وعدوں کی پاسداری کی جستجو …(2)
تحریر: راجر کوہن
میتھ کی ایک ریٹائرڈ ٹیچر بروس ہیمپ ماسٹر کوآرڈی نیٹر تھیں اور دادی‘ جو اپنے شوہر کے ہمراہ ورجینیا میں سٹانٹن کے فارم پر رہتی تھی۔ دادی 2007ء میں جنرل نکلسن سے مل چکی تھی اور وہ جلد ہی اپنے دوستوں سے مل کر فوجیوں کی دیکھ بھال کے پیکیج کا بندوبست کر رہی تھی۔ 2011ء سے اس نے اپنے فارم پر ایک سالانہ پارٹی بھی منعقد کرنا شروع کر دی تھی۔ اب انہی لوگوں نے افغان شہریوں کے انخلا کے لیے نیٹ ورک پر کام شروع کر دیا تھا۔ بروس ہیمپ کا کہنا تھا ’’فوری تقاضا یہ جاننا تھا کہ جن لوگوں نے متعدد بار امریکیو ں کی جانیں بچائی تھیں‘ اب وہ لوگ حکومت کے مدد نہ کرنے پر کس قدر مایوسی کا شکار ہیں‘‘۔ سگنل گروپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے بروس ہیمپ نے خطرے سے دوچار 400 افغانوں کی فہرست مرتب کی جس میں ان کے پاسپورٹ، ویزا درخواست کی تفصیلات، امریکی سپانسرز کے نام کے علاوہ افغان میکینکس اور مترجمین کے فون نمبر بھی درج تھے۔ اس کا فارم ہائوس ایک کمانڈ سنٹر بن گیا جہاں فون کالز کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اس نیٹ ورک نے افغانستان میں موجود فوجیوں اور انٹیلی جنس افسروں کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔ اس نے ’دی ٹائمز‘ کو افغان شہریوں کی فہرست دکھائی جن میں بڑے خاندان بھی شامل تھے، ان میں سے چند ایک کو ’’نکال لیا گیا‘‘ کے الفاظ سے مارک کیا ہوا تھا۔
امریکی فوجی افغان شہریوں اور دیگر افراد کو نکالنے میں مصروف تھے کہ 26 اگست کو کابل ایئر پورٹ پر خود کش حملہ ہوگیا جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری مارے گئے تھے، اس کے بعد انخلا کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ اس دن ایک افغان شہری مطیع اللہ مطیع‘ اس کی بیوی اور 6 بچے ایبی گیٹ کے پاس کھڑے تھے ان کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر ’’چیسٹی پلر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ نام عجیب سا لگ رہا تھا مگر اتنا بھی عجیب نہیں تھا۔ چیسٹی پلر میرین کور کا ہیرو تھا‘ جس نے جنگ عظیم دوم اور کوریا کی جنگ میں عظیم کارنامے سرانجام دیے تھے۔ مطیع اللہ صوبہ ہلمند کا بزنس مین تھا جو کئی سال تک جنرل نکلسن کے سہولت کار کے طور پر کام کرتا رہا تھا اور ہلمند میں جنگ لڑنے والے میجر مائیک کوپر کے کہنے پر چیسٹی پلر کا پلے کارڈ اٹھائے کھڑا تھا۔ اس پلے کارڈ کو دیکھ کر ایئر پور ٹ پر متعین امریکی فوجیوں نے مطیع اللہ اور اس کی فیملی کو گیٹ سے گزار کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ بعد میں انہیں جرمنی کے رمسٹین ایئر بیس پہنچا دیا گیا۔ وہ یہاں امریکا جانے کے لیے ایک مہینے تک ایک خیمے میں مقیم رہے۔ ایک انٹرویو میںاس نے بتایا ’’جب فوجیوں نے ہجوم میں میرے ساتھ رابطہ کیا تو اس وقت میرے فون میں ایک پاس ورڈ تھا جو چائے کا ایک کپ تھا۔ یوں مجھے امریکی فوجیوں نے بچا لیا‘‘۔ 14 اکتوبر کو مطیع اللہ اور اس کی فیملی جرمنی سے فلاڈیلفیا پرواز کر گئے جہاں پہنچ کر اس نے اپنے میسج میں امریکی فوجیوں کا شکریہ ادا کیا۔
امریکا نے فوجی انخلا سے قبل ایک لاکھ افغان شہریوں کو وہاں سے نکالا جن میں سے اکثریت نے کبھی امریکی فوج کے لیے کام نہیں کیا تھا۔ بہت سے سنیئر فوجیوں کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ہارنے پر فوجی جرنیلوں اور صدور کا محاسبہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایک حاضر سروس فوجی نے اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر کہا ’’کسی ٹریننگ بیس پر اگر کوئی رائفل گم ہو جائے تو پوری چین آف کمانڈ کو فارغ کر دیا جاتا ہے مگر یہاں آپ نے اربوں ڈالر کا اسلحہ طالبان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ 26اگست کو 13 امریکی فوجی ایئرپورٹ حملے میں مارے گئے، آپ امریکا کی طویل ترین جنگ ہار گئے اور کسی سے ذرہ برابر پوچھ گچھ نہیں کی گئی‘‘۔ ورجینیا میں بروس ہیمپ اور دوسرے لوگ آج بھی افغانوں کو بچانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ اس کے تین پوتے ہیں اور اسے اب کام کرنے کی ضرور ت نہیں ہے کیونکہ اکثر امریکی ان ہزاروں افغانوں کو پہلے ہی فراموش کر چکے ہیں۔ بروس نے بتایا کہ میری تو اس سنہرے اصول کے تحت پرورش ہوئی تھی ’’آپ لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے اور ہمیشہ اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہیں‘‘۔
ریکس سیپن فیلڈ اکثر اپنے مترجم پی کے ساتھ زوم پر بات کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کی وڈیوز بھی ایک دوسرے کو بھیجتے رہتے ہیں مگر ان کا موضوع زیادہ تر خوف اور مایوسی ہوتا ہے۔ خوف طالبان کا ہے اور مایوسی امریکی وزارتِ خارجہ سے ہے جو کئی سال سے ویزا درخواستوں پر بڑی سست روی سے کام کر رہی ہے۔ پی کے نے زوم کال پر اسے بتایا ’’وہ کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔ میں بہت مایوس ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے میرے بچوں کے سامنے ہی قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ مسٹر پی گزشتہ دس برسوں سے امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سپیشل امیگرنٹ ویزا کی بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے پہلے بھی کابل کی امریکی ایمبیسی میں دو ویزا انٹرویوز ہو چکے ہیں۔ ستمبر کو فارن آفس کے ایک افسر نے بروس ہیمپ کو ایک ای میل میں بتایا کہ مسٹر پی کو ایک اور انٹرویو دینا ہو گا اور یہ کابل میں تو ممکن نہیں ہو گا۔ سوری! یہ تو بہت گھٹیا اور تکلیف دہ بات ہے‘‘۔ بروس ہیمپ نے جوابی ای میل میں لکھا ’’آج جبکہ آن لائن میٹنگز، زوم کانفرنس کالز، فیس ٹائم کالز اور میسنجر وڈیو چیٹس ممکن ہیں تو وہ آن لائن انٹرویو کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ فارن سروس کے افسر نے واشنگٹن میں اپنے ایک کولیگ سے چیک کیا جس نے یہ تصدیق کر دی کہ کابل کا سفارتخانہ بند ہونے کی وجہ سے مسٹر پی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ افغانستان چھوڑے بغیر انٹرویو دے سکیں۔ افسر نے مزید لکھا کہ پھر اس کے ایس آئی وی ویزا کیس کو کسی دوسرے ملک ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے لہٰذا یہ بھی ’’کیچ 22‘‘ والی صورتحال ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی سیکرٹری الجینڈرو میورکاس کے مطابق امریکا کے افغانستان کے انخلا کے دوران جن افغانوں کو وہاں سے نکالا گیا تھا‘ ان میں سے صرف 3 فیصد کے پاس سپیشل امیگرنٹ ویزے ہیں۔ مسٹر پی نے اپنی درخواست پہلے اپریل 2010ء میں جمع کرائی تھی جب سیپن فیلڈ کا یونٹ صوبہ ہلمند میں موجود تھا۔ اگر اس کی درخواست بھول بھلیوں والے پروسیس میں نہ پھنستی تو اسے بہت پہلے افغانستان سے نکال لیا گیا ہوتا مگر اب وہ وہاں پھنسا ہوا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے اپنی ای میل میں لکھا ہے کہ ہمارے لیے مسٹر پی جیسے لوگوں کی مدد کرنا بہت اہم ہے مگر ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ اس وقت افغان شہریوں کے لیے یہ انتہائی مشکل ہے کہ وہ ویزا انٹرویو دینے کے لیے کسی تیسرے ملک کا ویزا حاصل کر سکیں؛ تاہم پی نے اپنی کوشش ترک نہیں کی۔ ہر رو ز فلائٹس کے بارے میں مختلف بات سننے کو ملتی ہے‘ ابھی تک کسی نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مگر بروس ہیمپ، سیپن فیلڈ، مسٹر برٹن اور جنرل نکلسن میں سے کسی نے بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔ (ختم)
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)