ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

عراق میں زیر تعلیم افغان طلبہ… (2)

تحریر: جین عارف

جیرم کوہن jigsaw کا چیف ایگزیکٹو ہے جو ایک ٹیکنالوجی انکیوبیٹر ہے اور اس کا سابق نام گوگل آئیڈیاز تھا۔ اس کا کہنا تھا ’’عراقیوں نے اس سلسلے میں زبردست حوصلہ دکھایا ہے‘‘۔ وہ ذاتی حیثیت میں اس وقت ان طلبہ کو افغانستان سے نکالنے کی مہم میں شامل ہو گیا تھا جب اس کے ایک افغانی صحافی دوست نے‘ جو بی بی سی کے لیے کام کرتا تھا‘ اس سے مدد کی درخواست کی تھی۔ کوہن نے بتایا کہ مجھے ایک ہی دن میں امریکا سے انسان دوست لوگوں سے 106 طلبہ کو یہاں سے نکال کر سلیمانیہ شفٹ کرنے کے لیے 3 ملین ڈالرز مل گئے تھے۔ ان طلبہ کو نکالنے کے لیے قطری حکومت نے اپنے طیارے فراہم کر دیے تھے۔ اس نے بتایا کہ ہم نے سول سوسائٹی کے ایک گروپ میں شامل پروفیشنلز اور صحافیوں کو بھی ایک دوسرے ملک میں پہنچایا تھا۔ افغان یونیورسٹی کے صدر آئن بکفورڈ نے بتایا کہ 106 مزید طلبہ کو کرغزستان میں قائم امیریکن یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا میں بھیج دیا گیا تھا اور باقی 200 طلبہ کو پاکستان اور امریکا سمیت دیگر ممالک میں شفٹ کر دیا گیا۔ آئن بکفورڈ نے مزید بتایا کہ امیریکن یونیورسٹی کے  375سٹوڈنٹس ابھی افغانستان میں ہی موجود ہیں جبکہ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں سٹاف اور سینکڑوں فارغ التحصیل طلبہ بھی یہیں موجود ہیں۔ ان سٹوڈنٹس کے کلاس فیلوز نے بتایاکہ افغانستان میں موجود طلبہ کو ابھی تک آن لائن کورسز تک مکمل رسائی حاصل ہے اور بیرونِ ملک مقیم ٹیچرز ان کی کلاسز لے رہے ہیں مگر ان سٹوڈنٹس میں سے اکثر کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے یا وہ انٹر نیٹ کنکشن پر خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

ندا جیسے کئی سٹودنٹس ابھی تک اپنے وطن سے دوری کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ برطانو ی سکیورٹی کمپائونڈ‘ جہاں ندا نے یونیورسٹی کے غیر ملکی سٹاف کے ہمراہ پناہ لے رکھی تھی‘ کو طالبان نے اپنے محاصرے میں لے لیا تھا اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ رقم اور گاڑیاں وغیرہ یہیں چھوڑ دی جائیں تو وہ ان لوگوں کو وہاں سے جانے کی اجازت دے دیں گے۔ ندا بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئی تھی کیونکہ طالبان نے ان تمام لوگوں کی تصاویر اور وڈیوز بنائی تھیں جو بسوں میں سوار ہو کر ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ ندا کو ڈر تھا کہ طالبان ان فوٹوز اور وڈیوز کو دیکھ کر انہیں پہچان جائیں گے کہ یہ لوگ غیر ملکی نہیں بلکہ افغان سٹوڈنٹس ہیں۔

ندا نے مجھے بتایا کہ جب ہم آخری مرحلے میں غیر ملکی سٹاف کے ہمراہ کابل ایئر پورٹ کے گیٹ پر پہنچ گئے تو برطانوی فوجیوں نے ہمیں ایئر پورٹ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ برطانوی فوجی ہمیں کہہ رہے تھے کہ ’’ہیلو! آپ سب لوگ افغان شہری ہو‘ اس لیے آپ ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے‘‘۔ اس نے بتایاکہ ہمیں ایئر پورٹ سے نکال باہر پھینکا گیا اور ہمیں اس علاقے میں بھیج دیا گیا جو طالبان کے کنٹرول میں تھا۔ ’’میر ا خوف سے برا حال تھا کیونکہ میں نے اس سے پہلے طالبان کو بالمشافہ نہیں دیکھا تھا‘‘۔ ندا کو اس قطری فلائٹ میں جگہ ملی تھی جو 21 اگست کو ریت کے طوفان میں غیر ملکی فوجیوں کو لے کر روانہ ہوئی تھی۔ ان میں کچھ ترک فوجی بھی تھے جو اس وقت کابل ایئر پورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے جب ہزاروں افغان شہریوں نے ملک سے فرار ہونے کے لیے کابل ایئر پورٹ کو روند ڈالا تھا۔

ندا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا کہ ترک اور امریکی فوجیوں نے ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا۔ ’’میرا کہنے کا مطلب ہے کہ یہ میرا اپنا ملک تھا، یہ میری اپنی سرزمین تھی مگر وہ ہم پر چلا رہے تھے‘‘۔ ندا نے اپنے اہل خانہ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ عراق جا رہی ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ یہ جان کر بہت پریشان ہو جائیں گے۔ ہم نے عراق کے بارے میں داعش اور بم دھماکوں کے سوا کچھ نہیں سنا تھا۔

ایک اور طالبہ جس کا نام فاطمہ تھا‘ پولیٹیکل سائنس میں ڈگری کر رہی تھی کیونکہ وہ ایک ڈپلومیٹ بننا چاہتی تھی۔ وہ کابل میں صرف چار سال سے تھی، اس سے پہلے وہ اور اس کا خاندان سالہا سال سے ہمسایہ ملک پاکستان میں بطور مہاجر مقیم رہے۔ مگر اس نے اپنے خاندان کو اپنے وطن افغانستان واپس جانے کے لیے قائل کیا تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔ فاطمہ کا کہنا تھا ’’جب میں پاکستان سے کابل آئی تو میں سوچ رہی تھی کہ میرا رشتہ اس سرزمین سے ہے اور اس زمین کا میرے ساتھ ایک تعلق ہے۔ یہ کتنا خوبصورت احساس تھا‘‘۔ اب فاطمہ خود کو ایک اور ہی ملک میں پا رہی تھی اور پریشان تھی کہ میرا مستقبل کیا ہو گا۔

عراق شفٹ کیے جانے والے سٹوڈنٹس میں 22 سالہ مرتضیٰ بھی تھا جو کابل کی امیریکن یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ بے شک وہاں بار بار بجلی کی سپلائی منقطع ہو جاتی تھی مگر پھر بھی اسے کابل بہت یاد آ رہا ہے۔ ’’اگرچہ میں کابل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا تھا مگر یہ میرا وطن تو تھا۔ یہ میرا اپنا ملک تھا۔ یہ میرا دل اور میری روح تھا‘‘۔

مجتبیٰ بھی افغان یونیورسٹی میں قانون کا طالب علم تھا اور اسے اکتوبر میں امیریکن یونیورسٹی آف عراق کے سلیمانیہ کیمپس میں شفٹ کیا گیا تھا۔ جب اس نے افغانستان سے روانہ ہونا تھا تو وہ رات بھر جاگتا رہا۔ وہ ایک پل بھی نہ سو سکا کیونکہ کابل ایئر پورٹ پر ہوائی جہازوں کے اڑنے سے مسلسل شور ہو رہا تھا۔ ’’ہم ان جہازوں کے شور کی وجہ سے بالکل نہ سو سکے۔ محض جہازوں کے شور کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ہمیں یہ سوچ سوچ کر بھی نیند نہیں آ رہی تھی کہ اتنے قابل لوگ اپنا وطن چھوڑ کر جا رہے تھے۔ یہ سب کچھ تباہ کن تھا‘‘۔ اب وہ بھی ملک چھوڑنے والوں میں شامل ہو گیا ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ میرا یہ عزم ہے کہ جب بھی تعمیر نو کے لیے میرے ملک کو میری خدمات کی ضرورت پڑی تو میں یقینا واپس چلا جائوں گا۔

مجتبیٰ کابل میں سٹوڈنٹس کو انگلش پڑھاتا تھا اور ساتھ ہی ایک بک کلب بھی چلا رہا تھا۔ وہ اپنی والدہ کو بھی لکھنا پڑھنا سکھا رہا تھا۔ اس نے اپنے بھائی اور بہن کی وڈیوز بھی ہمیں دکھائیں جوکابل میں بجلی کا سلسلہ منقطع ہو جانے کی وجہ سے ایک فلیش لائٹ کی روشنی میں پڑھ رہے تھے۔ مجتبیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اس کا بھائی آج بھی اپنے سکول جاتا ہے اور اس کی بہن کو جو 9ویں گریڈ کی سٹوڈنٹ تھی‘ اس وقت سکول جانے سے روک دیا گیا جب طالبان نے کابل پر قبضہ مکمل کر لینے کے بعد لڑکیوں کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے۔

مجتبیٰ سلیمانیہ کیمپس میں ایک اور افغان سٹوڈنٹ کے ساتھ چھوٹے سے کمرے میں رہ رہا ہے۔ وہ اپنے لیے بڑی ہی جذباتی قسم کی تحریریں لکھتا ہے جو ا س کے سامنے رکھے ایک ڈیسک پر پڑی تھیں۔ اس نے اس دن کے نو ٹ میں لکھا تھا ’’مضبوطی دکھائو!‘‘ اس نوٹ کے نیچے ہاتھ سے بنی ایک تصویر تھی جس میں وہ مسکرا رہا تھا۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement