ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے ایٹمی پروگرام میں پیش رفت… (1)

تحریر: ڈیوڈ سینگر

ایران جوہری میدان میںاب اتنی صلاحیت حاصل کر چکا ہے کہ وہ ایک مہینے سے بھی کم مدت میں اتنا ایٹمی ایندھن تیا رکر سکتا ہے جو ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے‘اس طرح اس نے وہ حد عبورکر لی ہے جس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر  اس امر کے لیے دبائو مزید بڑھ جائے گا کہ وہ 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والے اہم معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اس کی شرائط کو تبدیل کریں۔

اقوم متحدہ کے ایٹمی معائنہ گروپ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) نے گزشتہ ہفتے اس حوالے سے ایک اہم رپورٹ جاری کی ہے ۔ماہرین نے اس رپورٹ میں شامل ڈیٹا کو سٹڈی کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں بم گریڈ لیول کے ایٹمی ایندھن کی افزودگی کر کے ایران نے اتنی صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ انتہائی کڑے حالات میں بھی ایک مہینے کے اندرکم از کم ایک ایٹم بم تیار کرنے کے لیے ایٹمی ایندھن تیار کر سکتا ہے۔فیڈرل حکام کوجنہوں نے کلاسیفائیڈ تخمینوں کو سٹڈی کیا ہے اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا گیا ہے ‘تاہم نجی محفلوں میں ہونے والی گفتگو میں وہ یہ بات تسلیم کر تے ہیں کہ ان کے خیال میں ایران کو ایٹمی اسلحہ تیار کرنے میں اب چند مہینے ہی لگیں گے۔

ایران گزشتہ 20سال سے اس ٹیکنالوجی کو سٹڈی کر رہا تھا کہ ایسا حقیقی وارہیڈ کیسے بنایا جائے جو اپنے ساتھ میزائل کو لے جانے اور فضامیںدوبارہ انٹری کرنے کے قابل ہو‘مگر اتنی صلاحیت حاصل کرنے میں شاید ابھی کافی وقت لگے‘تاہم ایران مسلسل اپنے اس موقف پر اصرار کر رہا ہے کہ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنے کے بارے میں کوئی عزائم نہیں ہیں۔اس کے باوجود جب سے صدر بارک اوباما نے 2015ء والے ایٹمی معاہدے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا تب تک ایران نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کی تھی۔

اس معاہدے نے ایران کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے ایٹمی ایندھن کا 97فیصدایران سے باہر سٹور کرنے کا پابند ہوگا اور امریکہ نے کہا تھا کہ وہ ایران کو ’’بریک آئوٹ‘‘لیول تک جانے کے لیے کم از کم ایک سال کی مدت لے گا۔یہ وہ مدت ہوتی ہے جو ایٹمی ماہرین کے نزدیک ایٹم بم بنانے کے قابل ایندھن تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

اب جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کواس معاہدے سے دستبردار ہوئے بھی تین سال سے زیادہ گزر چکے ہیں‘ایران جو دھیرے دھیرے اپنے ملک کی ایٹم بم تیار کرنے کی صلاحیت میں پیش رفت کرنے میں مصروف تھا‘ ایک بار پھر اس صلاحیت میں کامیابی حاصل کرنے کے بہت قریب پہنچتانظر آرہا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی جو ایک پرائیویٹ گروپ ہے اور ایسے ماہرین تیارکرتا ہے جو اقوام متحدہ کی اٹامک انرجی ایجنسی کی فائنڈنگز کا تجزیہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اس گروپ نے پیر کے روزایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس موسم گرما میں یورینیم کی افزودگی کو 60فیصد تک لے جانے پر بڑے زور شور سے کام جاری رہا ۔یہ وہ لیول ہے جو بم بنانے کے لیے افزودگی کے مطلوبہ معیار سے کچھ ہی کم ہوتا ہے ۔یہ صلاحیت حاصل کرنے کے بعد ایران اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ وہ ایک ایٹم بم تیار کرنے کے لیے درکار ایٹمی ایندھن ایک مہینے سے بھی کم مدت میں تیار کر سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسرا ایٹم بم بنانے کے لیے ایٹمی ایندھن تین مہینوں میں اور تیسرے بم کے لیے وہ یہ ایندھن پانچ مہینوں سے بھی کم مدت میں تیا رکر سکتا ہے۔ 

مگر اس رپورٹ کے بڑے لکھاری ڈیوڈ آلبرائٹ نے یہ انتباہ کیا ہے کہ ایران کے اقدامات سے یہ سگنل ملتے ہیں کہ ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی نئی حکومت چاہتی ہے کہ 2015ء میں ہونے والے معاہدے ‘جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منسوخ کردیا تھا ‘ کو بحال کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ایسی نئی شرائط شامل کرا لی جائیں جن سے مستقبل میںایران کو فائدہ ہو۔صدر ابراہیم رئیسی جوایران کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور ایک قدامت پسند رہنما ہیں حالیہ الیکشن میں کامیاب ہو کر ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ا س الیکشن سے ایک مہینہ پہلے تک ایٹمی معاہدے کی بحالی کے ضمن میں کوئی رسمی مذاکرات منعقد نہیں ہوئے تھے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہم اس امر کی توقع کر رہے ہیں کہ صدر ابراہیم رئیسی نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیں گے جن میں وہ ایران کے خلاف لگنے والی تجارتی اور اقتصادی پابندیوں میں مزید ریلیف دینے کا مطالبہ کریں گے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈیوڈ آلبرائٹ نے گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ  ہمیں بہت زیادہ محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انہیں ایسا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہمیں ڈرا سکیں۔صدر جو بائیڈن کی حکومت کے عہدیداروں نے اٹامک انرجی ایجنسی کی اس رپورٹ پر کسی قسم  کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جسے نہایت خفیہ انداز میں رکن ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا مگر حالیہ دنوں میں اسے وسیع پیمانے پر ارسال کیا گیا ہے۔ 

جمعہ کو امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے جو جرمنی کے دورے پر جار ہے تھے ایران کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ایٹمی مواد کی تیاری کے حوالے سے ایران کی پیشرفت اس قدر تیز ہے کہ پرانے معاہدے کو اس مرحلے پر بحال کرانا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔انہوں نے اخبا ری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت میں ا س حوالے سے کوئی تاریخ تو نہیں دے سکتا مگر ہم اس پر سختی سے عملدرآمد کے مرحلے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ پرانے معاہدے سے ہمیں زیادہ فوائد نہیں حاصل ہو سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے‘ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے مزید ترقی کرتا جا رہا ہے جس میں نئے سینٹری فیوجز بنانا‘ایٹمی مواد کی مزید افزودگی کرنااور اس بارے میں مزید صلاحیت حاصل کرنا شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چھ سال قبل ایران نے جن پابندیوں کو قبول کر لیا تھا اس مرحلے پر ان سے زیادہ فائدہ اٹھانا مشکل نظر آتا ہے۔ ہم ابھی اس لیول تک نہیں پہنچے مگر ہم اس کے بہت قریب ضرور پہنچ چکے ہیں۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement