ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت، فیس بک اور نفرت انگیز مہم …(2)

تحریر: شیرافرینکل

جس روز ریسرچرز نے مس انفارمیشن کو سٹڈی کرنے کے لیے جعلی اکائونٹس کھولے‘ اس سے اگلے دن کشمیر کے متنازع سرحدی علاقے میں خود کش حملہ ہو گیا جبکہ بھارتی اور پاکستانی شہریوں کے مابین مس انفارمیشن اور سازشوں کے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حملے کے بعد فیس بک کے ان منتخب گروپس پر پاکستان مخالف مواد سرکولیٹ ہونا شروع ہو گیا جنہیں ریسرچر نے جوائن کیا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے گروپس کے پاس ہزاروں صارف تھے۔ 2019ء میں فیس بک نے ایک مختلف رپورٹ شائع کی تھی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ فیس بک کے بھارتی صارفین زیادہ تر بڑے گروپس کو جوائن کرنا چاہتے تھے، بھارت میں اوسط سائز کے گروپ کے پاس بھی 1 لاکھ 40 ہزار ممبرز موجود ہوتے ہیں۔ ریسرچر نے جن گروپس کو جوائن کیا تھا ان میں گرافک پوسٹس کی بھرمار تھی جن میں شامل ایک مِیم میں ایک پاکستانی شہری کا سر قلم ہوتے اور سفید کفن میں لپٹی اس کی لاش کو زمین پر پڑے دکھایا گیا تھا۔ جب ریسرچر نے اپنا کیس سٹڈی اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کیا تو انہوں نے پوسٹ کی ہوئی رپورٹ پر کمنٹس دیے کہ انہیں بھارت میں ہونے والے اگلے الیکشن کے حوالے سے پھیلنے والی مس انفارمیشن پر گہری تشویش ہے۔

ایک خفیہ دستاویز جسے ’’انڈین الیکشن کیس سٹڈی‘‘ کا نام دیا گیا تھا‘ کے مطابق دو مہینے بعد جب بھارت میں قومی الیکشن شروع ہو گئے تو فیس بک نے ملک میں مس انفارمیشن اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت روکنے کے لیے اقدامات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس کیس سٹڈی نے فیس بک کی کوششوں کے ضمن میں ایک مثبت تاثر پیدا کیا جس میں مزید فیکٹ چیک پارٹنرز اور آئوٹ لیٹس کے تھرڈ پارٹی نیٹ ورکس شامل تھے جن کی مدد سے فیس بک فیکٹ چیکنگ کو آئوٹ سورس کرنے کے ساتھ ساتھ مس انفارمیشن کی بھاری تعداد کو ہٹاتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ فیس بک نے کس طرح ’’پی آر رسک کو محدود کرنے والی سفید سیاسی فہرست‘‘ مرتب کی تھی، یہ ان سیاست دانوں کی فہرست تھی جنہیں فیکٹ چیکنگ کی چھلنی سے استثنا حاصل تھا۔ سٹڈی میں اس سنگین مسئلے پر غور نہیں کیا گیا جس کا فیس بک کو باٹس (فیکٹ چیکنگ کا خودکار سافٹ ویئر) کی شکل میں سامنا کرنا پڑا تھا اور نہ ہی ووٹرز پر دبائو ڈالنے جیسے معاملے پر توجہ دی گئی تھی۔ فیس بک نے سیاسی گروپس سے جڑے باٹس اور جعلی اکائونٹس میں اضافے کے ساتھ ساتھ مس انفارمیشن پھیلانے والی ان کوششوں کا بھی مشاہدہ کیا جو لوگوں کی سیاسی عمل کو سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔

الیکشن کے بعد ایک الگ رپورٹ میں فیس بک نے انکشاف کیا کہ بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں پائے جانے والے تاثرات اور ویوز میں سے 40 فیصد ’’جعلی یا غیر مستند‘‘ تھے۔ ایک غیر مستند اکائونٹ میں 30 ملین سے زیادہ امپریشن یعنی تاثرات موجود تھے۔ مارچ 2021ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء کے الیکشن کے وقت موجود مسائل آج بھی اسی طرح پائے جاتے ہیں۔ فیس بک کے ’’ایڈورسیئل ہارم فل نیٹ ورکس: انڈیا کیس سٹڈی‘‘ نامی انٹرنل ڈاکیومنٹ میں ریسرچرز نے لکھا ہے کہ ایسے فیس بک گروپس اور پیجز موجود تھے جو گمراہ کن مسلم مخالف اور نفرت انگیز مواد سے بھرے پڑے تھے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسی بہت سی غیر انسانی پوسٹس موجود تھیں جن میں مسلمانوں کا جانوروں سے موازنہ کیا گیا تھا اور ایسے مبالغہ آمیز دعوے کیے گئے تھے کہ مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب مسلمان مردوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین پر ظلم و زیادتی کریں۔

فیس بک گروپس میں سرکولیٹ ہونے والے زیادہ تر مواد کا مقصد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو پرموٹ کرنا تھا جو بھارت کا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا قوم پرست پارلیمانی گروپ ہے۔ ان گروپس نے ایسے ایشوز اٹھائے تھے مثلاً مغربی بنگال اور پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں بسنے والی مسلمان اقلیت کی آبادی میں اضافہ وغیرہ اور فیس بک پر لگی ان پوسٹس میں مسلمان آبادی کو بھارت سے بے دخل کر نے اور مسلمان آبادی کو کنٹرول کرنے سے متعلق قوانین کو مزید سخت بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ فیس بک کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک اور علم تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے ایسی نقصان دہ پوسٹس میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس رپورٹ میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ اسے اپنے کلاسیفائیڈ مواد کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو ایک خودکار نظام کے تحت کام کرتا ہے اور یہ ایسی پوسٹس کی نشاندہی کرکے انہیں سوشل نیٹ ورک سے ہٹا دیتا ہے جن میں تشدد پر اُکسانے اور نفرت پھیلانے والی زبان استعمال کی گئی ہو۔ فیس بک سیاسی حساسیت کے پیش نظر آر ایس ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے بھی گریز کر رہی تھی کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے اس کا بھارت میں سوشل نیٹ ورک آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ بھارت میں 22 زبانیں ایسی ہیں جنہیں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور کمپنی نے اپنے اے آئی سسٹم کو ان میں سے صرف 5 زبانوں کی ٹریننگ دی ہوئی ہے (اس کا کہنا ہے کہ باقی زبانوں کے ریویو کے لیے ہم نے ملازمین رکھے ہوئے ہیں) مگر ابھی تک ہندی اور بنگالی کے لیے اس کے پاس اتنا ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ مواد کی مناسب جانچ پڑتا ل کی جا سکے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے زیادہ تر مواد کی نشاندہی کی جاتی ہے نہ اس کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے۔

ابھی پانچ مہینے پہلے تک فیس بک اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ اپنے سوشل نیٹ ورکس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کو مؤثر طریقے سے ہٹا دیا جائے۔ کمپنی کی ایک رپورٹ میں بجرنگ دَل کی کوششوں کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں جو ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک انتہا پسند گروپ ہے اور مختلف سوشل نیٹ ورکس پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی بیانیہ پھیلانے میں ملوث ہے۔ ڈاکیومنٹس سے پتا چلتا ہے کہ فیس بک اس بات پر غورکر رہی ہے کہ بجرنگ دل کو ایک خطرناک تنظیم قرار دے دیا جائے کیونکہ یہ اس کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر تشدد کے لیے اکسا رہی ہے مگر تاحال اس نے اس سمت میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے۔ فیس بک پر بجرنگ دل کے میسجز کو فروغ دینے کے لیے رضاکار بھرتی کرنے کے لیے دی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا تھا ’’گروپ کو جوائن کریں اور اسے چلانے میں ہاتھ بٹائیں۔ دوستو! اس گروپ کے ممبرز کی تعداد میں اضافہ کریں۔ سچ اور انصاف کے لیے جد وجہد کریں جب تک کہ ظالموں کو نیست ونابود نہیں کر دیا جاتا‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement