امریکا میں ڈیلٹا وائرس اور ویکسین کا خوف… (1)
تحریر: شیرن لیفرینیر
جب مائونٹین ہوم کی بوٹ فیکٹری نے اس سال موسم بہار میں ویکسین لگانے کی آفر کی تو 62 سالہ ریسیپشنسٹ سوزن جانسن نے یہ سوچتے ہوئے اسے مسترد کر دیا کہ وہ جب تک ماسک لگا کر گھر سے باہر نکلتی رہے گی‘ کورونا سے محفوظ رہے گی۔ 68 سالہ بیوہ لنڈا میریون‘ جو مدت سے امراض سینہ میں مبتلا ہے‘ پریشان تھی کہ ویکسین لگوانے سے اسے کووڈ ہو سکتا ہے اور وہ مر بھی سکتی ہے۔ 74 سالہ گالفر بیلگ میری‘ جوکیلیفورنیا سے ریٹائرڈ ہو کر آئی ہے‘ یہ سمجھتی ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں کبھی بیمار نہیں ہوئی۔ اسی مہینے‘ ایک ہی دن یہ تینوں مریض 2 ویسٹ وارڈ میں داخل ہو گئے جو کووڈ کے علاج کے لیے وقف ہے۔ بیکسٹر ریجنل میڈیکل سنٹر شمالی آرکنساس کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔
مسز بیلگ میری نے خوفزدہ لہجے میں کہا ’’تم سانس نہیں لے سکتے‘‘۔ سوزن جانسن جو 10 دن تک امدادی آکسیجن پر زندہ رہی جو ناک میں ٹیوب ڈال کر اس کے پھیپھڑوں کو فراہم کی گئی تھی۔ لنڈا میریون کہتی ہے کہ ایک مرحلے پر وہ اتنی بیمار اور خوفزدہ ہو گئی تھی کہ وہ سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئی۔ اس نے کہا ’’یہ بہت خوفناک ہے ۔ مجھے ایسے لگا کہ میں یہ ویکسین کبھی نہیں لگوا سکوں گی‘‘ تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی ویکسین لگوانے کے بارے میں اپنا ذہن تبدیل نہ کیا۔ بیلگ میری کا کہنا تھا ’’یہ ویکسین بالکل نئی ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے‘‘۔ اس وقت جب پورا امریکا نارمل حالات کی طرف رواں دواں ہے‘ مائونٹین ہوم جیسے شہروں کے ہسپتال ایک مرتبہ پھر کورونا کے مریضوں سے بھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ 13 ہزار افراد پر مشتمل شہر میسوری کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
محکمۂ صحت کے حکام کہتے ہیں کہ اس اضافے کی بڑی وجہ ڈیلٹا نامی نیا ویری اینٹ ہے جو کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور امریکا کے تمام نئے کیسز میں سے نصف میں یہی وائرس پایا گیا ہے۔ ڈیلٹا ویری اینٹ نے امریکا میں ایک نئی تقسیم پیدا کر دی ہے جس میں ایک طرف وہ کمیونٹیز ہیں جن میں ویکسین لگوانے کی شرح بہت بلند ہے اور یہاں نئے کیسز نہ ہونے کے برابر ہیں اور دوسری طرف مائونٹین ہوم جیسے شہر ہیں‘ جہاں ویکسین لگوانے والوں کی شرح بہت نیچے ہے اور لوگوں کی زندگیاں ایک بار پھر خطرے سے دوچار ہو گئی ہیں۔ ملک کے ایک حصے نے ویکسین لگنے کے بعد سکون کا سانس لیا ہے اور دوسرے حصے میں لوگوں کے لیے ڈیلٹا ویری اینٹ کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ امریکا کی آدھی سے زیادہ کائونٹیز‘ جن میں ویکسین لگانے کی شرح بہت کم تھی‘ وہاں اس مہینے انفیکشن کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ایک تجزیے کے مطابق25 کائونٹیز میں تو انفیکشن بہت تیزی سے پھیلا۔ ان میں ایک کائونٹی کے 40 فیصد سے کچھ کم باسیوں نے ویکسین لگوا رکھی تھی۔ 16 کائونٹیز کے 30 فیصد سے کچھ کم باسیوں نے ویکسین لگوا رکھی تھی۔ بیکسٹر کائونٹی‘ جہاں ایک تہائی سے بھی کم لوگوں نے ویکسین لگوائی ہے اور یہ ہسپتال بھی یہیں واقع ہے‘ کی شرح ملکی اور ریاستی اوسط شرح سے بھی کم ہے۔ یہ ہسپتال اردگرد کی کائونٹیز کو بھی ویکسین سروس فراہم کرتا ہے مگر وہاں کے بھی کم باسیوں نے ہی ویکسین لگوا رکھی ہے۔ ایک پلمانالوجسٹ ڈاکٹر ریبیکا مارٹن نے‘ جو وارڈ 2 ویسٹ کا رائونڈ لگا رہی تھیں‘ بتایا ’’اب یہ وارڈ پوری طرح بھر چکا ہے‘‘۔
جون کے پہلے پندرہ دنوں میں روزانہ کووڈ کے اکا دکا مریض ہی آتے تھے مگر پچھلے ہفتے اس کے کووڈ کے مریضوں کے لیے وقف 32 بیڈز میں سے 22 بیڈز پر مریض زیر علاج تھے۔ 5 مریض آئی س یو میں تھے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر مریضوں کی تعداد میں ایک تہائی اضافہ ہو گیا۔ آبادی کے لحاظ سے جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے‘ آرکنساس ان سب ریاستوں میں نیچے آتا ہے۔ اب تک صرف 44 فیصد شہریوں کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لگی ہے۔ نیشنل گارڈ کے ریٹائرڈ کرنل رابرٹ اٹور‘ جو ریاست کا ویکسین پروگرام چلا رہے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’جناب! ہم انسانی سوچ میں آنے والی ہر کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں۔ دنیا میں ایسا کوئی حربہ یا طریقہ نہیں ہے جو ہم نے ان لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ اس کے بعد ہی ہم ہر تین میں سے ایک شہری کو ویکسین لگا سکے ہیں‘‘۔
اس کے لیے ریاست ایک بھاری قیمت بھی چکا رہی ہے۔ وسط مئی سے ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد چار گنا ہو چکی ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ مریض آئی سی یو میں ہیں۔ ہیلتھ حکام کے مطابق شرح اموات بھی بڑھنے کی توقع ہے۔ ریاست کے ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹر جوز رومیرو کہتے ہیں کہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کی آرکنساس کے شہریوں کی بڑی اکثریت کو ویکسین لگائی جا چکی ہے یا وہ دسمبر اور جنوری کے تاریک دنوں کے مقابلے میں زیادہ امیون ہو چکے ہیں۔ ’’اس وقت مجھے یہ تشویش لاحق ہے کہ نئے کیسز میں اضافے کی امید ہے اور آگے موسم سرما میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ اس طرح ہمیں اضافے پر اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ یونیورسٹی آف آرکنساس فار میڈیکل سائنسز کے کالج آف پبلک ہیلتھ کے ڈین ڈاکٹر مارک ولیمز کہتے ہیں کہ ڈیلٹا ویری اینٹ ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے امریکی ریاستوں میں پھیل رہا ہے۔ یہ ریاست کے ان افراد کے ذریعے پھیل رہا ہے جنہیں ابھی تک ویکسین نہیں لگ سکی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ شاید ہسپتال یہ بوجھ نہ برداشت کر سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’ہم یقینا اس کی خطرناک حدکو چھو چکے ہیں‘‘۔
بیکسٹر ریجنل ہسپتال میں بہت سے ڈاکٹرز اور نرسز‘ جو پہلے ہی کووڈ سے لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں‘ ایک نئی لہر کا انتظار کر رہے ہیں۔ پلمانالوجسٹ ڈاکٹر مارٹن‘ جو اپنے مریضوں کی نگہداشت کے لیے معروف ہیں‘ کا کہنا ہے کہ مجھے تو PTSD جیسے دورے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسی بات کرنا قدرے خود غرضی کے مترادف ہے مگر بدقسمتی سے یہی حقیقت ہے۔ یہ بات کہ لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے کا مطلب تو یہ ہے کہ میں اپنے گھر جا سکتی ہوں نہ اپنے بچوں کے ساتھ ڈنر کر سکتی ہوں۔
جو بائیڈن حکومت اس بات کے لیے پُرعزم ہے کہ وہ ویکسین لگوانے کی ایک اشتہاری مہم اور گھر گھر ہیلتھ ورکرز کو بھیج کر شہریوں کے ٹیسٹ اور علاج کرے گی مگر ان تمام حربوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ڈاکٹر رومیرو کہتے ہیں کہ ریاست آرکنساس بڑی خوشدلی سے مونوکل اینٹی باڈی تھیراپی کو قبول کر لے گی جو کووڈ کا ایک مقبول طریقہ علاج ہے مگر دوسری طرف ویکسین مہم کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر اٹور کہتے ہیں ’’گھر گھر دروازوں پر دستک دینے سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہونے کا احتمال ہے کیونکہ اس سے وفاقی حکومت کے عزائم کے بارے میں شہریوں کے ذہنوں میں زیادہ شکوک جنم لیں گے‘‘۔ (جاری)