ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

سائبر حملے‘ ایک منظم جرم

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

سکرین بالکل صاف ہو گئی۔ پھر اس پر ایک دھندلا سا پیغام نظر آنے لگا۔ گوگل پر اس کا انگریزی ترجمہ کیا تو اس میسج میں کہا گیا تھا کہ آپ کی فائل ہیک کر لی گئی ہے۔ اب یہ آپ کے کسی کام کی نہیں ہے۔ اگر آپ اسے پھر سے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تاوان بھرنا ہو گا۔ تھوڑی بہت لیت و لعل کے بعد آپ بٹ کوئن یا کسی دوسری کرنسی میں یہ تاوان ادا کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں جو عموماً روس میں قائم کسی گینگ کو دینا پڑتا ہے۔ آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس ہی نہیں ہوتی۔ پورے کمپیوٹر سسٹم کو ازسر نو ری بلڈ کرنے کے مقابلے میں آپ کو یہ تاوان دینا آسان تر لگتا ہے جس میں وقت کی بھی بچت ہو جاتی ہے۔ مستقبل میں کسی پریشانی یا مشکل سے بچنے کی غرض سے متاثرہ لوگ پولیس کو بھی رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

کمپیوٹر سسٹم سے تاوان کے لیے ہونے والے حملوں میں اکثر ہسپتالوں، سکولوں حتیٰ کہ بڑے شہروں کا اہم انفراسٹرکچر مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ جعلی ای میلز کی مدد سے ہیکرز پورے کمپیوٹر سسٹم پر قابض ہو سکتے ہیں، پاس ورڈ اورذاتی ڈیٹا چوری کر سکتے ہیں اور آپ کو دوبارہ اپنے سسٹم تک رسائی دینے کے لیے آپ سے تاوان کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

لگ بھگ ایک عشرے سے کمپیوٹر سسٹم کی مدد سے تاوان مانگنا ہمارے عہد کا سنگین سائبر مسئلہ بن چکا ہے اور صدر جو بائیڈن کے لیے یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ وہ جون میں صدر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس بات کو اپنے ایجنڈے میں سر فہرست رکھتے، کانگرس کے ارکان کے لیے بھی یہ فرض اولین بن گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کے لیے کام کریں جس کے تحت دیگر کاموں کے علاوہ متاثرہ فرد کے لیے ضروری ہو کہ وہ سائبر حملے کے بارے میں حکومت کو اطلاع دے۔ یہ ایسی جنگ ہے جسے لڑنا اور جیتنا بھی ضروری ہے۔ بھتے کا بزنس جرائم پیشہ افراد کا ایک چھوٹا سا نیٹ ورک چلاتا ہے جو بھاری منافع کمانے کا خواہشمند ہونے کے علاوہ پوری معیشت کو ہلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ نیٹ ورک اہم انٹر پرائزز اور ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ بن جاتا ہے۔

کولونیل پائپ لائن پر ہونے والے سائبر حملے سے فوری طور پر امریکا بھر میں ایندھن کی قلت پیدا ہو گئی تھی اور جنوب مشرقی امریکا میں شدید پریشانی پھیل گئی تھی۔ ایف بی آئی کی کرائم رپورٹ برائے 2020ء میں امریکا پر 2474 سائبر حملے ریکارڈ ہوئے تھے جن میں کل 29.1 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا تھا مگر حقیقت اس سے کافی مختلف ہے۔ بہت سے مقدمات کا اندراج ہی نہیں ہو سکا۔ جرمنی کی ڈیٹا جمع کرنے والی فرم Statista کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 2020ء میں کل 304 ملین سائبر حملے ہوئے جو 2019ء کے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہیں۔ Statista کے مطابق ان میں سے زیادہ تر حملے پروفیشنل سیکٹر پر ہوئے جن میں وکلا، اکائونٹنٹس اور کنسلٹنٹس شامل ہیں۔

اس میں جتنا بھی حقیقی سکوپ ہو، بے شک سکیورٹی ایکسپرٹ کہتے رہیں کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے حفاظتی اقدام سے بھی مدد ملتی ہے مگر یہ مسئلہ ٹکڑیوں میں، اینٹی وائرس سافٹ ویئر لگانے یا دہری تصدیق کرانے سے حل نہیں ہو گا۔Silverado Policy  Accelerator کے چیئرمین اور رینسم ویئر پر ایک اتھارٹی مانے جانے والے ڈمتری ایلپیرو وچ کہتے ہیں ’’ہم اس مسئلے کے خلاف اپنا دفاع نہیں کر سکتے‘‘۔ یہ جنگ کسی اور محاذ پر لڑی جانی چاہئے اور اس کے لیے مناسب میدان روس ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ہیکرز جنم لیتے ہیں۔ تین دیگر ممالک چین، ایران اور شمالی کوریا ہیں اور ان میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان سب ممالک میں سخت گیر حکومتیں قائم ہیں اور ان کے سکیورٹی ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ہیکرز کون ہیں اور وہ انہیں ایک منٹ سے بھی پہلے اس کام سے روک سکتے ہیں۔ لہٰذا رائے یہ ہے کہ ان مجرموں کا رشوت کے ذریعے تحفظ کیا جاتا ہے جو بظاہر انہیں منافع کی شکل میں دی جاتی ہے اور وہ اسے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں یا وہ خیر سگالی کے طور پرحکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ میں لکھے ہوئے اپنے ایک آرٹیکل میں مسٹر الپیرووچ اور روس پر ایک ایکسپرٹ میتھیو روجانسکی‘ جو ولسن سنٹر میں قائم کینن انسٹیٹیوٹ کے سربراہ بھی ہیں‘ کہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کو اپنے روسی ہم منصب صدر ولادیمیر پیوٹن کو واضح پیغام دینا چاہئے کہ ان ہیکر ز کے خلاف کریک ڈائون یا کوئی اور سخت اقدام کریں۔ اگر روس ایسا نہیں کرتا تو بائیڈ ن حکومت کو چاہئے کہ وہ روس پر وہاں ضرب لگائے جہاں اسے تکلیف پہنچے یعنی اس کی بڑی بڑی گیس اور آئل کمپنیوں پر اقتصادی پابندیا ں عائد کر دی جائیں جو روسی حکومت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ روس کے لیے سرخ لائن کھینچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بہتر ہو گا کہ روس کو یہ پیغام نجی سطح پر دیا جائے تاکہ عوامی سطح پر یہ احساس نہ پیدا ہو کہ صدر پیوٹن امریکا کے سامنے جھک گئے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ صدر بائیڈن پہلے ہی روس کو یہ پیغام دے چکے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اس کے فالو اپ کے لیے تیار رہنا چاہئے۔

سائبر ہیکنگ سے متعلق دوسرا اہم مسئلہ کرپٹو کرنسی ہے۔ حقیقت کو پیش نظر رکھاجائے تو ایک عشرہ قبل کرپٹو کرنسی کے منظر عام پر آنے سے بھی قبل ان سائبر حملوں کے ذریعے تاوان لینے کا سلسلہ جاری تھا۔ اب سائبر حملوں میں ملوث مجرموں کو ایسی کرنسی میں ادائیگی کی جا سکتی ہے جس کا پتا چلایا جا سکتا ہے نہ اسے واپس لیا جا سکتا ہے حالانکہ امریکی حکومت ایسا کر چکی ہے جب اس نے کولونیل پائپ لائن کے اکائونٹ سے ہتھیائے گئے 2.3 ملین ڈالرز واپس لیے تھے۔ کرپٹو کرنسی تو ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سینیٹ ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کی طرف سے متعارف کرائے گئے بل کے ذریعے قانون سازی ہونے والی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کانگرس پر بھی زور دے رہے ہیں کہ وہ ایسا قانون پا س کرے جس کے تحت انڈسٹری سیکٹر کی تمام اہم کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ اگر ان پر کوئی سائبر حملہ ہو تو وہ فوری طور پر حکومت کو اس کی اطلاع فراہم کریں۔سائبر حملوں کے ذریعے تاوان وصول کرنے والوں کے خلاف اور بھی کئی سطح پر اقدامات ہو رہے ہیں۔ صدر پیوٹن کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جانی چاہئے کہ ان باتوں کا جیو پالیٹکس امور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان امور کا تعلق ایک منظم اور خطرناک جرم سے ہے۔ یہ ایسا جرم ہے جسے ہر حکومت کو کچل دینا چاہئے۔ اگر وہ اس بات سے انکار کر تے ہیں تو صدر ولادیمیر پیوٹن کو یہ باور کرا دینا چاہئے کہ انہیں بھی ان مجرموں کا ساتھی سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہو گی۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement