ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے ایٹمی پروگرام میں پیشرفت …(2)

تحریر: ڈیوڈ سینگر

آنے والے چند ہفتے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کو عام طور پر اور خصوصاً ایران کے امور پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نئی ایرانی حکومت کے وزیر خارجہ حسین عامر عبدالہیان سمیت دیگر اعلیٰ حکام کی بھی پہلی مرتبہ اجلاس میں شرکت متوقع ہے۔ سخت گیر سمجھے جانے والے 56 سالہ حسین عامر عبدالہیان نے امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی تجدید کے اشارے دیے ہیں؛ تاہم ان شرائط پر کہ نئی حکومت یہ سمجھے کہ معاہدے میں ماضی کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔

شمالی کوریا نے اتوار کو ایک ایسے نئے کروز میزائل کا تجربہ کیا ہے جو دشمن کے دفاعی میزائل سسٹم کو چکما دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق‘ ایران اور شمالی کوریا‘ دونوں ہی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں صدر جو بائیڈن کی حکومت کو آزمانا چاہتے ہیں۔ روز گاٹمولر‘ جو کئی حکومتوں کے ساتھ آرمز کنٹرول افسر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور آج کل امریکا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی میں کام کر رہے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’ایران کے جوہری افزودگی پروگرام اور شمالی کوریا کے کروز میزائل ٹیسٹ میں ہمیں ایک پُراسرار سی مشابہت نظر آتی ہے۔ دونوں جو بائیڈ ن حکومت کے مذاکرات شروع کرنے سے پہلے معاملات کو اپنے حق میں ڈھالنا چاہتے ہیں‘‘۔

اتوار کو ایرانی حکام کا انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گراسی کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ ہو گیا ہے جس کے تحت ایجنسی دوبارہ سے ایران کے ایٹمی پلانٹس پر مانیٹرنگ ڈیوائسز نصب کر سکے گی تاکہ اس کے جوہری پروگرام پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔ حالیہ مہینوں سے ایجنسی کے حکام مانیٹرنگ کے عمل سے بالکل بے خبر ہیں‘ اسی لیے امریکی حکام سخت تشویش میں مبتلا ہیں کہ جوہری مواد کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا احتمال ہے۔ اس معاہدے سے پلانٹس کے معائنے کا عمل فوری طور پر شروع کیا جا سکے گا کیونکہ انسپکٹرز کو اپنے کیمروں اور دیگر آلات تک فوری رسائی مل جائے گی مگر اس سے ایران کے یورینیم کی پیداوار اور اعلیٰ درجے کی افزودگی کے پروگرام کی بحالی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس طرح ایران کے 2015ء کے مقابلے میں بم گریڈ لیول کے مزید قریب پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔

اس معاہدے سے یہ فائدہ ضرور ہو گیا ہے کہ اب ایران کی یورینیم کی ذخیرہ کرنے کی مجموعی مقدار محدود ہو گئی ہے کیونکہ اس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدہ منسوخ کرنے کے فیصلے سے پہلے جوہری معاہدے پر ایک سال تک عمل درآمد کیا تھا۔ ایران نے اس کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا ا س معاہدے پر عمل نہیں کرے گا تو وہ بھی اس معاہدے کی پاسدار ی کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس جوہری معاہدے نے ایران کو پابند کر دیا تھا کہ وہ جوہری مواد کو صرف 3.7 فیصد تک ہی افزودہ کرے گا کیونکہ جوہری مواد کا یہی وہ لیول ہے جسے نیوکلیئر پاور پلانٹس پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا مگر ایران نے یہ کہتے ہوئے جوہری مواد کی افزودگی کو 20 فیصد تک خود ہی بڑھا لیا تھا کہ امریکا نے 1979ء میں ایرانی انقلاب سے قبل ہمیں میڈیکل آئسو ٹوپس کی پیداوار کے لئے جو ایٹمی ریسرچ ری ایکٹر مہیا کیا تھا‘ اس کے لیے ہمیں 20 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ایندھن کی ضرورت ہے مگر اس کے بعد ایران اس حد سے بھی آگے بڑھ گیا مگر جب مبینہ طور پر اسرائیل نے ایرانی جوہری پلانٹس پر نصب سنٹری فیوجز کو‘ جو یورینیم کو افزودہ کرنے کے لئے سپر سانک سپیڈ سے گھومتے ہیں‘ تباہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو اس نے اپریل کے مہینے سے یورینیم کے سٹاک کو بڑھانے کے لیے اپنے ایٹمی مواد کو 60 فیصد تک افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس کے چند مہینے بعد اسی پلانٹ پر ایک دوسرا حملہ کیا گیا جس میں سنٹری فیوج بنانے والے پلانٹ کے کئی حصے تباہ ہو گئے تھے۔ کیونکہ جوہری افزودگی کی فزکس ٹیکنالوجی کے مطابق یورینیم کی کم درجے کی افزودگی کو 60 فیصد کی افزودگی تک لے جانے میں زیادہ عرصہ درکا ر ہے جبکہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے ایٹمی مواد کی افزودگی کو 90 فیصد کی سطح تک لے جانا پڑتا ہے مگر 60 فیصد افزودگی سے90 فیصد کے لیول تک جانے میں اتنا عرصہ نہیں لگتا؛ چنانچہ یورینیم افزودگی کو 60 فیصد تک لے جانا زیادہ سنگین اورخطرناک صورتِ حال ہے۔ اس وقت ایران کے پاس 60 فیصد لیول تک افزودہ یورینیم کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ اسے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے مگر اس سال موسم گرما میں اس نے ایسے نئے سنٹری فیوج نصب کیے ہیں جو اس کے ایٹمی مواد کے ذخیرے میں بہت تیزی سے اضافہ کر سکتے ہیں؛ تاہم جوہری سائنس کے ماہرین اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ محض بڑی مقدار میں اعلیٰ درجے کے افزودہ یورینیم کی دستیابی ہی ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔

ایٹمی ہتھیار بنانے کے پہلے مرحلے میں ہمیں ایٹمی ایندھن کو ایک دھات میں بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ وہ مرحلہ ہے جس پر ایران کے ایٹمی ماہرین تجربات کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے اگلے مرحلے میں ایک مکمل ایٹمی ہتھیار تیار کیا جا سکتا ہے۔ ان لازمی مراحل کو طے کرنے میں کچھ مزید مدت یعنی کئی مہینے بلکہ کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اس مدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایران کے پاس اس وقت ایٹمی ٹیکنالوجی کی کس درجے کی تکنیکی مہارت دستیاب ہے۔

دوسری طرف اسرائیلی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے پچھلے سال ایران کی ان تمام مراحل کی تکنیکی صلاحیت کو تباہ کر دیا تھا۔ ایک خفیہ کارروائی میں اسرائیل نے ایران کے سب سے بڑے سائنسدان کو قتل کر دیا تھا۔ آج سے دس سال پہلے‘ امریکا اور اسرائیل نے ایک مشترکہ کارروائی میں ایران کے ایٹمی پلانٹ پر خوفناک سائبر حملہ کیا تھا تاکہ اس کی جوہری ایندھن کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کر دیا جائے۔ اس میں انہیں بڑی کامیابی بھی ملی تھی مگر ایران بہت جلد ایک بار پھر اپنی یہ صلاحیت بحال کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement