امریکا میں ڈیلٹا وائرس اور ویکسین کا خوف… (2)
تحریر: شیرن لیفرینیر
ریاست آرکنساس کے ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹر رومیرو اور ویکسین مہم کے انچارج ڈاکٹر اٹور‘ دونوں کا اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ آرکنساس کے لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے لیے بے شمار ترغیبات اور پروموشنز دی جا چکی ہیں جن میں لاٹری ٹکٹس، شکار اور فشنگ لائسنس وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ویکسین لگانے کا آخری بڑا عوامی ایونٹ 4 مئی کو ہوا تھا جب ایک چھوٹی لیگ بیس بال ٹیم ’’آرکنساس ٹریولرز‘‘ نے کووڈ کے بعد پہلی مرتبہ میچ کھیلا تھا۔ لٹل راک سٹیدیم میں ہزاروں لوگ میچ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ یہاں بھی 14 افراد نے ویکسین لگوائی تھی، یہاں تک کہ ہیلتھ کیئر ورکرز نے بھی ویکسین لگوانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
ڈاکٹر رومیرو نے بتایا کہ پوری ریاست میں ابھی تک صرف 40 فیصد لوگوں کو ہی کووڈ کی ویکسین لگ سکی ہے۔ اپریل میں ریاست نے ایک نئے قانون کے تحت ایک اضافی رکاوٹ یہ ڈال دی کہ کوئی بھی ریاست یا اس کاکوئی ذیلی ادارہ تعلیم یا ملازمت کے لیے ویکسین لگوانے کو اس وقت تک لازمی قرار نہیں دے سکتا جب تک کہ ایف ڈی اے کو اس ویکسین کی تیاری کے لیے کمپنی کو لائسنس جاری کیے ہوئے 2 سال یا اس سے زائد مدت نہ ہو گئی ہو۔ اس کا تو صاف مطلب یہی ہے کہ 2023ء کے آخر تک کوئی ایسی شرط عائد نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ہمیں صرف ڈیلٹا ویری اینٹ کا خوف پریشان کیے ہوئے ہے۔
ڈیلٹا ویری اینٹ کے ہیلتھ کوآرڈی نیٹر جونی ہاروے کے مطابق‘ جب کووڈ کا آغاز ہوا تھا تو بیکسٹر ریجنل ہسپتال کو ویکسین کی تقسیم کا سنٹر بنا دیا گیا تھا اور 5500 لوگوں کو ویکسین لگائی گئی تھی مگر ہسپتال کے اپنے سٹاف میں سے صرف نصف یعنی 1800نے ہی کورونا ویکسین لگوائی تھی۔ جون کے شروع میں تو ویکسین کی ڈیمانڈ اس قدر کم ہو گئی تھی کہ ہسپتال میں روزانہ صرف ایک ہی شہری کو ویکسین لگ رہی تھی۔ مسٹر ہاروے نے بتایا ’’اب میں ویکسین کی 30 خوراکیں روزانہ فراہم کرنے کا آرڈر دے رہا ہوں کیونکہ اب لوگ ڈیلٹا ویری اینٹ کے بارے میں بہت تشویش محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کی بہت تکلیف محسوس ہو رہی ہے کہ نئے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو ویکسین لگا رہے ہیں‘‘۔
یونیورسٹی آف آرکنساس فار میڈیکل سائنسز کے تحت لٹل راک میں صرف ایک میڈیکل سنٹر چلایا جا رہا ہے جہاں اب ویکسین بہت مقبول ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں سٹاف میں ویکسین لگوانے والوں کی شرح 75 فیصد سے بڑھ کر 86 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یہ تمام حوصلہ افزا اشاریے کووڈ کے نئے کیسز میں اضافے کی وجہ سے اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔ ہفتے کے دن لٹل راک ہسپتال میں 51 سے زائد مریض آئے تھے جو 2 فروری کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اپریل میں کورونا وائرس سے صرف ایک موت واقع ہوئی تھی جبکہ جون میں یہ تعداد بڑھ کر 6 ہوگئی۔ ڈاکٹر ولیمز‘ جو کورونا کا سارا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ انفیکشن اور ہسپتال میں داخلے کی تعداد میں اضافے سے اسی بات کی عکاسی ہو رہی ہے جو میں اکتوبر میں دیکھ چکا ہوں۔ اس کے علاوہ بھی تکلیف دہ اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت انفیکشن کا شکار ہونے والوں کی بڑی تعداد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہے۔ لٹل راک ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر سٹیپی میٹ نے کہا ہے ’’شروع کے دنوں میں آنے والے مریضوں کے مقابلے میں موجودہ مریضوں کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرور ت ہے‘‘۔ حالانکہ یہ مریض ان کے مقابلے میں کہیں جوان ہیں۔
آرکنساس میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریض کی اوسط عمر میں دسمبر سے دس سال کی کمی یعنی 64 سال سے کم ہو کر 54 سال ہو گئی ہے جس سے اس بات کی عکاسی ہو رہی ہے کہ عمر رسیدہ افراد میں سے تین چوتھائی کو ویکسین لگ چکی ہے مگر لٹل راک ہسپتال میں داخل کئی مریضوں کی عمریں 20 اور 30 سال کے درمیان ہیں۔ ڈاکٹر میٹ کا مزید کہنا تھا ’’نوجوان اور بیمار لوگوں کو دیکھنا یقینا حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے پہلی وبائوں کے دوران ہم نے اس سطح کی بیماری نہیں دیکھی‘‘۔ اس سے قبل کورونا وائرس سے متاثرہ کوئی حاملہ مریضہ شاذ و نادر ہی ہسپتال میں نظر آتی تھی مگر حالیہ دنوں میں تو ان میں سے چار پانچ کو آئی سی یو میں بھی جانا پڑا۔
ان میں سے تین کا علاج جس مشین سے کیا گیا اسے ECMO کہتے ہیں۔ اگر وینٹی لیٹر بھی کام نہ کرے تو اس مشین کاسہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ مشین انسانی جسم سے خون لیتی ہے اور پھر اس میں آکسیجن شامل کرکے اسے دوبارہ مریض کے جسم میں پمپ کر دیتی ہے۔ ایک کائونٹی کے پراسیکیوٹر آفس کی 25 سالہ آشٹن ریڈ 7 ماہ کی حاملہ تھی‘ جب وہ شدید بیمار ہو کر 26 مئی کو ہسپتال آئی تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کی زندگی بچانے کے لیے پہلے تو سیزیرین آپریشن کے ذریعے بچے کی ڈلیوری کرائی اور پھر اسے ECMO مشین کے ساتھ جوڑ دیا۔ ویکسین لگوانے کے لیے ایک پبلک سروس مسیج میں اس کے شوہر نے بتایا کہ وہ پہلے سائینَس کا شکار ہوئی اور صرف 10 دن کے اندر آئی سی یو تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی نے بتایا ’’میں تو مر ہی گئی تھی۔ اب ویکسین کے بارے میں میرے خیالات بالکل تبدیل ہو گئے ہیں‘‘۔
گزشتہ ماہ ہسپتال کے اس کورونا وارڈ کو دوبارہ کھولنا پڑا جسے پچھلے موسم بہار میں بند کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسے دوسری بار کھول دیا گیا۔ 49 سالہ ڈیوڈ ڈائچر‘ جو ایئر فورس کا سابق ایئر کنڈیشننگ سپیشلسٹ ہے‘ 10 دن تک اپنے گھر میں ہی کووڈ کے خلاف لڑتا رہا۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو اسے 105 ڈگری بخار تھا۔ اس تجربے نے تو اس کو ہلا کر رکھ دیا ہے جسے بیان کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو اچھل رہے تھے۔ وہ اپنی جذباتی سوچ پر خاصی شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں نے پہلے کبھی ویکسین نہیں لگوائی تھی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ چہرے پر ماسک لگا لینا ہی کافی ہے۔ گزشتہ 21 برسوں میں اسے صرف ایک مرتبہ فلو ہوا تھا۔
ڈیوڈ ڈائچر 9 جولائی کو صحت یاب ہو کر واپس اپنے گھر جا چکا ہے۔ جاتے جاتے وہ اپنے پانچ پوتے پوتیوں میں سے ایک کے لیے وہ گیت بھی لے گیا ہے جو اس نے ہسپتال کے بیڈ پر ان کے لیے لکھا تھا۔ اس کے گیت کا مرکزی خیال زندگی کی قدر و قیمت اور اہمیت ہے۔ (ختم)
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)