ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

وعدوں کی پاسداری کی جستجو …(1)

تحریر: راجر کوہن

ریکس سیپن فیلڈ کو رات بھر ایک لمحے کے لیے بھی نیند نہیں آئی۔ وہ ایک سابق میرین فوجی ہے جو افغانستان میں ہونے والی طویل جنگ میں اپنی خدمات سر انجام دے چکا ہے۔ اسے نیند نہ آنے کی وجہ اس کے افغان ترجمان کی حالتِ زارتھی، اس ترجمان کی بیوی اور تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کے ساتھ ریکس سیپن فیلڈ نے دورانِ جنگ یہ وعدہ کیا تھا ’’ہم تمہیں کسی صورت اکیلاچھوڑ کر نہیں جائیں گے‘‘۔ ریکس آج کل ایک ہائی سکول میں انگریزی زبان کا ٹیچر ہے اور اپنے طالب علموں کو انگلش زبان کادرست تلفظ سکھاتا ہے مگر جب سے امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کیا ہے‘ ریکس کو اپنے افغان ترجمان اور اس کے بچوں سے کیا ہوا وعدہ ہر وقت ایک خلش بن کریاد آتا رہتا ہے۔ 53سالہ سابق میرین ریکس سیپن فیلڈ کا کہنا ہے ’’میں نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا اور اس وقت مجھے اپنی اس وعدہ خلافی پرسخت اذیت محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اپنے افغان بھائیوں کے منہ پر یہ بات کہی تھی کہ آپ ہم پرپورا بھروسہ کر سکتے ہیں‘ اگر آپ چاہیں تو آپ امریکا بھی آسکتے ہیں‘‘۔

 اگرچہ امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکال چکا ہے مگر ریکس سیپن فیلڈ اور اس جیسے بہت سے بزرگ فوجیوں نے ابھی تک افغانستا ن سے اپنا ناتا نہیں توڑا۔ وہ آج بھی ایک غیر رسمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں جس میں وہ ریٹائرڈ جنرل بھی شامل ہے جو اس کے یونٹ کی کمانڈ کر چکا ہے۔ ریٹائرڈ ڈپلومیٹس، انٹیلی جنس آفیسرز اور ورجینیا کا ایک سابق میتھ ٹیچر بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہے۔ یہ سب لو گ ابھی تک اپنے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے ان افغان ساتھیوں کی جانیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کے دوران اپنی جانیں خطرے میں ڈالی تھیں۔ وسط اگست سے لے کر یہ نیٹ ورک 23خاندانوں کے 69افرا دکو افغانستان سے باہر نکال چکا ہے مگر 68مختلف خاندانوں کے346 افراد آج بھی خطرے سے دوچار افغانوں کی فہرست میں باقی ہیں۔ ان میں وہ ترجمان بھی شامل ہے جسے ریکس سپین فیلڈ ہمیشہ اپنا بھائی کہتا تھا۔ ریکس نے بتایا کہ اس کے ترجمان نے جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں یہ بتا کر ’’ کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا‘‘، ہمارے یونٹ کو ہمیشہ متحرک رکھا تھا۔ ریکس کا اپنے ترجمان کے ساتھ روزانہ رابطہ رہتا ہے جو وسط اگست میں افغان طالبان کے کابل پر قبضہ کر لینے کے بعد سے چھپتا پھرتا ہے اور اپنی سکیورٹی کے پیش نظر صرف Pکے نام سے جانا جاتا ہے جو اس کے نام کا پہلا حرف ہے۔ وہ ایک مہینہ تک افغان دارالحکومت کابل میں چھپا رہا حتیٰ کہ ریکس کے نیٹ ورک نے اپنی رہنمائی میں 15گھنٹے کے بس سفر کے بعد اس کے لیے افغانستان کے کسی دوسرے شہرمیں جانے کا بندوبست کیا۔ اس ہفتے Pایک چارٹر فلائٹ کا منتظر ہے کیونکہ وہ اپنے محفوظ ٹھکانے بدل بدل کر تھک چکا ہے۔ اس نے ریکس کو لکھا ’’طالبان یہاں ہمیں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارا تعلق افغانستان کے اس علاقے سے نہیں ہے‘‘۔

افغانستان سے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ میں یہ جنگ اگلے صدر اور اگلی نسل کو منتقل نہیں کروں گا۔ وہ اس کا خاتمہ کردیں گے مگر جس بھونڈے طریقے سے یہ انخلا ہوا ہے اور جس طرح ان ہزاروں افغان شہریوں کوپیچھے شدید خطرے میں چھوڑ دیا گیا جنہوں نے افغان جنگ میں امریکی فوج کی ہر طرح کی مدد کی تھی‘ اس سے کئی سینئر فوجیوں کو بہت دکھ ہوا ہے۔ ریکس کا کہنا ہے ’’میں نے اپنے 11thگریڈ کے سٹوڈنٹس کو بتادیاہے کہ صرف وہ خود ہی اپنی عزت اور وقار پر سمجھوتا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ جھوٹ بولنے یا دھوکا دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑے گا مگر اس معاملے میں کسی اور نے میرے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ مجھے اس بات پر شدید الجھن محسوس ہو رہی ہے‘‘۔ کیا ہماری خدمات کی بھی کوئی اہمیت ہے ؟ جب لیفٹیننٹ جنرل لارنس نکلسن نے اگست میں اپنی کمان میں لڑنے والے میرین بریگیڈ کے فوجیوں کے نام ایک خط کا ڈرافٹ لکھا تو یہی سوال انہیں بھی پریشان کر رہا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’کوئی بھی آپ کی قوم کے لیے بے لوث خدمات کو ماند نہیں کر سکتا‘‘۔ کوئی نہیں! دو عشروں کی طویل جنگ کے بعد طالبان کا یکایک افغانستان پر قابض ہونا بھی نہیں اور اڑتے ہوئے طیاروں سے گرتے ہوئے افغان شہری بھی نہیں اور یہ بدگمانی بھی نہیں کہ افغانستان راتوں رات دوبارہ انہی لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جنہیں امریکیوں نے آج سے بیس سال پہلے نیست و نابود کر دیا تھا۔

جنرل نکلسن‘ جو 2018ء میں ریٹائر ہو گئے تھے‘ لکھتے ہیں ’’مجھے احسا س ہوا کہ مجھے کہنا چاہئے تھا کہ جوانو! اپنے سرفخر سے بلند رکھو‘‘۔جنرل نے ان 92میرین فوجیوں کو بھی یا د کیا جوصوبہ ہلمند میں اس کی کمان میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، اُن 2461 امریکی فوجیوں کوبھی یاد کیا جنہوں نے افغان جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھااور اَن کہے خزانوں کو بھی یاد کیا جو کہیں کھو گئے تھے۔ جنرل نے لکھا کہ ’’آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اگر میں نہیں تو پھر کون؟‘‘۔ یہ خط 17اگست کو لکھا گیا تھا۔ یہ جیسے ہی ایک شخص کو ملااس نے فوری طور پر اسے LinkedInپر پوسٹ کر دیا اور یہ پلک جھپکنے میں تما م سنیئر فوجیوں اور چیٹ گروپس میں سرکولیٹ کرنے لگا، جہاں پہلے ہی بڑے تکلیف دہ سوالات پوچھے جا رہے تھے کہ افغانستان سے انخلاکرتے وقت میرین کے اس بنیادی نعرے پر عمل کیوں نہیں کیا گیا کہ ’’کسی کو پیچھے چھوڑ کر نہیں جانا‘‘۔

جنرل نکلسن کا خط اس کوڈ کے اشارے پر ختم ہوا تھا جسے امریکی میرین بہت عزت اور احترام دیتے تھے ’’شاید آپ جانتے ہوں کہ ہم آپ کو افغانستان سے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے کے لیے کئی چینلز پر کام کررہے ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک چینل کو ایک ریٹائر ڈ میرین انٹیلی جنس آفیسر جیک برٹن جونیئر چلا رہا تھا جو عراق جنگ میں جنرل نکلسن کے ماتحت خدمات سرانجام دے چکا تھا اور اب وہ ٹیکساس میں کارپوریٹ سکیورٹی کے لیے کام کررہا تھا۔ اپنی اِنکرپٹڈ میسج ایپ ’’سگنل‘‘ پر جیک برٹن نے ایک گروپ بنا رکھا تھا جس کا عنوان تھا Support HKIAجو حامد کرزئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا مخفف ہے۔ اس نے جونہی لکھا کہ Digital Dunkerqueتو فوری طور پر ایک مشترکہ ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیاجس میں کئی مرتبہ غیر رسمی نیٹ ورکس کے ساتھ مل کر بھی کام کرنا پڑا۔ جنرل نکلسن نے لکھا کہ ’’اس ریسکیو آپریشن میں جیک برٹن ماسٹر سہولت کار تھا‘‘۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement