امریکہ میں نسل پرستی کا رجحان …(2)
تحریر: ڈیوڈ بروکس
اس معاشی خوشحالی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ امیگرنٹ گروپس کو مشکلات ‘تعصب اور استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔امریکی تاریخ میں ہر امیگرنٹ گروپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا ہے۔اس کا صرف ایک ہی مفہوم ہے کہ تعلیم اور آگے بڑھنے کی لگن آپ کو ہرطرح کے تعصب کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔اسی سٹڈی کے مطابق یہ امیگرنٹ گروپس اس لیے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ وہ جہاں آتے ہیں وہاں بے شمار مواقع پہلے سے ان کے منتظر ہو تے ہیں۔وہ اپنے ارد گر دموجود لوگوں سے اگر بہت زیادہ نہیں کماتے تو ان کے ساتھ مل کر زیادہ ضرور کما رہے ہوتے ہیں۔
معاشی ترقی ایک الگ بات ہے۔ ثقافتی ادغام کے بارے میں کیا خیال ہے؟نیشنل اکیڈیمیز آف سائنسز ‘انجینئر نگ اینڈ میڈیسن کی ایک سٹڈی کے مطابق ان تارکین وطن اور ان کے بچوں کی زندگیاں اچھے یابرے طریقے سے ان کے مقامی طور پر پیدا ہونے والے ہمسایوں کے ساتھ مدغم ہو رہی ہیں۔ اس امر کا اطلاق اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر تعلیم یافتہ ہیں ‘وہ کہاں رہتے ہیں‘وہ کونسی زبان بولتے ہیں‘ان کی صحت کیسی ہے اور وہ اپنا خاندانی نظام کس طرح چلاتے ہیں۔برائون یونیورسٹی کے سوشیالوجسٹس نے ایک سٹڈی کے بعد بتایا کہ میکسیکن امیگرنٹس نان میکسیکن تارکین وطن کے مقابلے میں انگلش بہتر انداز میں سیکھتے ہیں۔اس انضمام کا ایک نتیجہ باہمی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔پیو ریسرچ سنٹر کی 2017ء کی ایک سٹڈی کے مطابق 29فیصد ایشیائی نژاد امریکیوں نے کسی دوسرے نسلی گروپ سے تعلق رکھنے والے فردکے ساتھ شادی کی ہوئی ہے جبکہ ہسپانوی نژاد امریکیوں میں یہ شرح 27فیصدہے۔ سفیداور سیاہ فام امریکی شہریوں میں باہمی شادی کی شرح بھی تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔35فیصدامریکیوں کا کم از کم ایک رشتے دار کسی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس انضمام کے نتیجے میں ان کی شناخت اور پہچان بھی مشترک ہوتی جا رہی ہے۔ چند سال پہلے یہاں اکثر یہ بات سننے میں آتی تھی کہ امریکہ میں بہت جلد اکثریت ایک اقلیت میں بدلنے والی ہے۔یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر امریکی عوام کو پوری سختی سے سفید فام اور غیر سفید فام میں تقسیم کر دیا جائے۔مگر انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ بہت جلد کسی بڑی نسلی شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ایک ریسرچ کے مطابق 52 فیصدامریکی شہری جو اس وقت خود کو غیر سفید فام کہلاتے ہیں سینسس بیورو کے مطابق2060ء تک یہ لوگ خو دکو سفید فام سمجھنا شروع کر دیں گے۔ چالیس فیصد امریکی جو اس وقت خو دکو سفید فام کہلاتے ہیں کچھ دیر بعد خود کوایک نسلی اقلیت کہلانا شروع کر دیں گے۔
دی اٹلانٹک کے ایک آرٹیکل کے مطابق یہ کہنا کہ کیا اکیسویں صدی کے وسط تک امریکہ میں سفید فام اکثریت رہے گی زیادہ قابل فہم نہیں لگتا کیونکہ سفید اور غیر سفید فام کا سماجی مفہوم ہی بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔اس طرح کی تقسیم کا اطلاق بہت ہی کم امریکیوں پر ہوگا۔جب ہم ان گروپس کے ڈیٹا کو دیکھتے ہیں تو یہ عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اول : آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ امریکیوں کو ’’رنگدار لوگ ‘‘ کہنے سے کیا مسئلہ ہوتا ہے۔اس گروپ کے لوگوں کو مختلف تجربات اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شاید ایسا کہنے سے ان کی شناخت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ڈیمن ینگ کا موقف ہے کہ رنگدار لوگ کی اصطلاح ایک لسانی علامت بن گئی ہے کیونکہ سفید فام لوگ انہیں سیاہ فام کہنے میں کچھ دشواری محسوس کرتے ہیں۔
دوم : اب وقت آگیا ہے کہ ٹکر کارلسن اور انتہائی دائیں بازو میں مروجہ اس تھیوری کو دفن کر دیا جائے کہ تمام غیر ملکی امریکہ پرقبضہ کر لیں گے۔یہی بات سفید فام امریکیوں کو پریشان کرتی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر یہ خوف درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تارکین وطن جزوی طو رپر اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اپنی نئی شناخت میں ڈھل جائیں گے۔ یہی کچھ صدیوں سے ہوتا آرہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔اس طرح کے انضمام سے امریکہ کی شناخت کو کچھ نہیں ہوگا ۔یہ امریکہ ہی رہے گا۔آخری با ت یہ کہ ایسا کہنا درست نہیں لگتا کہ امریکہ اتنا واضح طورپرمتحارب نسلی گروپس میں تقسیم ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے جس میں مجموعی طو رپر کسی بھی گروپ کوکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ایک سفید فام ہونے کے ناتے ابھی یہ صرف میرا نقطہ نظر ہے مگر میں نے تاریخی ریکارڈ کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ گروپس اچھے انداز میں ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں مگر کسی حد تک اپنی شناخت اور کلچر کوبھی برقرار رکھتے ہیں۔امریکی معاشرے میں یہ انضمام سفید فام اور غیر سفید فام کی تقسیم کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
Opportunity Insights کے راج چیٹی اور ان کی ٹیم کئی سال سے آمدنی اور ترقی کے حوالے سے زبر دست کام کرنے میں مصروف ہے۔انہیں معلوم ہوا ہے کہ سیاہ فام امریکی اور آبائی امریکی (Native) شہریوں میں ترقی کرنے کی شرح اس لیے بہت کم ہے کیونکہ انہیں تا ریخی طور پر ہمیشہ سے امتیازی سلوک کا سامنا رہاہے۔تاہم چیٹی کی ٹیم کا اس بات پر بھی شدیداصرار ہے کہ یہ تفاوت ختم کیا جا سکتا ہے ‘مثال کے طو رپر ہم جن کم شرح غربت والے اور کم نسلی تعصب کے شکار لوگوں کو بہتر مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں انہیں ہائوسنگ واؤچرز اور دیگر گرانٹس کے ذریعے مدد کی جاتی ہے تو ایسی ہی مدد تمام نسلی گروپس کو بھی فراہم کی جاسکتی ہے تاکہ وہ بہتر آمدنی والی زندگی گزار سکیں اور ان کے بالغ نوجوانوں میں جیل جانے کی شرح کم ہو سکے۔
امریکہ میں پائے جانے والے حقائق سٹرکچرل نسل پرستی سے متعلق حقیقت اور اس سچائی کے گرد گھومتے ہیں کہ امریکہ دنیا بھر سے آنے والے مختلف گروپس کو ترقی کے لیے حیران کن مواقع فراہم کرنے والی سر زمین ہے۔اس کی اس پیچیدہ سچائی کو آسان الفا ظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔اسی ماہ میں نے ایک سیاہ فام خاتون کو ایک ٹی شرٹ پہنے دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ ’’میں اپنے آبا واجداد کاشدید جذباتی خواب ہوں۔‘‘ اسے پڑھ کر مجھے کچھ اس طرح کا پیغام ملا جیسے کہ یہ اس کی طرف سے بغاوت‘ تفاخر ‘عزم اور امید کا اظہار ہو۔اگر آپ اپنے ذہن میں اس طرح کے مختلف جذبات کو پنپنے کا موقع دے سکتے ہیں تو آپ اس مختلف سرزمین سے مختلف احساسات بھی لے سکتے ہیں۔ (ختم)
(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)