ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

جرمن سیاست دان آٹو پائلٹ پر

تحریر: اینا ساربری

امریکہ کی طرح جرمنی کو ماضی میں قدرتی آفات کا زیادہ سامنا نہیں کرنا پڑا۔جرمنی کی آب و ہوا معتدل اور جغرافیہ شاندار ہے اس لیے یہاں سمندری طوفان ‘زلزلے اور شدید بارشیں نہیں ہوتیں‘مگر پچھلے دنوں یہ سب کچھ الٹ ہو گیا۔شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں نے ہر طرف تباہی مچا دی جن سے بلجیم ‘سوئٹز رلینڈ اور نیدرلینڈ بھی بری طرح متاثرہوئے۔ دیہات‘ سڑکیں ‘پل اور بجلی کی سپلائی سب کچھ برباد ہو گیا۔170افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں لاپتہ ہوئے ہیں ۔سینکڑو ں زخمی ہو چکے ہیں اور ان گنت لوگ روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔جرمنی ایک صدمے سے دوچار ہے ۔ گھروں کی چھتوں پر کھڑے لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں ۔کاریں پانی میں کھلونوں کی طرح ہچکولے کھا رہی ہیں‘ گھروں کا ملبہ ہمارے ذہنوں میں نقش ہو چکا ہے۔جرمنی میں آخری سیلاب آج سے 20سال پہلے آیا تھا جس کی تباہی کو فراموش کرنا مشکل ہے۔اس وقت جرمنی کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے اور ا س کے سنگین اثرات نظر بھی آرہے ہیں مگر ملکی سیاست پر ا س کا کوئی اثر نہیں ہوا۔دو ماہ بعد ستمبر میں اہم ترین الیکشن ہو نے جا رہے ہیں جس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ 16سال تک چانسلر رہنے والی انگیلا میرکل کی جگہ کون لے گا۔اب تک بارشوں سے ہونے والی تباہی نے انتخابی مہم کو بالکل متاثر نہیں کیابلکہ الٹا سیاسی درجہ حرارت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ‘یہاں تک کہ ہمیں تو جماعتوں کی خطرات سے نفرت کی عکاسی ہو رہی ہے۔گرین پارٹی جس کے بارے گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اس نے یہ اہم موقع گنوا دیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف بڑی جماعتوں نے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کو نظر اندا زکیا ہے‘سب نے اس حوالے سے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں۔سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کہتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف لڑنا انسانی مشن سے کم نہیں ہے۔گرین پارٹی نے اسے ہمارے وقتوں کا سب سے اہم وجودی سوال قرار دیا ہے۔ لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی بھی ماحولیاتی تحفظ اور پائیدا ر ترقی کیلئے جرمن جرأت کو مزیدفروغ دینے کی بات کرتی ہے حتی ٰ کہ مسز میرکل کی کرسچین ڈیمو کریٹک یونین جو اس موضوع پر تذبذب کا مظاہرہ کرتی ہے معیشت کو کاربن فری بنانے کے وعدے کر رہی ہے۔مگر عملی طورپر اس الیکشن مہم میں چانسلر کے امیدوار پر فوکس ہے نہ کہ اس بات پرکہ کوئی پارٹی جرمنی کے مستقبل کے بارے میں کیا ویژن رکھتی ہے۔آرمن لاشے جو پارٹی کے اندر شدید مسابقت کے بعد کرسچین ڈیموکریٹ کے امید وار کے طور پر سامنے آئے ہیں اپنے اس تاثرسے جان نہیں چھڑوا سکے جو انہوں نے کووڈ کے عروج کے دنوں میں قائم کیا تھا۔وہ ابھی تک خود کو قومی قیادت کا اہل ثابت نہیں کر سکے۔

گرین پارٹی کی امید وار اینا لینا بیروبک کے کردار کی زیادہ چھان بین ہو رہی ہے۔نہ صرف یہ کہ وہ اپنی پارٹی سے وصول کی گئی کئی ادائیگیوں کی رپورٹ کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں بلکہ ان کے پیش کردہ کوائف میں بھی کئی غلطیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ان پر یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ انہوں نے جون میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں چربہ سازی کی ہے۔

گزشتہ ہفتے آنے والے سیلابوں نے ہر چیز کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اس لیے اب بحث کاموضوع ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف مڑ گیا ہے۔مگر یہ بات کہیں زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔مثال کے طور پر آرمن لاشے نے اس بات کا اعترا ف کیا ہے کہ شاید یہ سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہوں اور محض چند گھنٹے بعد ہی انہوں نے یہ بیان بھی جاری کر دیا تھا کہ ’’آج کا دن اسی لیے دیکھنے کو ملا کہ آپ اپنی پالیسیوں کوتبدیل کرنے کے لیے تیا رہی نہیں تھے۔‘‘سوشل ڈیموکریٹ کے امیدوار اولف شلز ابھی تک اپنے بطور وزیر خزانہ کارناموں سے ہی چمٹے نظر آرہے ہیں اور لوگوں کو یہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ جس کسی نے بھی لوگوں کو روزگار سے محروم کیا ہے اسے نہیں چھوڑا جائے گاحتیٰ کہ بیروبوک نے بھی کوئی بڑی تجاویز دینے سے احتراز کیا ہے۔متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد جس میں ان کے ساتھ پریس کا کوئی نمائندہ نہیں تھا اپنے اکلوتے انٹرویو میں صرف ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کی اورشدید موسم سے نپٹنے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مقصدکے لیے خاطر خواہ فنڈز مہیا کرے۔ ان کی یہ باتیں مایوس کن تو ہیں مگر باعثِ حیرت نہیں ہیں۔ا س کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ جرمنی کی تمام سیاسی جماعتیں پالیسی کے حوالے سے 2017ء کی الیکشن مہم کے د وران ہی ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں۔کئی باتوں پر ان میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے مثلاً ریاست کو جدید بنانا‘مائیگریشن جیسے مسئلے کا حل کرنا‘یورپی یونین کا استحکام وغیرہ ۔ان کے درمیان پائی جانے والی فالٹ لائنز اب کم ہو چکی ہیں یا کم نظر آرہی ہیں مثال کے طور پر انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’’آلٹر نیٹو فار جرمنی‘‘ کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتیں اس با ت پر متفق ہیں کہ جرمنی کی معیشت میں 2050ء تک کاربن کو نیوٹرل کر دیا جائے۔مگر جب یہ پوچھا جائے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو ان میں طریقہ کار پر سخت اختلافا ت پید اہو جاتے ہیں۔کئی سیاسی جماعتوں مثلاًگرین پارٹی اور کرسچین ڈیموکریٹس میں اتحاد کاتصور بھی ممکن نہیں تھا مگراب کئی ریاستوں میں ایک دوسرے کے قریب دکھائی دیتی ہیں ۔شاید ستمبر کے الیکشن کے بعد ان کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہ ہو اس لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی مہم چلانے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔وہ سب ’’مستقبل کے ممکنہ دوست کو ابھی سے دشمن کیوں بنائیں ‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔پھر ووٹرز بھی ہیں۔اگرچہ ان کی اکثریت ماحولیاتی تبدیلی کے ضمن میں خاصی تشویش محسوس کرتی ہے مگر اس سمت میں کچھ زیادہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ان میں سے صرف59فیصدکا کہنا ہے کہ وہ اپنی عادات اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں‘مگر اس مسئلے کے حل کے لیے ان میں زیادہ جوش و خروش نہیں پایا جاتا۔سب کو ملا کر دیکھا جائے تو انجام کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قابلِ تجدید توانائی ‘نئے انفراسٹرکچر ‘ شدید موسمی حالات کی تیاری پر بحث کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں محض اتنی بات ہی کررہی ہیں کہ اس بحران پر فوری طور پر قابو پایا جانا چاہئے۔اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے وہ ان پیچیدہ سوالات کا سارا بوجھ کسی قابلِ اعتبار لیڈر کے کندھوں پر ڈالنا چاہتی ہیں اس لیے وہ صرف یہی بات پوچھ رہی ہیں کہ آپ کسے ترجیح دیں گے ۔مسٹر لاشے ‘مسز بیئر بک یا مسٹر شلز ؟

اس بحران سے شاید کسی پارٹی کو فائدہ ہو جائے۔مگر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔خوفناک سیلاب المناک توضرور ہیں مگر یہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک موقع بھی تھے کہ وہ ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے عوام کو فوری طور پر تبدیلی کے لیے قائل کرتے۔ہمیں کسی اور موقع کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔

(بشکریہ : نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement