ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے ایٹمی سائنسدان کا قتل …(1)

تحریر: رانن برگمین

ایران کے اعلیٰ ترین ایٹمی سائنس دان فجر کی نماز سے ایک گھنٹہ قبل بیدار ہوئے۔ ان کی روٹین تھی کہ وہ دن کا آغازکرنے سے پہلے اسلامی فلسفہ کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس سہ پہر انہیں اور ان کی اہلیہ نے اپنے گھر سے کیسپین سی کے کنارے واقع سیاحتی مقام کے لیے روانہ ہونا تھا۔ تہران کے مشرق میں واقع قصبہ ’’آبِ سرد‘‘ ان کی منزل تھی۔ ان کا وہاں ویک اینڈ گزارنے کا ارادہ تھا۔ ایران کی انٹیلی جنس سروس انہیں کسی ممکنہ قاتلانہ حملے کی وارننگ دے چکی تھی مگر سائنسدان محسن فخر ی زادہ نے اسے سنی اَن سنی کر دی۔ اسرائیل کو پورا یقین تھا کہ فخری زادہ ہی ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کے منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں‘ اس لیے وہ گزشتہ 14 سال سے انہیں قتل کرنے کے درپے تھا مگر انہیں اتنے خطرات اور سازشوں کا سامنا تھا کہ وہ اب ان کی طرف کم ہی توجہ دیتے تھے۔ ایران کی عسکری مقتدرہ میں اہم عہدہ رکھنے کے باوجود فخری زادہ ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی گھریلو خوشیوں کے دلدادہ تھے، فارسی شاعری پڑھتے تھے، اپنی فیملی کو ساحلی مقامات کی سیر کراتے تھے، خود ہی مضافاتی علاقوں کی طرف لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے تھے۔ اپنی سکیورٹی ٹیم کی وارننگ کے باوجود وہ اپنے باڈی گارڈز کے ہمراہ کسی بکتر بند گاڑی کے بجائے اپنی گاڑی میں آبِ سرد کی طرف نکل جاتے تھے۔ یہ سکیورٹی پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی تھی مگر وہ اپنی ہی مرضی کرتے تھے۔

 27نومبر کو جمعہ کے روز دوپہر کے وقت وہ اپنی سیاہ رنگ کی گاڑی کی سٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔ ساتھ والی سیٹ پر ان کی اہلیہ بیٹھی تھیں۔ 2004ء سے‘ جب سے اسرائیل نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو حکم دیا تھا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکے‘ موساد نے ایران کی جوہری مواد کی افزودگی کے پلانٹس کے خلاف سائبر حملوں اور اسے سبوتاژ کرنے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ اس نے ایران کے ایٹمی پروگرام سے منسلک سائنسدانوں کو بھی غائب کرنے کا سلسلہ شرو ع کیا ہوا تھا۔ 2007ء سے موساد ایران کے پانچ ایٹمی ماہرین کو قتل اور چند ایک کو زخمی کر چکی تھی۔ زیادہ تر سائنسدان فخری زادہ کے ساتھ ایک ایٹمی پروجیکٹ پر کام کرتے تھے۔ اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصد ایک چھوٹا سا ایٹم بم بنانا تھا جسے ایران کے دور مار میزائلوں پر نصب کیا جا سکے۔ اسرائیل ایران کے میزائل پروگرام کے انچارج جنرل اور ان کی ٹیم کے 16 ارکان کو بھی موت کے گھاٹ اتار چکا تھا مگر ایٹم بم بنانے والے پروجیکٹ کا انچارج ہمیشہ بچ نکلتا تھا۔2009 ء میں حملہ آوروں کی ایک ٹیم فخری زادہ کو قتل کرنے کیلئے تہران کے ایک مقام پر منتظر تھی مگر اس آپریشن کو آخری لمحات میں ترک کر دیا گیا تھا۔ ایرانی ایجنسیوں کو شک پڑ گیا تھا اور انہوں نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

اب وہ کوئی نیا حربہ آزمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ موساد کے لیے کام کر نے والے ایرانی ایجنٹوں نے ایک نیلے رنگ کا ٹرک اس سڑک پر کھڑا کر دیا تھا جو آبِ سرد قصبے کو مین شاہراہ سے ملاتی تھی۔ یہ جگہ قدرے بلندی پر واقع تھی جہاں سے آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ٹرک کو ایک ترپال سے ڈھانپ دیا گیا تھا جس میں بظاہر تعمیراتی میٹریل رکھا گیا تھا مگر اس سامان میں ایک 7.62ایم ایم کی سنائپر مشین گن چھپائی گئی تھی۔ دوپہر ایک بجے کے قریب حملہ آور ٹیم کو ایک سگنل موصول ہوا کہ فخری زادہ، اپنی اہلیہ اور مسلح باڈی گارڈز کے ہمراہ گاڑیوں کے جلو میں آبِ سرد کیلئے نکلنے والے ہیں جہاں ایرانی اشرافیہ نے اپنے گھر بنا رکھے تھے۔

قاتل‘ جو ایک ماہر نشانے باز تھا‘ نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور اپنی گن کا ٹریگر بھی ہلکا سا دبا کر چیک کر لیا۔ وہ آبِ سرد میں موجود نہیں تھا بلکہ وہاں سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر ایک خفیہ مقام پر اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد حملہ آوروں کا پورا سکواڈ ایران سے نکل چکا تھا۔ اس سہ پہر ایران سے بڑی کنفیوژنگ، متضاد اور غلط قسم کی خبریں آ رہی تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قاتلوں کی ایک ٹیم اسی سڑک پر منتظر تھی جہاں سے فخری زادہ نے اپنی گاڑی میں گزرنا تھا۔ وہاں کے مکینوں نے ایک بڑے بم دھماکے کی آواز سنی جس کے بعد مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی۔ ایک عینی شاہد نے کہا کہ بارود سے لدے ٹرک نے فخری زادہ کی کار کو ٹکر ماری تھی‘ پانچ چھ گن مین گاڑیوں سے باہر نکلے اور اس پر فائر کھول دیا۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور سے منسلک ایک سوشل میڈیا چینل نے بتایا کہ فخری زادہ کے باڈی گارڈز اور درجن بھر حملہ آوروں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ چشم دید گواہ کے مطابق اس فائرنگ میں کئی لوگ مارے گئے۔ کئی ایرانی نیوز ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ حملہ آور دراصل ایک قاتل ربوٹ تھا اور یہ سارا آپریشن ریموٹ کنٹرول کی مدد سے کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ عینی شاہدین کی اس خبر سے بالکل برعکس تھی کہ فخری زادہ کے باڈی گارڈز اور حملہ آوروں میں شدید لڑائی ہوئی تھی‘ نیز یہ کہ کئی حملہ آوروں کو قتل یا گرفتار کیا گیا تھا۔ ایران نے اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کو‘ جو اپنے ملک کی سب سے محفوظ شخصیت کو بچانے میں بری طرح ناکام ہو گئی تھیں‘ شرمندگی سے بچانے کیلئے ان رپورٹس کا مذاق اڑایا۔ ایک سخت گیر سوشل میڈیا سٹوری میں کہا گیا ’’آپ یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ٹیسلا نے یہ ٹرک بنایا، پھر یہ ٹرک خود ہی چل کر وہاں کھڑا ہو گیا، پھر اس نے خود ہی فائرنگ کر دی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا بھی لیا‘‘۔

 الیکٹرانک وار فیئر کے تجزیہ کار تھامس وتھنگٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ قاتل ربوٹ والی تھیوری کو قدرے شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے اور ایران کا بیان الفاظ کا گورکھ دھندہ لگتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اس مرتبہ واقعی ایک قاتل ربوٹ استعمال کیا گیا تھا۔

اس سہ پہر کی ساری سٹوری سائنس فکشن پرمبنی لگتی ہے اور یہاں پہلی مرتبہ جو بھی واقعات شائع ہوئے‘ وہ امریکی، اسرائیلی اور ایرانی حکام کے انٹرویوز پر مبنی ہیں۔ ان میں دو ایسے انٹیلی جنس حکام بھی شامل تھے جو اس سارے منصوبے کی پلاننگ اور اس پر عمل درآمد سے اچھی طرح آگا ہ تھے۔ فخری زادہ کے اہل خانہ نے میڈیا سے جو باتیں شیئر کیں وہ بھی ان میں شامل ہیں۔ تیاری اور قتل کا آغاز 2019ء کے آخر اور 2020ء کے شروع میں اسرائیلی حکام کی ملاقاتوں کے بعد ہوا جس میں موساد کے ڈائریکٹر یوسی کوہن اور صدر ٹرمپ، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر سمیت اعلیٰ امریکی حکام نے شرکت کی تھی۔ اسرائیل نے ایرانی پروگرام کو سبوتاژ کرنے اور فخری زادہ کو قتل کرنے کی کوششیں 2012ء میں اس وقت روک دی تھیں جب امریکا نے ایران کے ساتھ 2015ء میں ایٹمی معاہدے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جب صدر ٹرمپ نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تو اسرائیل نے ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کے لیے یہ مہم دوبارہ شروع کر دی تاکہ اسے جوہری پروگرام کے حوالے سے سخت پابندیاں قبول کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

فروری کے آخر میں مسٹر کوہن نے امریکا کو کئی ممکنہ آپریشنز کی ایک فہرست دکھائی جس میں فخری زادہ کا قتل بھی شامل تھا۔ فخری زادہ 2007ء سے ا سرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے اور موساد نے اپنی نظریں کبھی ان سے نہیں اٹھائی تھیں۔ 2018ء میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے وہ دستاویزات دکھانے کے لیے ایک نیوز کانفرنس کی‘ جو موساد نے ایران کے نیوکلیئر آرکائیو سے چرائی تھیں۔ ان کا موقف تھا کہ ایران ابھی تک ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کئی مرتبہ فخری زادہ کا نام دہرا یا تھا ’’اس نام کو یاد رکھیں، فخری زادہ!‘‘۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement