ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکا میں ڈیلٹا وائرس میں کمی…( 1)

تحریر: ایمیلی انتھیس

موسم گرما میں ڈیلٹا ویری اینٹ میں خوفناک اضافے کے بعد کورونا وائرس میں دوبارہ کمی نظر آرہی ہے۔امریکا میں روزانہ تقریباً 90ہزار نئے کیسزسامنے آرہے ہیں اور یہ اگست کے کیسز سے 40 فیصد کم ہیں۔ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں اور انتقال کرجانے والوں کی تعداد میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے؛ تاہم یہ بحران ہر جگہ سے ختم نہیں ہوا خاص طورپر الاسکا میں صورتِ حال کافی سنگین ہے مگر قومی سطح پر اس کا ٹرینڈ بڑی حد تک واضح ہوچکا ہے۔امید یں جاگ رہی ہیں کہ ہم بدترین صورتِ حال کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

گزشتہ دو سال کے دوران امریکا میں کورونا بار بار ایک نئی لہر کی شکل میں حملہ آور ہوتا رہا ہے جس سے کبھی ہسپتال بھر جاتے اور کبھی ان میں کمی آجاتی۔جب امریکی ذرا سست پڑ جاتے تو یہ لہر پھر عود کر آتی۔ اس طرح کے وائرس کے نشیب وفراز کی وجوہات کا تجزیہ تو مشکل ہوگا اورمستقبل کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا اس سے بھی مشکل ہے۔ مگر اب جبکہ موسم سرما کی آمد آمد ہے‘ ہماری رجائیت پسندی کی وجوہات واضح ہیں۔ تقریباً70 فیصد سے زائد بالغ شہریوں کو مکمل ویکسین لگ چکی ہے اور 12سال سے کم عمر کے بچے بھی اس اہل ہوگئے ہیں کہ آئندہ ایک دو ہفتوں میں انہیں بھی ویکسین کی خوراک مل جائے گی۔فیڈرل حکام بہت جلد کووڈ کی پہلی گولی کی منظوری بھی دینے والے ہیں۔

بوسٹن یونیورسٹی میں سنٹر فار ایمرجنگ انفیکشیئس ڈیزیز پالیسی اینڈ ریسرچ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ناہید بھڈیلیا کہتی ہیں ’’بلاشبہ ہم گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ایک بہتر صورتحال میں ہیں‘‘؛تاہم سائنسدانوں نے وارننگ دی ہے کہ ہم ابھی کووڈ سے باہر نہیں نکل سکے۔آج بھی دو ہزار سے زائد امریکی شہری روزانہ فو ت ہو رہے ہیں۔موسم سرما میں کووڈ کی نئی لہر بھی متوقع ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ دیکھا جائے کہ کتنے امریکی شہریوں کو ابھی تک کووڈ کی ویکسین لگنے والی ہے اور ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ معلومات نہیں رکھتے تو اس مرحلے پریہ کہنا آسان نہیں ہوگا کہ ہمیں اس وقت بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا ترک کر دینا چاہئے۔ ڈاکٹر ناہید بھڈیلیا کہتی ہیں کہ ہم یہ کام بار بار کر چکے ہیں،مگر ہم نے وقت سے بہت پہلے پیڈل سے پائوں اٹھا لیا۔ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس وقت جب ہم کووڈ کی فنش لائن کے قریب پہنچنے والے ہیں‘ہمیں اس ضمن میں مزید محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب 2020ء کے آغاز میں کووڈکیسز کی پہلی لہر نے امریکا میں تباہی مچائی تھی بدقسمتی سے اس وقت ہمارے پاس کووڈ کی ویکسین دستیاب نہیں تھی اور کسی فرد میں کورونا کے اس مہلک وائرس کے خلاف امیونٹی بھی نہیں پائی جاتی تھی۔کورونا کیسز میں کمی لانے کے لیے اس وقت تک ہمارے پا س ایک ہی حل موجود تھا کہ ہر شخص اپنے انفرادی رویے میں تبدیلی لائے۔ 

یہ پہلا موقع تھا جب یہ حکم جاری ہوا تھا کہ سب لوگ اپنے گھروں کے اندر محدود رہیں،ہر طرح کا کاروبار بند کر دیا جائے،ہر شخص کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا، حتی الوسع ایک دوسرے سے سماجی احتیاطی فاصلہ برقرار رکھا جائے،بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی تھی۔ابھی تک یہی بحث جاری ہے کہ ان احتیاطی اقدامات میں سے کون سا سب سے مؤثر ثابت ہوا ہے مگر کئی مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ ان سب نے مل کر ایک فرق تو ڈالا ہے۔لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا گیا اور اس سطرح کووڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پا لیا گیا۔ریسرچرز کے مطابق رضا کارانہ سماجی فاصلہ رکھنے سمیت ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر مؤثر طریقے سے قابو پا لیا گیا۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ماہر وبائی امراض جینیفر نوزو کے خیال میں ’’ اگر یہ پابندیاں ختم کر دی جائیں تو امید ہے کہ کورونا کی ہلاکت آفرینی کی یادیں ذہنوں سے محو ہو جائیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ کووڈ کیسز میں ابھی مزید اضافہ ہو نا ہے اور ایسی ہی کئی لہریں دیکھنے میں آئیں گی۔ بزنس اور مقامی حکومتیں ایک بار پھر یہ پابندیاں عائد کریں گی اور جن لوگوں نے اب زندگی کا سابقہ انداز اپنا لیا ہے‘ انہیں ایک مرتبہ پھر گھروں میں بند رہنا پڑے گا اور ماسک پہننا ہوگا۔

 یو ایس کووڈ19ٹرینڈز اینڈ امپیکٹ سروے‘ جس نے اپریل 2020ء سے اوسطاً 44 ہزار فیس بک یوزرز کا روزانہ سروے کیا ہے‘ کے مطابق گزشتہ موسم سرما کے دوران کیسز میں اضافہ ہونے کے دوران جتنے لوگوں کے بارزاور ریستواران میں کھانا کھانے کی رپورٹس جاری ہوئی تھیں‘اب ان کی تعدا د میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ڈاکٹر نوزو کے مطابق عوامی آگاہی کی بدولت اب کورونا کیسز میں کمی ہو گئی ہے۔ہم اس بحران اور اطمینان کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں۔ کووڈ کیسز کے عروج کے دنوں میں ڈیلٹا ویری اینٹ اس وقت پھیلا جب امریکی شہریوں کی اکثریت کو ویکسین لگ چکی تھی اور وہ کافی مطمئن تھے۔ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ پرانی لہر کے مقابلے میں ڈیلٹا کی موجودہ لہر سے انسانی رویے میں کم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس کے مطابق وسط جولائی میں 23 فیصد امریکی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ عوامی اجتماعات میں ہمیشہ ماسک پہن کر جاتے ہیں جو مارچ 2020ء کے بعد کم ترین شرح ہے۔

31اگست کو ڈیلٹا ویری اینٹ اپنے عروج پر تھا تو یہ شرح 41 فیصد تک چلی گئی مگر پھر بھی یہ ان 77 فیصد سے کہیں کم ہے جنہوں نے یہ رپور ٹ کیا تھا کہ انہوں نے کوروناکی موسم سرما کی بھرپور لہر کے دورا ن ماسک پہنا تھا۔انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرسٹوفر مرے کہتے ہیں ’’کیا آپ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ ایک نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں یا کووڈ سے پہلے کی زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔

پھر بھی اگر ہم اپنے رویوں میں ہلکی سے بھی تبدیلی لے آئیں تو ہمیں کم سے کم کورونا وائرس پھیلانے میں مدد مل سکتی ہے اور ڈیلٹا انفرادی اور آرگنائزیشنل‘ دونوں سطحوں پر انسانی رویوں میں بہت تیزی سے تبدیلی لاتا ہے۔سکولوں میں نئی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں،کمپنیوں نے بزنس دوبارہ کھولنے کا ارادہ فی الحال ترک کردیا ہے،آرگنائزیشنز نے اپنے ایونٹس منسوخ کر دیے ہیں اور اس طرح وائرس کے پاس پھیلنے کے بہت کم مواقع دستیاب ہیں۔ اسی دوران مزید معتدل موسم خزاں شروع ہو چکا ہے اور اس سے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو ملک کے کئی علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنے کا امکان بڑھ گیا ہے جہاں وائرس کے پھیلنے کے امکانات اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ یونیورسٹی آف وسکونسن کے ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر ڈیوڈ او کونر کہتے ہیں ’’اس وقت سفر کرنے کے لیے ایک مثالی موسم ہے جب موسم گرما کے وسط کے مقابلے میں جنوبی امریکا میں سرد موسم ہے جبکہ سردیوں کے وسط کے گرم موسم کے مقابلے میں شمالی امریکا میں ایک گرم موسم پا یا جاتا ہے‘‘۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement