سائنس بھی بھارتی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی …(2)
تحریر: کرن دیپ سنگھ
دی ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں ڈاکٹر گنگا کھیڈیکر نے کہا کہ میں نے تو ان سرکاری بیانات کے خلاف اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا جس میں حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی تھی مگر ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بلرام بھرگاوا نے مجھے کہا کہ اس مسئلے پر آپ کو زیادہ تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر بھرگاوا سے جب اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے اس الزام پر اپنا ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔ لاک ڈائون سے بھارتی معیشت کو سنگین نقصان اٹھانا پڑا۔ جب اس میں کمی ہوئی تو نریندر مودی نے معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ اپنی انتخابی مہم کے لئے اقدامات شروع کر دیے۔ ایجنسی کے ریسرچرز کے مطابق حکومتی سائنسدانوں نے اس کی راہ ہموار کرنے میں ہر طرح کی مدد کی۔
جون 2020ء میں ایجنسی کی منعقد کردہ سٹڈی میں یہ بتایا گیا کہ مودی حکومت کے لاک ڈائون نے کووڈ کے پھیلائو کی رفتار ضرور کم کر دی تھی مگر اسے مکمل ختم نہیں کیا تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر ریسرچرز کو اپنی سٹڈی واپس لینا پڑی۔ سٹڈی کے ایک لکھاری نے بتایا کہ اس سٹڈی کے لکھاریوں کو اپنی رپورٹ ایجنسی کے ان لیڈرز کے دبائو پر واپس لینا پڑی تھی جنہوں نے اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے تھے اور شکایت کی تھی کہ ان کے ریویو کرنے سے پہلے ہی اس سٹڈی کو شائع کر دیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے خیال میں یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا۔ ان کی رائے تھی کہ سٹڈی کو واپس لینے کے بجائے ایجنسی اس کی ناقص زبان کی مزید تراش خراش کر سکتی تھی۔
جولائی 2020ء میں ڈاکٹر بھرگاوا نے ایجنسی کے سائنسدانوں کے لئے دو ڈائریکٹوز جاری کیے جو ان کے ناقدین کے خیال میں سیاسی پس منظر رکھتے تھے۔ پہلے ڈائریکٹو میں کئی اداروں سے کہا گیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے لئے بھارتی سائنسدانوں کی تیار کردہ ویکسین کی 6 ہفتے کے اندر اندر منظوری دیں۔ 2 جولائی کے میمو میں‘ جسے دی ٹائمز نے ریویو بھی کیا تھا‘ ڈاکٹر بھرگاوا کا کہنا تھا کہ ایجنسی کا ہدف تھا کہ 15 اگست تک ویکسین کی منظوری دے دی جائے۔ یہ بھارت کا یومِ آزادی تھا اور نریندر مودی اکثر خود کفالت کی طرف جانے کی بات کرتے تھے۔ میمو کے آخر میں لکھا تھا ’’یاد رکھیں! ہدایات پر عمل نہ کرنے پر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ ان ہدایات پر ایجنسی کے سائنسدان پریشان ہو گئے۔ دیگر ممالک کی ریگولیٹر ایجنسیاں اپنے ملک میں تیار کردہ ویکسین کی منظوری دینے سے ابھی مہینوں دور تھیں۔ جب ویکسین کا ٹائم ٹیبل عام کر دیا گیا تو ایجنسی کے اعلیٰ حکام ساری باتوں سے مکر گئے۔
ڈاکٹر بھرگاوا کے دوسرے ڈائریکٹو میں سائنسدانوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ سارا ڈیٹا روک لیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 10 شہروں میں ابھی تک کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ یہ ڈیٹا ایجنسی کے سیرولوجیکل سٹڈی (بلڈ سیرم کا مطالعہ) سے لیا گیا تھا جس میں خون کے سیمپلز میں موجود اینٹی باڈیز کی بنیاد پر بیماری پر تحقیق کی گئی تھی۔ وائرس کو روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ڈیٹا سے پتا چل رہا تھا کہ دہلی اور ممبئی سمیت کئی شہروں میں انفیکشن کی شرح بہت زیادہ تھی۔ 25 جولائی کی اپنی ای میل میں ڈاکٹر بھرگاوا نے سائنس دانوں کو بتایا تھا ’’میں ابھی تک اس ڈیٹا کو شائع کرنے کی منظوری نہیں لے سکا۔ آپ سب ایک آئیوری ٹاور میں بیٹھے ہیں اور معاملے کی حساسیت کو نہیں سمجھ رہے، میں حقیقت میں بہت مایوس ہوا ہوں‘‘۔
اس سٹڈی پر کام کرنے والے ایک فزیشن نعمان شاہ نے کہا کہ ڈیٹا کو واپس لینا سائنس اور جمہوریت کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ وہ حکومت ہے جس کی اپنی ایک تاریخ اور نظریہ ہے کہ وہ ہر ادارے پر قبضہ کرکے اور اسے سیاسی جنگ کا اکھاڑہ بنا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے‘‘۔ ایجنسی کے جاری کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر حکام اپنے ملک اور پوری دنیا کے سامنے یہ غلط موقف پیش کرتے رہے کہ بھارت میں کورونا وائرس اس شدت سے نہیں پھیل رہا جیسے یہ امریکا، برازیل، اٹلی، برطانیہ اور فرانس میں پھیل رہا ہے۔
پھر گزشتہ موسم خزاں میں ایجنسی نے ایک ناقص سٹڈی کی منظوری دی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کووڈ کی بدترین لہر گزر چکی ہے۔ اس سٹڈی‘ جو بھارت میں سپر ماڈل کے طور پر شہرت رکھتی ہے‘ کے مطابق فروری کے وسط تک بھارت میں کووڈ کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اس نے نریندر مودی کے 2020ء کے پہلے لاک ڈائون کا حوالہ دیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ امید ہے بھارت ہرڈ امیونٹی کے لیول تک پہنچ جائے گا کیونکہ 350 ملین شہریوں میں پہلے ہی انفیکشن ہونے کی وجہ سے اینٹی باڈیز بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر اگروال اور دیگر افراد‘ جو اس پروگریس سے آگا ہ تھے‘ کا کہنا تھا ’’سائنس ایجنسی نے اس سٹڈی کی منظوری دینے میں بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا‘‘۔ ایجنسی کے اندر اور باہرکے سائنسدانوں نے اس سٹڈی کا الگ الگ جائزہ لیا۔ دیگرممالک میں سے ابھی تک کوئی بھی ہرڈ امیونٹی کے قریب نہیں پہنچا تھا۔ ابھی تک بھارتی شہریوں کی اکثریت کو انفیکشن نہیں ہوا تھا۔ اس سٹڈی کے ریسرچرز میں سے کوئی بھی ماہر وبائی امراض نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس سٹڈی کے ماڈل کو مخصوص مطلوبہ نتائج کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایک ریٹائرڈ سائنسدان سوم دِتّا سنہا کے مطابق ’’ان کے پیرا میٹرز ہی ایسے تھے جن کی پیمائش ممکن نہیں تھی اور جب ان کی کرو (Curve) میچ نہیں کرتی تھی تو وہ پیرا میٹر ہی تبدیل کر دیتے تھے۔ ہم کبھی اس طرح کی ماڈلنگ نہیں کرتے۔ یہ تو لوگوں کو گمراہ کرنے والی بات ہے‘‘۔
ڈاکٹر اگروال کہتے ہیں کہ میں نے اکتوبر میں ڈاکٹر بھرگاوا سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اس نے مجھے کہا ’’یہ تمہاری سر دردی نہیں ہے‘‘۔ بعد میں ڈاکٹر بھرگاوا نے ایک اور سائنسدان کو بلا لیا جس نے اس سٹدی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ہم دونوں کی سخت سرزنش کی گئی۔ جنوری 2020ء میں شائع ہونے والی ایک سٹڈی میں بھی کووڈ کی دوسری لہر کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ایک جرنل ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس سٹڈی میں بھی کہا گیا تھا کہ اگر بلا سوچے سمجھے پابندیاں اٹھائی گئیں تو کووڈ کی ایک شدید لہر آ سکتی ہے۔ دوسری لہر اپریل میں آئی تھی جس کے بعد ہسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے۔ بھارتی ہیلتھ حکام نے ایسا طریقہ علاج تجویز کر دیا جو حکومت کے اپنے سائنسدانوں کے مطابق غیر مؤثر تھا۔
ان میں ایک بلڈ پلازما تھا۔ ڈاکٹر اگروال اور ان کے رفقا نے کئی مہینے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بلڈ پلازما کووڈ کے مریضوں کیلئے نہیں ہے۔ ایجنسی نے مئی میں ہی ان سفارشات کو مسترد کر دیا تھا۔ بھارتی حکومت ابھی تک ایک دوسرے علاج کے لیے کہہ رہی ہے یعنی بھارت کی بنی ہوئی ملیریا کی دوائی ڈی ہائیڈرو کلورو کوئین استعمال کی جائے حالانکہ سائنسی ثبوتوں کے مطابق‘ یہ بھی کووڈ کے لیے غیر مؤثر ہے۔ متاثرہ فیملیز ان دونوں ادویات کے حصول کے لئے ماری ماری پھر رہی تھیں جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹ میں ان کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ ڈاکٹر اگروال نے اکتوبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آج کل بالٹی مور میں بطور فزیشن کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایجنسی کے ساتھ اپنے تجربات کی وجہ سے مستعفی ہوکر بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’آپ جس کام کو جانتے ہیں‘ جب اس کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں تو آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘‘۔ (ختم)
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)