ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مودی کا گودی میڈیا اورعدالت

تحریر: حیدر عباس

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے زیرِقیادت بی جے پی حکومت کا مسلسل آٹھواں سال ہے اور بالآخر ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے اس حکومت میں چلائے جارہے ’’گودی میڈیا‘‘ کے تعلق سے سخت ریمارکس دیے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا بھارتی میڈیا گھرانوں‘ نیوز ایجنسیوں اور آؤٹ لیٹس کے ایک گوشے کے بارے میں یہ بھی تاثر ہے کہ یہ ہمیشہ ہندو‘ مسلم خطوط پر سوچتے ہیں اور اپنے پروگرامز اور خبروں کے ذریعہ صرف ہندو‘ مسلم کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔

بھارتی چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے کورونا وائرس کیلئے بعض میڈیا گھرانوں کی جانب سے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیے جانے اور اسی بہانے ہندوستانی معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوششوں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔ انگریزی روزنامے ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق میڈیا کے ایک گوشے نے ان خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کیلئے جوابدہی کا کوئی میکانزم نہیں اور اس معاملے میں جوابدہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ ادارے ججز کی جانب سے شکایت کا بھی جواب نہیں دیتے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کا ایک گوشہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دکھاتا ہے۔ نتیجے میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے یہ فکر انگیز تبصرہ تبلیغی جماعت کو جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے اور اسے بدنام کرتے ہوئے غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے والے میڈیا گھرانوں کے خلاف دائر کردہ عرضیوں کی سماعت کے دوران کیا۔ اِن میڈیا گھرانوں نے گزشتہ سال دہلی میں تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز کے اجتماع کے تعلق سے خبریں پیش کرتے ہوئے انتہائی تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا اور تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ ان کا لب و لہجہ بالکل فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرصدارت وہ بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا شامل ہیں۔ ان درخواستوں میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے جھوٹی خبر نشر کرنے والے نیوز چینلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے جس انداز میں سرکاری اداروں کا امیج خراب کیا جارہا ہے‘ اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ویب پورٹلز پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا۔ وہ جو چاہتے ہیں، شائع اور نشر کرسکتے ہیں۔ 

اگر آپ یوٹیوب کو دیکھیں تو چند منٹس کی وڈیوز میں بہت کم سچ دکھایا جاتا ہے۔ کس قدر فرضی خبریں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میڈیا پر کنٹرول نہیں ہے۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ اب ہر کوئی ٹی وی چینل شروع کر سکتا ہے اور ان چینلوں کیلئے کوئی جوابدہی کا میکانزم نہیں اور نہ ہی یہ کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ یہ حالت ہمارے اداروں کی ہوگئی ہے۔ افراد کو بھول جایئے، میڈیا کا یہ گوشہ صرف بااثر اور طاقتور لوگوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اداروں، عام آدمی اور ججز تک کو اہمیت نہیں دیتا۔ یہی کچھ ہے جو ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ تبصرہ یا حکومت کی سرزنش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جبکہ ہزاروں نہیں تو کم از کم بیسیوں کی تعداد میں 2014ء سے اب تک‘ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات پیش آچکے ہیں اور ان واقعات میں یقینا میڈیا کے ایک حصے نے انتہائی مکروہ کردار ادا کیا ہے جس سے معاشرے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلی اور مسلمانوں کی سیفٹی اور سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ میڈیا نے نہایت منظم انداز میں تبلیغی جماعت کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت پھیلائی اور ایک ایسے وقت میں یہ نفرت پھیلائی گئی جبکہ کووڈ 19 وبا کی ابتدا ہوئی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو وائرس پھیلانے والے یا سپر سپیریڈر قرار دیا تھا لیکن مختلف عدالتوں نے تبلیغی جماعت کو اُن تمام الزامات سے بری قرار دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران میڈیا نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا حالانکہ دوسری لہر کے دوران مرنے والوں کی تعداد پہلی لہر میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کے باوجود صرف یکطرفہ نقطہ نظر رکھنے والے میڈیا گھرانے اب بھی ایسے موضوع کی تلاش میں رہتے ہیں یا پھر ایسی خبروں کی جستجو میں رہتے ہیں، جس سے مسلمانوں کے خلاف لہر پیدا کی جائے اور ان بہانوں سے مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ سماجی ہم آہنگی متاثر کی جائے، ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول تیار کیا جائے۔ یہ میڈیا ہائوسز ایسے پروگرامز پیش کرتے ہیں جن کا مقصد معاشرے کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے اور یہ تقسیم بی جے پی کیلئے بہت موزوں ہوتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے ووٹوں کی شرح میں اضافے کیلئے ہمیشہ فرقہ وارانہ فارمولا اپنایا ہے۔

 دوسری طرف ساری ریاست اترپردیش میں چیف منسٹر یوپی اور وزیراعظم کے بڑے بڑے پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے اور مزید لگائے جارہے ہیں جن پر ان لوگوں کی جھوٹی تعریف کی گئی ہے تاکہ عوام کو متاثر کیا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کروڑہا روپے فضول کاموں میں برباد کئے جارہے ہیں، لیکن کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران جو لوگ اپنے عزیزوں سے محروم ہوگئے‘ انہیں کوئی امداد نہیں دی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ آکسیجن کی دستیابی سے بھی محروم رہے۔ آج ہر خبر میں ’’ہندو مسلم‘‘ کیا جارہا ہے اور ماحول کو مزید فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے کسان احتجاج کا مقبول ترین چہرہ راکیش سنگھ ٹکیٹ نے‘ جو کسانوں کے مسئلہ پر مودی اور بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ اس خدشے کا اظہار کیا کہ یوپی اسمبلی کے انتخابات سے قبل ایک ہندو لیڈر قتل ہوگا اور یہ آر ایس ایس کرائے گی۔ راکیش ٹکیٹ کا یہ بیان 13 اگسٹ کو ’’ری پبلک ورلڈ‘‘ نے شائع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سماج کو تقسیم کرنا آر ایس ایس کی سازش ہے اور وہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ راکیش ٹکیٹ جیسے کسان لیڈر کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ وہ ایک بہت بڑے کسان لیڈر ہیں اور ان کے بیان کو یونہی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ راکیش ٹکیٹ چونکہ ایک کسان لیڈر ہے اور ملک کی سیاست کو اچھی طرح جانتے ہیں، حکومت کی پالیسیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں، اس لئے ان کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ آج کے بھارت کی سیاسی قیادت تخریبی ایجنڈے پر کام کرنا چاہتی ہے اور اس کا حامی میڈیا ہر لحاظ سے حکومت کی مدد کررہا ہے۔ بھارتی میڈیا اب مودی سرکار کا آلہ کار بن چکا ہے۔

(بشکریہ: سیاست انڈیا)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement