مقتدر شخص عباس ابراہیم زادہ کی سرپرستی میں ایک ملیشیا کمانڈر ہے۔ عباس ابراہیم زادہ اپنے خرچ پر ملیشیا کے ارکان کو کھانا اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ا س کے ہیڈ کوارٹر میں اسلحہ اور گولہ بارود کا ڈھیر ہے جو نجانے کہاں سے آیاہے۔ جنرل صوفی سوویت فوج اور طالبان دونوں کے خلاف لڑ چکاہے۔2003ء میں انہیں غیر مسلح کر دیا گیا تھا مگر ملیشیا بن کر اس نے دوبارہ بندوق اٹھا لی ہے۔ا س نے بتایا کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ہم سمجھے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور ہم نے کاروبار شروع کر دیا۔پھر جنرل نے ایک سسکی لی ۔ا س کے بیڈ کے نیچے ایک کلاشنکوف پڑی تھی جس کا میگزین بھی اس کے اندر ہی تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ یہ بندوق میں نے چند روز پہلے ہی خریدی ہے۔

(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل ،مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement