ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افراطِ زر کی شہ سرخیاں

تحریر: پال کرگمین

اس سال کے شروع میں کئی معروف ماہرینِ معاشیات نے وارننگ دی تھی کہ صدر جو بائیڈن کا امیریکن ریسکیو پلان‘ یعنی وہ قانون جس کے تحت 1400 ڈالرز کے چیک بھیجے جانے تھے‘ افراطِ زر کا باعث بن سکتا ہے۔ لیری سمرز‘ جو صدر بارک اوباما کے اعلیٰ ترین اکانومسٹ تھے‘ اور اولیویے بلانشا‘ جو آئی ایم ایف کے سابق مشیر رہ چکے ہیں‘ جیسے لوگ بجٹ کنٹرول کے سخت حامی تھے۔ اس کے برعکس کووڈ شروع ہونے سے قبل لیری سمرز معاشی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے خسارے کے اخرجات کے حامی تھے جبکہ اولیویے بلانشا2008 ء کی کساد بازاری کے بعد مالیاتی کفایت شعاری کے سخت ناقد رہے ہیں مگر لیری سمرز، بلانشا اور دیگر ماہرین معیشت کا استدلال یہ تھا کہ ریسکیو پلان جو امریکی جی ڈی پی کا تقریباً 8 فیصد ہوتا تو بہت بڑا پلان تھا اور اس کے نتیجے میں سپلائی کے مقابلے میں ڈیمانڈ میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو جاتا اور اشیائے صرف کی قیمتیں بہت بڑھ جاتیں۔ یقیناً 1990ء کے بعد افراط زر اپنی بدترین سطح کو چھو رہا ہے۔ یہ امر قابل فہم ہے کہ ٹیم انفلیشن اپنی فتح کا جشن منانا چاہتی ہے۔ جب آپ شہ سرخیوں کی تعداد سے ہٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صورتحال اس سے قطعی مختلف نظر آتی ہے جس کی پیشگوئی لیری سمرز اور بلانشا جیسے ماہرین معیشت کر رہے تھے۔ جب ہم افراط زر کی اصل کہانی کو دیکھتے ہیں تو یہ فیڈرل ریزروز سے تقاضا کرتی ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کیا جائے۔

اول: ڈیمانڈ مجموعی طور پر اتنی تیز رفتاری سے نہیں بڑھی۔ حقیقی حتمی ڈیمانڈ دو سال پہلے والی ڈیمانڈ سے 3.8 فیصد زیادہ ہے اور یہ اس اکانومی کی بات ہے جس کی وسعت پذیری میں عام طور پرسالانہ 2 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ یہ درست ہے ’’گریٹ ریزیگنیشن‘‘ یعنی کووڈ کے بعد امریکی شہریوںکا سابق ملازمتوں پر جانے سے گریز کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ لیبر مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کافی اچھی ہے۔ لوگوںکی اکثریت کے ملازمتیں چھوڑنے سے معاوضے بڑھ رہے ہیں حالانکہ جی ڈی پی آج بھی کووڈ سے پہلے والے ٹرینڈ سے نیچے ہی ہے لہٰذا سپلائی کی صورتحال ٹیم انفلیشن سمیت اکانومسٹس کی اکثریت کی توقعات سے کم تر جا رہی ہے اور معیشت میں بلاشبہ سرگرمی پائی جاتی ہے مگر ماضی کی ہر بات‘ جس کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ ہم جانتے ہیں‘ یہ ثابت کر رہی ہے کہ ایک طرف معیشت میں پائی جانے والی سرگرمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور اس تیزی کا معمولی سا قلیل مدتی اثر دیکھنے میں آیا ہے۔ اصطلاحی زبان میں فلپس کی کمان (Phillips Curve) کی ڈھلان ابھی بہت کم ہے۔ افراطِ زر کی اہم وجہ ورکرز کے بڑھتے ہوئے معاوضے نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا بھی تو کارکنوں کے اوسط معاوضے اشیائے صرف کی قیمتوں سے کم نہ ہوتے لہٰذا اب صورتحال کس کروٹ بیٹھ رہی ہے؟ دی بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس‘ جو سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک ادارہ ہے جسے آپ بینکوں کا بینک بھی کہہ سکتے ہیں اور جس کے پاس ایک زبردست ریسرچ ٹیم ہے‘ کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جسے ہم سپلائی چین کا قضیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ لاس اینجلس سے ان فیکٹریوں تک آنے جانے والے بحری جہاز تو موجود ہیں جو چپس کی کمی کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رکاوٹوں کی حقیقی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ مجموعی طور پر دنیا بھر میں ابھی اشیائے صرف کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ نہیں ہوئی مگر ڈیمانڈ کی سمت شاید تبدیل ہو گئی ہے۔

جن دنوں میں کورونا کی ہلاکتیں اپنے عروج پر تھیں‘ اس زمانے میں دنیا بھر کے عوام کی اکثریت کا رجحان سروسز استعمال کرنے کی طرف کم اور پائیدار اشیائے صرف، گھریلو اپلائنسز اور ورزش میں استعمال ہونے والے آلات کی خریداری کی طرف زیادہ تھا۔ جب اشیائے صرف کی خریداری کی طرف رجحان بڑھ گیا تو لامحالہ عالمی بندرگاہوں، ٹرکوں اور ان ویئر ہائوسز پر بھی دبائو بڑھنے لگا جو یہ تمام اشیائے صرف اپنے گاہکوں کے گھروں تک ڈلیور کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان اشیا میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتیں روز بروز بڑھنے لگیں حالانکہ ہمیشہ روایت یہ رہی ہے کہ جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی آتی ہے تو خام مال کی قیمتیں نیچے گر جاتی ہیں۔ بالفاظ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کووڈ کی وجہ سے ہوا ہے نہ کہ دنیا بھر میں خریداری کا رجحان بڑھنے کی وجہ سے۔ موجودہ افراط زر کی بڑی وجہ بھی یہی رجحان ہے۔ جب ہمیں اس کی حقیقی وجہ کی سمجھ لگ جاتی ہے تو اس بات کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں کہ ماضی قریب میں ہماری پالیسیاں کیسی تھیں اور مستقبل میں ہماری پالیسیاں کس نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ افراطِ زر کے نتیجے میں پائیدار اشیائے صرف کی ڈیمانڈ میں اچانک شدید اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے نہ کہ مجموعی ڈیمانڈ کی گروتھ میں سست رفتار اضافہ اس کی وجہ بنتا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے ریسکیو پلان کی وجہ سے اس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا حتیٰ کہ اگر یہ ڈیمانڈ ایک یا دو پوائنٹس کم بھی ہوتی تو سروسز کے مقابلے میں ساز و سامان کی خریداری کا رجحان ہماری لاجسٹک استعداد پر حاوی ہو جاتا۔ اس کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ چونکہ افراطِ زر ان رکاوٹوں کی عکاسی کرتا ہے نہ کہ اس عمومی مسئلے کی کہ لوگوںکے پاس محض چند اشیا کی خریداری کے لیے اتنا پیسہ کہاں سے آ گیا ہے؟ جیسے جیسے معیشت بہتری کی طرف جاتی ہے‘ یہ دولت نیچے کی طرف منتقل ہونی چاہئے۔ افراطِ زر اتنا عبوری نوعیت کا نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں بلکہ اس بات کا ایک ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ سپلائی چین کا باہمی لنک بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے جس سے صارفین کو تھوڑا بہت ریلیف ضرور ملنا چاہئے۔ 

اور آخری بات یہ کہ اگر افراطِ زر میں ہونے والا یہ اضافہ مزید کچھ عرصے کے لیے اسی طرح برقرار رہتا ہے تو کیا ہم یہ چاہیں گے کہ ہماری پوری اکانومی بھی سست رفتار ہو جائے کیونکہ بعض رکاوٹیں قیمتوں میں اضافے کی وجہ بن رہی ہیں؟ افراطِ زر میں اضافے کی وجہ بیان کرنے کے لیے ایک دلیل تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں ملازمتیں فوری طور پر ختم کر دینی چاہئیں کیونکہ لاس اینجلس پورٹ کی گودیاں پہلے ہی مال سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا یہ بات دل ودماغ کو لگتی ہے؟ اگر ہمیں 1970ء کی طرح معاوضوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا تو صورتحال یقینی طور پر بالکل مختلف ہو گی مگر ابھی تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آ سکی۔ بے شک کچھ مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو‘ ہمارے پالیسی میکرز کے پاس اس افراطِ زر سے باہر نکلنے کا حوصلہ موجود ہونا چاہئے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement