ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دوویکسین کا مشترکہ استعمال اور نتائج…(1)

تحریر: کارل زیمر

امریکا کی فوڈاینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(FDA) نے دو قدم آگے بڑھ کر امریکی عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کردیاہے کہ کووڈ کی بوسٹر شاٹ لگواتے وقت وہ خود یہ انتخاب کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کون سی ویکسین لگوانی ہے۔امریکا میں کافی عرصے سے یہ بحث چل رہی تھی کہ اگر دوویکسین کا باری باری مشترکہ استعمال کیا جائے تو کیا اس سے امریکی شہریوں کو کورونا وائرس کے خلاف بہتر تحفظ مل سکتا ہے اور ایف ڈی اے کا حالیہ فیصلہ اسی بحث کا شاخسانہ ہے۔یہاں ہم بوسٹر شاٹس کے مشترکہ استعمال پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ یہ اپروچ مختلف کس طرح ہے ؟کووڈ کے خلاف امیونٹی بڑھانے کا پراسیس ایک ہی ویکسین کی دویا اس سے زیادہ خوراکوں پر مشتمل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ماڈرنا ویکسین لگاتے وقت mRNAکی دوایک جیسی مقدار کی خوراکیں لگائی جاتی ہیں اور ان دونوں میں چار ہفتے کا وقفہ ہوتا ہے۔ایک ڈوز کے مقابلے میں ویکسین کی ڈبل ڈوز لگانے سے انسان میں اس بیماری کے خلاف کہیں بہتر تحفظ پیدا ہو جاتا ہے۔ویکسین کی پہلی ڈوز کسی بھی وائرس کے خلاف ہمارے امیون سسٹم کے Bسیلز کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ہمارے جسم میں اس بیماری کے خلاف اینٹی باڈیز بنا سکیں۔دوسرے امیون سیلز جنہیں Tسیل کہا جاتا ہے کے اندر اتنی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ پہلے وائرس کے متاثرہ سیلز کی شناخت کرتے ہیں اور پھران پر حملہ آور ہوکر انہیں تلف کر دیتے ہیں۔ویکسین کی دوسری ڈوز اس رد عمل کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ BاورTسیل جو وائرس کے خلا ف لڑتے ہیں وہ بڑھ کر تعداد میں کئی گنا ہو جاتے ہیں۔یہ دشمن کے خلاف زیادہ طاقتور حملہ آور پید کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں بعض ویکسین ریسرچرز نے اس پہلو پر بھی تجربات کیے ہیں کہ اگر پہلی ڈوز لگانے کے بعد دوسری ڈوز کسی دوسری ویکسین کی لگائی جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ تکنیکی زبان میں اس اپروچ کو ’’ہیٹرو لوگس پرائم بوسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔کووڈ نے اس امکان کے حوالے سے ریسرچرز میں مزید تحریک پیدا کی ۔اس اپروچ کے تحت جو ویکسین سب سے پہلے تیار کی گئی تھی اس کا نام سپوتنکVتھاجسے روسی ریسرچرز نے کووڈ کے خلاف تحفظ کے لیے بنایا تھا۔اس میں دو مختلف قسم کے ایڈینووائرسز استعمال کیے گئے تھے تاکہ کورونا وائرس کی پروٹینز پیدا کی جائیں جن پر ہمارے امیون سسٹم نے حملہ کرکے انہیںتلف کردیا ۔پہلی ڈوز میں ایڈینووائرس Ad5اور دوسری ڈوز میں ایک اور Ad26شامل تھا۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ بہتر کیوں ہو سکتی ہے؟ سائنسدانوں کو کافی دیر سے یہ شک تھا کہ کئی دفعہ ہیٹرولوگس پرائم بوسٹ دو ایک جیسی ویکسین کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج دیتی ہے۔سپوٹنک Vکے ڈیزائنرز کو خدشہ تھا کہ Ad5کی پہلی ڈوز نہ صرف کورونا وائرس پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز بنائے گی بلکہ یہ Ad5کے اپنے خلاف بھی اینٹی باڈیز بنائے گی۔انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر Ad5ہی کی دوسری ڈوز دی گئی تو اس سے پہلے کہ یہ کووڈ کے خلاف تحفظ کو مزید تقویت فراہم کرے ، لوگوں کا امیون سسٹم Ad5کابالکل ہی صفایا کر دے گا۔

H.I.Vکے خلاف تجرباتی ویکسین سے متعلق سٹڈیز سے بھی معلوم ہوا تھا کہ ایک ہی ویکسین کی دو ایک جیسی ڈوز ز دینے کے بجائے اگر دو مختلف اقسام کی ویکسین کا استعمال کیا جائے تو اس سے ہمیں وسیع تر اور زیادہ موثر نتائج اور رد عمل مل سکتا ہے۔ اگر ہم دو مختلف قسم کی ویکسین استعمال کریں تو یہ ہمارے امیون سسٹم کو ایک مختلف طریقے سے متحرک کر سکتی ہیں اور اگر ہم ایک ویکسین کی ڈوز لگوانے کے بعد دوسری ڈوز کے لیے کسی دوسری ویکسین پرشفٹ ہوجائیں تو ہمیں ان دونوں ویکسین کے بہترین فوائد مل سکتے ہیں۔

کووڈ نے سائنس دانوں کواس آئیڈیا کو مزید ٹیسٹ کرنے کے مواقع فراہم کر دیے۔چونکہ آسٹرازینیکا ویکسین کو بڑی عجلت میں یورپی ممالک میں متعارف کروایا گیا تھا تو یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو گئی تھی کہ جن نوجوانوں کو یہ ویکسین لگائی گئی تھی ان کے خون میں لوتھڑے بننے کا کم ہی سہی مگر ایک حقیقی رسک پیدا ہوجاتا ہے۔ایسے نوجوان جو آسٹرازینیکا کی پہلی ڈوز لگواچکے تھے انہیں حکومت کی طرف سے پیشکش کی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی مرضی سے دوسری ڈوزفائزر کی BioNTechویکسین کی بھی لگوا سکتے ہیں۔ یا د رہے کہ کووڈ کی یہ دونوں ویکسین بنیادی طو رپر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔برطانیہ کی تیار کردہ آسٹرازینیکا ویکسین کا فارمولا چمپینزی کے ایڈینووائرس پر مبنی ہے جبکہ دوسری طرف فائزر اور BioNTechاپنی کورونا ویکسین mRNAکے ذریعے تیار کرتے ہیں۔جب کووڈ پر ریسرچ کرنے والے ماہرین نے اس ہیٹرولوگس پرائم بوسٹ کے انسان کے امیونٹی سسٹم پر رد عمل اور اس کے نتائج کا جائزہ لیاتو حیران کن طو رپر انہیں یہ پتہ چلا کہ جب دونوں ڈوزز صرف آسٹرازینیکا ویکسین کی لگائی گئیں تو اس سے جسم میںجتنے اینٹی باڈیز بنے تھے اس کے مقابلے میں دو مختلف ویکسین کی ڈوز لگانے سے انسانی جسم میں اس سے کہیں زیادہ اینٹی باڈیز بنے۔ 

اس ضمن میں برطانیہ میں بڑے پیمانے پر ٹرائلز کیے گئے جن میں 830رضاکاروں نے حصہ لیا تھا۔یہ تجربہ کرنے والے ریسرچرز نے ان رضاکاروں میں سے بعض کو آسٹرازینیکا ویکسین کی دوڈوزز لگائیں جبکہ ان میں سے کئی ایک کو فائزر کی BioNTech کی دونوں ڈوزز لگائی گئیں اور باقی بچ جانے والے رضاکاروں کو ایک ڈوز آسٹرازینیکا ویکسین کی اور دوسری ڈوز فائزرکی BioNTechکی لگائی گئی۔انہیں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ ہیٹرولوگس پرائم بوسٹ اپروچ اپنانے سے کوئی خطرناک اثرات پیدا ہوتے ہیں۔(یاد رہے کہ ان کی اس سٹڈی کی رپورٹ گزشتہ مہینے شائع ہوئی ہے جس میںبرطانوی سائنسدانوں نے وارننگ دی ہے کہ انہوں نے اپنی یہ سٹڈی اتنے چھوٹے پیمانے پر کی ہے کہ اس دوران کبھی کبھار پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی ممکن نہیں تھی)

ِمکس اینڈ میچ کا یہ آپشن دنیا کو زندگی بچانے کے لیے ایک متنوع اور لچکدار موقع بھی دے سکتا ہے کیونکہ کووڈ کی ویکسین کی پیداوار اورفراہمی پریشان کن حد تک کم ہے۔اگر لوگوںکو دوسری ڈوز لگنے سے پہلے ہی ویکسین کی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے تو اب وہ کسی دوسری کمپنی کی ویکسین پر شفٹ ہو سکتے ہیں اور اس کے باجود ان کے اندر کورونا وائرس کے خلاف مضبوط امیونٹی پیدا ہو جائے گی۔

کامل ترین تحفظ کے حصول کے لیے کچھ بیماریوں کے کیس میں لوگوں کوویکسین کی دوسے زیادہ ڈوزز لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔بعض کیسز میںابتدائی ڈوزز دینے کے بعد ایک اضافی بوسٹر شاٹ بھی لگانا پڑتا ہے جس کا مقصد کمزور پڑتی امیونٹی کو بحال کرنا ہوتا ہے۔

موسم گرما کے دوران ماڈرنا اور فائزر کی Bio NTechویکسین نے کورونا کی انفیکشن کے خلاف کم اثرات دکھانا شروع کر دیے تاہم اس کا تسلی بخش پہلو یہ ہے کہ ان کے لگانے سے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں بہت حد تک کمی آگئی تھی۔(جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement