صرف نعرے زندگیاں نہیں بچا سکتے
تحریر: بریٹ سٹیفنز
گزشتہ اتوار کے دن ہرلم کے قصبے میں شانس ینگ نامی عورت کو اس کے سابقہ دوست نے اس وقت سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا جب وہ ’’بے بی شاور‘‘ یعنی دوستوں اور قریبی رشتے داروں کی طرف سے اپنے عنقریب پیدا ہونے والے بچے کے اعزاز میں دی گئی پارٹی سے واپس جا رہی تھی۔ ملزم کی خاتون کے موجودہ دوست سے کوئی ذاتی مخالفت تھی؛ چنانچہ اس نے انتقام لینے کے لئے شانس ینگ کو گولی مار دی۔جب شانس کا انتقال ہوا تو وہ 8ماہ کی حاملہ تھی۔اس نے اپنے پیچھے چھ سالہ بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہے۔پچھلے سال اس کی والدہ بھی کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں جس کے بعد اپنی بہن کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اسی پر آگئی تھی۔ ہفتے کے دن شکاگو میں کیڈن انگرم نامی لڑکے کو محض اس بنا پر اپنی ماں فیلن ہیرس کی سفاکی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اسے اس کے ڈیجیٹل میموری کارڈ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا تھا۔جب وہ اسے کارڈ تلاش کرکے نہ دے سکا تو ماں نے بیٹے کو گولی مار دی۔ اسی دوران اس نے ایک فون کال سنی،فون سننے کے بعد فیلن دوبارہ اپنے زخمی بیٹے کے پاس آئی اور اس سے دوبارہ اپنے میموری کارڈ کے بارے میں پوچھا۔اسے واقعی کارڈ کے بارے میں علم نہیں تھا؛ چنانچہ فیلن نے اسے ایک اور گولی مار دی۔کیڈن کو یونیورسٹی آف شکاگو میڈیکل سنٹر لایا گیا مگروہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔اس کی عمر 12سال تھی۔ شکاگو وہ شہر ہے جہاں گزشتہ ربع صدی میں شہریوں کے قتل ہونے کی شرح میں بہت اضافہ ہو ا ہے۔صرف پچھلے ہفتے اس ریاست میں میں 60لوگوں کو گولی ماری گئی جن میں سے 7 افراد جاں بحق ہو گئے۔
برونکس میں بدھ کے دن ایک سالہ بچے لیگیسی بوفورڈ کو انتہائی دے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔پراسیکیوٹرز نے اس کی ماں کے دوست کیشان گورڈن پر قتل کا الزام عائد کیا ہے۔پولیس کے مطابق اسے بچے کا رونا پسند نہیں تھا۔گورڈن نے کہا ’’وہ مجھے ذہنی اذیت دے رہا تھا‘‘۔ٹائمز کے مطابق گورڈن مجرمانہ ریکارڈ رکھتا تھا اور وہ پہلے بھی پانچ دفعہ جیل جا چکا ہے۔ پولیس کے مطابق اس پر عائد مقدمات میں 2018ء میں حملہ کرنے اور 2019ء میں ڈاکا مارنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔پولیس ہیلپ لائن نائن ون ون پر تین کالز موصول ہوئیں جن میں کم سن بچوں سے زیادتی کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔پولیس فوری طورپرموقع پر پہنچی مگر وہاں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کسی بچے کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
گزشتہ بدھ کو میناپولس میں چھٹے گریڈ کے طالب علم لندن مائیکل بین کو ایک مقامی جھگڑے کے دوران گولی مار دی گئی۔اس کی دادی ڈارلیسا ولیمز نے سٹار ٹربیون کوبتایا کہ وہ اسے دو دن پہلے ہی مینی سوٹا ریاست میں ایک فیسٹیول میں لے کر گئی تھی۔اس نے پوتے کو یا دکرتے ہوئے بتایا کہ ’’وہ کوئی چیز نہیں کھانا چاہتا تھا۔اس نے صرف سوڈا پیا تھا اور تھوڑی سی گھڑ سواری کی تھی‘‘۔ وہ اس سال شہر میں قتل ہونے والا 64واں بچہ تھا۔ریاست میں ہونے والے قتل کے کیسز کا ریکارڈ 1995ء میں توڑا گیا تھا مگر 2020ء میں 185افراد قتل ہوئے اور یہ سابقہ شرح میں 58 فیصد اضافہ ہے۔
ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں دو ہفتے قبل صرف 16 گھنٹوں میں فائرنگ کے 9 الگ الگ واقعات پیش آئے جن میں 2 لوگ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ پورٹ لینڈ میں 2016ء میں 16، 2017ء میں 25، 2018ء میں 26، 2019ء میں 35 اور 2020ء میں 57 افراد قتل ہوئے۔ اس سال یکم ستمبر تک یہاں فائرنگ کے 830 واقعات ہوئے جن میں62 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس طرح شہر نے اپنے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ قتل ہونے والوں میں زیادہ تعداد سیاہ فاموں کی ہے۔ 2020ء میں یہاں کے 145 پولیس افسران نے استعفیٰ دیا یا وہ ریٹا ئر منٹ لے چکے ہیں۔
گزشتہ بدھ کو ہی لاس اینجلس میں گینگسٹرز سے بچانے والے ایک ورکر کریگ باٹسٹ کو اس کے گھر کے قریب ہی کئی مرتبہ گولیاں ماری گئی تھیں۔اسے کسی نامعلوم قاتل نے قتل کر دیا۔ وہ ایک گینگ کا سابق رکن بھی تھا۔2017 ء میں وال سٹریٹ جرنل میں اس کے بارے میں ایک تفصیلی خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ اس نے بتایاتھا کہ ’’میں منشیا ت فروش تھا‘ میں ایک ٹھگ تھا‘‘۔ اپنی موت کے وقت وہ اپنی کمیونٹی کو گینگسٹرز کے تشدد سے بچانے کا کام کرتا تھا۔اس کی عمر 54سال تھی۔مارشل پروجیکٹ کے مطابق لاس اینجلس میں 2019 سے 20 ء کے دوران قتل کی وارداتوں میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔ موجودہ سال اس سے بھی بدتر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ بروکلین کے نواحی علاقے ایسٹ نیویارک میں وائن واشنگٹن نامی نوجوان کے سینے میں کئی گولیاں مار کر اسے قتل کر دیا گیا۔ایک 19سالہ لڑکی کو بھی گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔اس کے چند ہی گھنٹے بعد اسی علاقے میں برسٹ مار کر 2لوگوں کو قتل اور 3افراد کو زخمی کر دیا گیا تھا۔ایسٹ بروکلین کا علاقہ تشدد کیلئے مشہور ہے جہاں ایک سال میں قتل کے سو سے زائد کیس درج ہوئے تھے۔ 2018ء میں یہ شرح کم ہو کر صفر ہو گئی تھی جس پر میں نے ایک کالم لکھ کر اس کی تحسین بھی کی تھی جس کا عنوان تھا Joe Biden, Be Proud of Your Crime Bill‘‘
یہ 1994واں بل تھا جس کا مقصد ایک لاکھ اضافی پولیس افسران بھرتی کرنے اور مزید جیلیں تعمیر کرنے کے علاوہ سخت سزائیں دینا اور خطرناک اسلحے پر پابندی لگانا تھا۔میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود امریکا اب مزید پولیسنگ اور قانون کے سخت نفاذ کی درست سمت میں سفر شروع کر چکا ہے ‘‘۔اس کالم کو دوبارہ پڑھنا ایسے ہی ہے کہ آپ ٹائم کیپسول کو کھول کر ماضی کے کسی دور میں چلے جائیں جب امریکی شہر محفوظ تصور ہوتے تھے۔ آج کل آپ اپنی کسی بھی قریبی سڑک پر نکل جائیں تو آپ کو جگہ جگہ جارج فلائڈ کی تصویروں والے پوسٹر نظر آتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘یعنی سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہم اور قیمتی ہے مگر شانس ینگ، کیڈن انگرم،لیگیسی بوفورڈ، لنڈن مائیکل اور وائن واشنگٹن کی زندگیاں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہی اہم اور قیمتی ہونی چاہئیں۔انہیں بھی یاد رکھا جانا چاہئے۔ ان کے لئے نعروں بھرے پوسٹر کہاں لگے ہوئے ہیں؟
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)