ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے ایٹمی سائنسدان کا قتل …(2)

تحریر: رانن برگمین

میٹنگ میں موجود ایک عہدیدار کے مطابق جن امریکی حکام کو واشنگٹن میں اس قتل کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی انہوں نے بھی اس کی حمایت کر دی۔جنوری 2020ء میں امریکہ نے اسرائیلی انٹیلی جنس کی مدد سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے کے ذریعے قتل کر دیا تھا جس پر ایران نے ڈھیلا ڈھالا سا رد عمل ظاہر کیا تھا ‘اس پر بھی امریکہ اور اسرائیل کی  حوصلہ افزا ئی ہوئی ۔اگر ایران اپنی اعلیٰ عسکری قیادت کے قتل پر نیم دلانہ رد عمل دیتا ہے تو ا س سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ایران اس پر شدید ردعمل دینے کا اہل نہیں یا اس سے دانستہ گریز کر رہا تھا؛چنانچہ فخری زادہ کے تعاقب میںتیزی آگئی۔جب انٹیلی جنس اس معاملے میں شامل ہوئی تو اس چیلنج کی راہ میں حائل مشکلات بھی سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ایران بھی جنرل سلیمانی کے قتل سے یہ سبق سیکھ چکا تھا کہ ا س کی اعلیٰ قیاد ت کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ فخری زادہ اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں سر فہرست ہیں ایران نے ان کی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی تھی۔ان کی سکیورٹی کے معاملات انقلابی گارڈز کے ایلیٹ یونٹ انصار کے ذمے تھی جو بھاری ہتھیاروں سے مسلح اورانتہائی تربیت یافتہ ہیںاور اپنے مخصوص چینلز کی مدد سے ہی رابطہ رکھتے ہیں۔وہ فخری زادہ کے ہمرا ہ چار سے سات گاڑیوں کی معیت میں ایک کانوائے کی صورت میںسفر کر تے تھے۔ کسی بھی ممکنہ حملے کو ناکام بنانے کے لئے وہ ہمیشہ اپنا روٹ اور وقت تبدیل کر لیا کرتے تھے۔فخری زادہ کے پاس پانچ گاڑیاں تھیں اور وہ انہیں بدل بدل کر سفر کیا کرتے تھے۔اسرائیل نے پہلے سائنسدانوں کے قتل میں متنوع قسم کے حربے استعمال کیے تھے۔ہٹ لسٹ میںشامل پہلے سائنسدان کو 2007ء میں زہر دیا گیا تھا۔2009ء میں دوسرے سائنسدان  کو ایک موٹر سائیکل میں نصب بم کی مدد سے قتل کیا گیا تھامگر یہ منصوبہ بندی انتہائی پیچیدہ نوعیت کی تھی۔ایک مشتبہ ایرا نی کو  گرفتار کر لیا گیا جس نے اعتراف جرم کر لیا تھا اور اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔ان قتلوں کے بعد موساد نے سادہ طریقے استعمال کر نا شرو ع کر دیے تھے جن میں انفرادی قتل شامل تھے۔ 2010ء سے 2012ء میں چار سائنسدان قتل ہوئے ۔موٹر سائیکل سوارحملہ آور تہران کے ٹریفک جام میں اپنے ٹارگٹ کی کار سے ٹکرا جاتے یا کسی کھڑکی میں سے انہیں نشانہ بناتے یا کار کے ساتھ کوئی بم نصب کر دیتے تاہم فخری زادہ کی سکیورٹی پرمامور کانوائے نے موٹر سائیکل کے استعمال کو ناممکن بنا دیا تھا۔موسم گرما میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ صدرٹرمپ جو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مکمل اتفاق رائے رکھتے تھے اگلے  الیکشن ہار سکتے ہیں۔ان کے ممکنہ جانشین جو بائیڈن نے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو بدل دیں گے اور ایران کے ساتھ ہونے والے2015ء کے معاہدے کو بحال کر دیں گے جس کی اسرائیل نے سخت مخالفت کی تھی ۔محسن فخری زادہ  قم کی ایک قدامت پسند فیملی میں پلے بڑھے تھے۔جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو ان کی عمر 18سال تھی اور وہ اس انقلاب کی روح سے سرشار نظر آتے تھے۔ان کے بس دو ہی خواب تھے ‘ایک ایٹمی سائنسدان بننا اور نئی حکومت کے ملٹری ونگ کے لیے کام کرنا۔انہوں نے انقلابی گارڈز کو جوائن کرلیا اور جنرل کے منصب تک جا پہنچے۔انہوں نے اصفہان یونیورسٹی آ ف ٹیکنالوجی سے نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔انہوں نے انقلابی گارڈز کے لئے میزائل پروگرام متعارف کرایا اور ملک میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی ۔وزارت دفاع کے ریسرچ ڈائریکٹر کے طو رپر انہوں نے ایران کے مقامی بنے ہوئے ڈرون متعارف کرائے ۔دو ایرانی حکام کے مطابق انہوں نے شمالی کوریا کا دورہ بھی کیا تاکہ میزائل پروگرام کی تربیت لے سکیں۔اپنی شہادت کے وقت وہ ایران کے نائب وزیر دفاع تھے۔ 

ان کی پیشہ ورانہ زندگی زیادہ تر پر اسرار رہی جس سے عام ایرانی کے مقابلے میں موساد زیادہ آگاہی رکھتی تھی۔ان کا کیریئر ان کے بچوں کیلئے بھی بہت پر اسرار تھا۔ان کے بیٹوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے والد  کیا کام کر تے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے اندازے کے مطابق وہ کسی میڈیکل دوائی کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جب انٹر نیشنل انسپکٹرز ان سے ملنے کے لئے آئے تو انہیں کہہ دیا گیا کہ وہ دستیاب نہیں ہیں۔ان کی لیبز اور ٹیسٹنگ گرائونڈز تک کسی کو رسائی نہیں تھی۔ایران کی طرف سے محتاط رویے کی وجہ سے یو این سلامتی کونسل نے 2006ء میں ایران کے خلاف پابندیاں لگنے کے بعدفخری زادہ کے اثاثے منجمدکر دیے تھے ۔اگرچہ انہیں ایران کے ایٹمی پروگرام کا بانی کہا جاتا ہے مگر انہوں نے کبھی 2015ء میں ہونے والے معاہدے کے لئے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا تھا۔فخری زادہ کے کیر یئر پر چھائی دبیز تاریکی کی تہہ کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب امریکہ کے ساتھ معاہدے کی تکمیل ہوگئی تھی تو یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے کہ کیا ایران اپنا ایٹمی ہتھیار کا پروگرام جاری رکھے گا یا نہیں۔ایران نے بار ہا یہ کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام خالصتاً پر امن نوعیت  کاہے اور اس کی ایٹمی ہتھیار بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں‘ آیت اللہ خامنائی نے یہ فتویٰ جاری کر رکھا ہے کہ اس طرح کے ہتھیاربنانا غیر اسلامی فعل ہو گاتاہم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے تحقیق کاروں نے 2011ء میںہی یہ بتا دیا تھا کہ ایران ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے میں کام آتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ایران 2003ء میں ہی ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ترک کر چکا ہے تاہم اس سمت میں کافی حد تک کام ہو چکا ہے۔موساد کا کہنا تھا کہ ایران اپنا ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ اس قدر چھوڑ چکا ہے کہ اب وہ اس پلانٹ کے مختلف حصے جگہ جگہ بکھیر چکا ہے اور یہ سب فخری زادہ کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔جب صد ربش 2008ء میں یروشلم کا دورہ کر رہے تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرات نے انہیں ایک ریکارڈنگ سنوائی جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ ان کے خیال میں یہ گفتگو فخری زادہ اور ان کے ایک ساتھی سائنسدان کے درمیان ہوئی تھی۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement