بھارت، فیس بک اور نفرت انگیز مہم… (1)
تحریر: شیرا فرینکل
4 فروری 2019ء کو ایک فیس بک ریسرچر نے یہ دیکھنے کے لیے ایک نیا صارف اکائونٹ کھولا کہ اسے بھارتی ریاست کیرالا میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر کیسا تجربہ ہوتا ہے۔ اگلے تین ہفتے تک اس نے اپنے اکائونٹ کو ان سیدھے سادے رولز کے تحت چلایا : کسی بھی گروپ کو جوائن کرنے کے لیے فیس بک الگورتھم کے ذریعے دی گئی تمام سفارشات کو فالو کرو، وڈیوز کو دیکھو اور سائٹ پر نئے پیجز کی تلاش کرو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفرت انگیز بیانات، مس انفارمیشن اور تشدد آمیز کارروائیوں پر جشن منانے کا ایک سیلاب آگیا جسے اس مہینے کے آخر پر فیس بک کی انٹرنل رپورٹ میں شائع کیا گیا۔
فیس بک ریسرچر نے لکھا ہے ’’صارف کی اس ٹیسٹ نیو ز فیڈ کو فالو کرتے ہوئے میں نے جتنی انسانی لاشیں دیکھی ہیں‘ اتنی شاید میں نے اپنی پو ری زندگی میں نہیں دیکھیں ‘‘۔یہ رپورٹ درجنوں سٹڈیز کی مدد سے ان فیس بک ملازمین نے لکھی ہے جنہیں بھارت میں فیس بک پلیٹ فارم کے اثرات سے واسطہ پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹس اور سیاستدان جس طرح فیس بک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس رپورٹ میں اس حوالے سے بڑے واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ فیس بک بھارت کے مقامی کلچر اور سیاست پر پڑنے والے سنگین اثرات کا ادراک کیے بغیر پورے ملک میں مصروفِ عمل ہے اور جب اس کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ ان سے نمٹنے کے لیے وسائل فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ چونکہ یہاں 340ملین صارفین ہیں جو فیس بک کے کئی سوشل میڈیاز کا استعمال کرتے ہیں اس لیے بھارت فیس بک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
فیس بک کو پوری دنیا میں جتنے مسائل کاسامنا کرناپڑا ہے برصغیر میں اسے ان سے کئی گنا زیادہ ایشوز درپیش ہیں۔ بھارت میں 22 سرکاری زبانوں، وسائل اور مہارت کے فقدان کی وجہ سے درپیش مسائل کی نوعیت مزید سنگین ہو گئی ہے۔ نیو یارک ٹائمزسمیت نیوز آرگنائزیشنز کے کنسورشیم نے جتنے بھی داخلی ڈاکیومنٹس حاصل کیے ہیں وہی اس مواد کا بڑا حصہ ہیں جسے ’’فیس بک پیپرز‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تمام مواد فرانسس ہاگن نے جمع کیا ہے جوفیس بک کے سابق پروڈکٹ منیجر رہ چکے ہیں اوربعد ازاں مخبر بن گئے تھے‘ حال ہی میں انہوں نے امریکی سینیٹ کی سب کمیٹی کے سامنے فیس بک اور اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق حلفیہ شہادت بھی دی ہے۔ اسی ماہ فرانسس ہاگن نے امریکا کے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو جو شکایت درج کرائی ہے بھارت سے متعلق ریفرنسز اس کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ ان ڈاکیومنٹس میں وہ رپورٹس بھی شامل ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح لاکھوں جعلی اکائونٹس حکمران جماعت اور اپوزیشن سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کس طرح قومی الیکشن پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ان میں یہ تفصیلات بھی درج ہیں کہ کس طرح فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکر برگ نے ایک منصوبہ بنایا جس کا مقصد دوستوں اور فیملی ممبرز کے ’’اہم انٹریکشنز‘‘ اور ان کے باہمی روابط پر فوکس کرنا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں خاص طور پر کووڈ کے دوران مس انفارمیشن کا سیلاب آگیا۔
بھارت میں فیس بک کے پاس وافر وسائل نہیں ہیں اور اس نے یہاں جو مسائل پیداکرائے تھے ان سے نمٹنے میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مواد کی رو سے سب سے خطرناک بات مسلم مخالف پوسٹس لگانا تھا۔ ــکمپنی مس انفارمیشن کو کلاسیفائی کرنے پر صرف ہونے والے ٹائم کے لیے جتنا بجٹ رکھتی ہے اس کا 87 فیصد صرف امریکا کے لیے مختص ہوتا ہے اور اس بجٹ کا محض 13 فیصد باقی پوری دنیا کے لیے رکھا جاتا ہے حالانکہ شمالی امریکہ کے صارفین فیس بک کے سوشل نیٹ ورکس کے ایکٹو صارفین کا صرف 10 فیصدبنتے ہیں۔
فیس بک ترجمان اینڈی سٹون کے مطابق‘ یہ اعدادوشمار نامکمل ہیں اور یہ کمپنی کے تھرڈ پارٹی فیکٹ چیکنگ پارٹنرز میں شامل نہیں ہیں جو کہ زیادہ تر امریکا سے باہر رہتے ہیں۔ امریکا پر اس طرح یک طرفہ فوکس کر نے سے بھارت کے علاوہ کئی دیگر ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کمپنی کے ڈاکیومنٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے نومبر میں میانمار میں ہونے والے الیکشن کے وقت مس انفارمیشن کے تدارک کے لیے کئی اقدامات کیے تھے مگر کمپنی نے الیکشن کے بعد وہ تمام اقدامات رول بیک کر دیے تھے حالانکہ پتا چلا تھا کہ اس نے آگ لگانے والی پوسٹس کو 25 فیصد اور مس انفارمیشن والی پوسٹس کو 48.5 فیصد تک کم دکھایا تھا مگر الیکشن کے تین ماہ بعد فوج نے منتخب حکومت کے خلا ف بغاوت کر دی تھی۔ فیس بک کا مؤقف ہے کہ اس نے بغاوت ہونے کے بعد سپیشل پالیسی کے تحت ملک میں تشدد اور خوشامدانہ پوسٹس کوہٹا دیا تھا اور بعد میں میانمار کی فوج کے لیے فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی لگا دی تھی۔ سری لنکا میں خود بخود ہزاروں صارف اکائونٹس کھل گئے جن میں تشدد اور نفرت پر مبنی مواد پوسٹ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایتھوپیا میں قوم پرست جوانوں کی ملیشیا نے فیس بک پر تشدد آمیز اور نفرت پر مبنی پوسٹس لگا دی تھیں۔ مسٹر سٹون کا کہنا ہے کہ فیس بک نے ہندی اور بنگالی سمیت کئی زبانوں میں نفرت انگیز مواد کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کے لوگ سال میں جتنا نفرت انگیز مواد فیس بک پر دیکھتے ہیں‘ کمپنی نے اسے آدھا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم عملی اقدامات کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ نفرت انگیز مواد زیادہ تر آن لائن پھیلایا جا رہا ہے۔ کیٹی ہرباتھ‘ جو دس سال تک فیس بک پر ڈائریکٹر پبلک پالیسی رہ چکی ہیں اور انہوں نے خاص طور پر بھارتی الیکشنز کو محفوظ بنانے پر کام بھی کیا تھا‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں یقینا فیس بک کے لیے وسائل کی فراہمی سب سے اہم سوال ہے مگر اس کاجواب محض مسئلے پر پانی کی طرح پیسہ بہانا نہیں ہے۔ فیس بک کو چاہئے کہ اس کا ایسا حل نکالے جس پر دنیا بھر میں عمل درآمد کیا جائے۔
فیس بک ملازمین نے بھارت میں کئی سال تک ٹیسٹ اور فیلڈسٹڈیز کی ہیں۔ یہ کام 2019میں بھارت میں ہونے والے قومی الیکشن کے دوران مزید بڑھ گیا تھا اور اس دوران فیس بک کے بہت سے ملازمین نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور اپنے کولیگز کے علاوہ فیس بک کے درجنوں صارفین سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ اس دورے کے بعد جو رپور ٹ مرتب کی گئی تھی اس میں صارفین کی یہ درخواست بھی شامل تھی کہ فیس بک بھارت میں ایسی مس انفارمیشن پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لے جو سیاسی او رمذہبی گروپس میں شامل ہو کر نفرت انگیزی میں مصرو ف ہیں۔ (جاری )