ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکا میں نسل پرستی کا رجحان …(1)

تحریر: ڈیوڈ بروکس

 نسل پرستی پر ہونے والے ہر مباحثے میں ایک ہی سوال سرفہرست ہوتا ہے کہ امریکا کتنا نسل پرست ہے؟ ہر انسان جو دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان رکھتا ہے‘ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ماضی میں امریکا کے مقامی باشندوں پر کس قدر ظلم اور جبر روا رکھا گیا تھا، وہ غلامی اور جم کرو (Jim Crow) کے بارے میں بھی پوری آگاہی رکھتا ہے لیکن کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکا آج بھی ایک سفید فام بالادستی پر یقین رکھنے والی نسل پرست قوم ہے، کیا یہ سمجھا جائے کہ سفید فام ہونا ایک ایسا کینسر ہے جو دوسرے لوگوں پر ظلم وستم روا رکھنے پر مجبور کرتا ہے؟ یا یہ سمجھا جائے کہ ہم نے سفید فام نسل پرستی پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے اور اب یہ محض امریکا کی تاریخ اور ماضی کا حصہ بن چکا ہے؟ ان سوالات کے کئی طرح سے جواب دیے جا سکتے ہیں۔ سب سے اہم طریقہ تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی نسل پرستی سے براہِ راست اورسب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں‘ ان کے ساتھ پوری دیانت داری کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ زندگی میں مواقع تک رسائی کے لیے ان کی راہ میں کتنی رکاوٹیں حائل ہیں؟ کیا ہر گروپ کو امریکی آدرشوں کے مطابق منصفانہ مواقع ملے ہیں؟ یہ اپروچ کامل یا درست نہیں ہے مگر اس سے محض تھیوری یا مفروضے کے بجائے تجرباتی ڈیٹا کی نشاندہی تو ضرور ہو جاتی ہے۔

ہم جب اسی معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاہ فام امریکی شہریوں کے ماضی کے تجربات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات ہم پر مکمل عیاں ہو جاتی ہے کہ ابھی تک ان کے لیے مواقع کی راہ میں بہت دور ہے اور بیچ میں غیر منصفانہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ سفید فام اور سیاہ فام خاندانوں کی آمدنی میں جو بنیادی تفاوت 1968ء کے عشرے میں پایا جاتا تھا‘ ان کی آمدنی میں پائی جانے والی وہی خلیج ہمیں 2016ء کی دہائی میں بھی نظر آتی ہے بلکہ ان برسوں کے دوران سفید اور سیاہ فام خاندانوں کی آمدنی اور دولت میں پایا جانے والا خلا پہلے سے بھی بڑا اور سنگین ہو چکا ہے۔ سفید فام بالغ امریکیوں کے مقابلے میں سیاہ فام بالغ امریکی افراد میں یہ امکانات 1 گنا زیادہ پائے جاتے ہیں کہ وہ پچھلی تین نسلوں سے غربت کی چکی میں پسنے والوں خاندانوں میں ہی پرورش پا رہے ہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہو چکا ہے کہ نسل پرستی آمدنی کی اس عدم مساوات کو فروغ دینے میں کس قدر اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب 2004ء میں ریسرچرز نے ایک جیسی تعلیمی قابلیت رکھنے والے سفید اور سیاہ فام امیدواروں کو ملازمت کے حصول کے لیے نیویارک شہر میں انٹرویو دینے کے لیے بھیجا تو ان سب کو ایک جیسا لباس پہنایا گیا اور ان سب کو انٹرویو میں ایک جیسے سوالات پوچھے گئے اور انہوں نے ایک جیسے جواب دیے مگر ریسرچرز نے دیکھا کہ سفید فاموں کے مقابلے میں آدھے سیاہ فام امیدواروں کو ہی ملازمت کے لیے کال یا ملازمت کی آفرز ملیں۔

جب آپ سیاہ فام امریکی شہریوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں امریکا کے چپے چپے پر غلامی، علیحدگی اور نسل پرستی سے متعلق ہر طرح کے اثرات اور نشانیاں نظر آتی ہیں۔ جب ہم ورثے میں ملنے والی یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان تلخ حقائق پر ’’منظم نسل پرستی‘‘ والا محاورہ سب سے موزوں ٹھہرتا ہے جس میں سرخ لائن والے سٹرکچرز سب سے اہم ہیں جنہوں نے سیاہ فاموں کی دولت اور ان کے لیے دستیاب مواقع پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ نسل پرستی کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ ہم اس کے پاس سے آرام سے گزر جائیں گے۔ یہ تو معاشرے کے اندر جذب ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ سکول میں زیر تعلیم ہر بچے کو نسل پرستی جیسی تلخ حقیقت کے بارے میں شعور اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔

کیا اس بات سے ہمیں یہ مفہوم لینا چاہئے کہ امریکی ایک سفید فام بالادستی پر یقین رکھنے والی شرم سے عاری قوم ہے؟ کیا ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ امریکی خواب سے مراد صرف سفید فام نسل ہی کے حقوق ہیں۔ اگر یہ با ت ہے تو ہم تارکین وطن کے مختلف گروپس سے متعلق اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ جب ہم اس ڈیٹا کا عمیق مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی مشکل اور دور رسا محسوس نہیں ہوتیں مثال کے طور پر جیسا کہ بلوم برگ سے تعلق رکھنے والے نووا سمتھ نے حال ہی میں اپنے سب سٹیک پیج پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ حالیہ مہینوں میں ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کی آمدنی میں امریکا کے دیگر بڑے گروپس کے مقابلے میں کہیں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ہسپانوی نسل کے 40 فیصد بچوں‘ جنہوں نے غربت و افلاس کے مارے خاندانوں میں آنکھ کھولی تھی‘ کا تعلق مڈل کلاس یا اس سے اوپر کے طبقے سے ہے ۔ اس امر کا سفید فام امریکیوں کی آگے بڑھنے کی شرح کے ساتھ بخوبی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

ہسپانوی نسل نے قدرے تاخیر کے ساتھ‘ مگر تعلیم کے میدان میں حیران کن ترقی دکھائی ہے۔2000ء میں 30 فیصد سے زائد ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے وا لے بچوں نے ہائی سکول سے اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا جبکہ 2016ء میں ڈراپ آئوٹ ہونے کی شرح 10فیصد تک گر گئی ۔ 1999ء میں 18 سے 24 سال کی عمر کے ایک تہائی ہسپانوی بچے کالج میں زیر تعلیم تھے مگر اب نصف ہسپانوی بچے کسی نہ کسی کالج کے طالبعلم ہیں۔ 2012ء میں کالج میں داخل ہونے والے ہسپانوی طلبہ نے سفید فام بچوں کی تعداد کو بھی مات دے دی تھی۔ ہسپانوی نژاد امریکی شہریوں کا تجربہ بھی بالکل ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا کہ آئرش امریکیوں، اطالوی امریکیوں یا دیگر تارکین وطن کا تجربہ تھا یعنی ایک مدت تک انہیں جدوجہد کرنا پڑی اور پھر وہ امریکا کی مڈ ل کلاس میں ضم ہو گئے۔ پرنسٹن، سٹین فورڈ اور کیلیفورنیا یونیورسٹیز کے سکالرز نے ڈیوس میں ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ آج کے تارکین وطن کے بچے مڈل کلاس میں ضم ہونے کے لیے آج سے ایک صدی پہلے آنے والے تارکین وطن کے بچوں سے کسی طرح بھی سست رفتار نہیں ہیں۔

یہ بات بھی اتنی اہم نہیں ہے کہ ان بچوں کے والدین بھی ان ممالک سے آئے ہیں جہاں سے لوگ غربت اور بدحالی کی وجہ سے فرار ہو رہے ہیں یا ان ملکوں سے آ رہے ہیں جہاں کے تارکین وطن مارکیٹ سے ہم آہنگ مہارتوں سے لیس ہو تے ہیں، تارکین وطن کے بچوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement