ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امیر بچے، غریب باپ …(1)

تحریر: ایسائو میک کالی

ہر سال تھینکس گِیونگ (یوم تشکر) کے موقع پر میرے بچے ایک ایسے تجربے سے گزرتے ہیں جس کا مجھے اپنے بچپن میں کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ اپنے باپ، ماں اور بہن بھائیوں کو ایک ایسی خاندانی دعوت کے موقع پر ایک جگہ جمع دیکھتے ہیں جس میں وافر مقدار میں کھانا ہوتا ہے۔ ان کے لیے یہ سب کچھ اتنی نارمل سرگرمی ہے کہ وہ اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے۔ ان سب کے لیے تھینکس گیونگ ایک عام سا دن ہے جو تحفظ اور جوش و خروش کے احساس سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس کھانے کے حوالے سے میرے ذہن کے نہاں گوشوں میں آج بھی بہت سی یادیں محفوظ ہیں‘ جسے میری سنگل ماں اور اس کے قریبی عزیز و اقارب مل کر چھٹیوں کے دوران تیار کیا کرتے تھے۔

 ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا میں اظہارِ تشکر کا دن قومی سطح پر منایا جاتا ہے جسے تھینکس گیونگ ڈے کہتے ہیں۔ امریکا میں یہ نومبر کی چوتھی جمعرات اور کینیڈا میں اکتوبر کے دوسرے سوموار کو منایا جاتا ہے۔ یوں تو اس تہوار کا مقصد فصل اور گزشتہ سال کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے؛ تاہم یہ تمام نعمتوں‘ جو ہمارے پاس نہیں تھیں‘ یا جو ہمیں میسر ہیں‘ دوسرے ان کے لیے ترستے رہتے ہیں‘ پر اظہارِ تشکر کا ایک ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس سے کچھ ملتی جلتی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ کچھ تاریخی اعتبار سے اسے مذہبی اور ثقافتی نوعیت کا حامل تہوار سمجھتے ہیں مگر اس کا تعلق کسی مذہب یا ثقافت سے نہیں نعمتوں اور سہولتوں سے ہے۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بات پر بڑی زوردار بحث ہوتی تھی کہ مرکزی ڈش ’ٹرکی‘ کے گوشت کی ہو گی یا کسی دوسرے گوشت کی بنے گی۔ مجھے اچھی میکرونیز اور پنیر کے فرق کی پہچان بھی سکھائی گئی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم تاش اور ڈومینوز کی گیمز کھیلتے تھے اور بلیک میل لافٹر میں زوردار مردانہ آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ کوئی موقع ہو نہ ہو‘ میری فیملی خوشی کا موقع ڈھونڈ ہی لیتی تھی۔ میرے اور میرے بچوں کے بچپن کے تھینکس گیونگ میں بنیادی فرق اس دنیا کا ہے جو اس چھٹی کے اردگرد پائی جاتی ہے۔ میں ابھی ایلیمنٹری سکول میں ہی تھا جب میری ماں کے دماغ میں ایک رسولی کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکتی تھی اس لیے ہمارا گزارہ زیادہ تر سرکاری امداد پر ہوتا تھا۔ ہمارا گھر ریاست الباما کے شہر ہنٹس ویلی میں تھا جو برمنگھم سے 100 میل دور تھا‘ جہاں سے انسانی حقوق کی اہم تحریکوں کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ شمال مغربی ہنٹس ویلی‘ جہاں ہم رہتے ہیں‘ میں انسانی حقوق کی جدوجہد کے دوران نسلی حد بندیوںکے لیے لگی سرخ لکیروں اور الگ الگ سکولوں کی تقسیم کے بدنما نشانات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

 سکول میں، پارٹیوں اور سپورٹس ایونٹس کے موقع پر ہونے والا تشدد انہیں مزید مشکلات میں دھکیل دیتا تھا۔ میں‘ جہا ں تک اپنے ماضی کو یاد کر سکتا ہوں‘ بخوبی جانتا تھاکہ کس طرح دوسرے انسان کی آنکھوں میں جھانک کر یہ بتایا جا سکتا تھا کہ کون لڑنے مرنے کے لیے تیار ہے اور کون بدترین صورت حال میں بھی خود کو کمفرٹ ایبل محسوس کر رہا ہے۔ مجھے اپنے علاقے سے عشق تھا اور میں ہر اس شخص سے لڑنے کے لیے تیار رہتا تھا جو یہاں کے حالات خراب کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن یہاں ہونے والے تشدد نے مجھے تھکا دیا، مجھے یہ شدید احساس ہونے لگا کہ اگر میں نے یہ علاقہ نہ چھوڑا تو یہ مجھے جسمانی طور پر نہ سہی ذہنی و روحانی طور پر ضرور مار ڈالے گا۔ مجھے یہاں برداشت کی مزید گنجائش درکار تھی۔ یہ گنجائش پیدا کرنے کے لیے میں نے تعلیم کا سہارا لیا اور ایک لحاظ سے اس میں کامیاب بھی رہا۔ میں کالج گیا اور پھر گریجویٹ سکول میں اور اس کے بعد پروفیسر بن گیا مگر اس وقت میں خود کو ایک مشکل اور پریشان کن صورت حال میں گھرا پاتا ہوں۔ میرے بچے یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی کمرے میں موجود لوگوں کے رویے کو کیسے سمجھنا ہے۔ وہ اجنبی افراد کو ہاتھ ہلا کر خوشی کا اظہار کر دیتے ہیں اور یہ سوچ کر ان سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں کہ شاید دوسرا شخص بھی ان کے لیے اسی طرح خیر سگالی کے جذبات رکھتا ہے۔

وہ اپنے کالج کے بارے میں گفتگو شروع کر دیتے ہیں اور کبھی مستقبل میں ایک وکیل، ڈاکٹر اور ٹیچر بننے کے بارے میں بات چیت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ریفریجریٹر کا دروازہ کھول لیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اس میں کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ پڑا ہو گا۔ کئی دفعہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں ان کے باپ کے طور پر کیا رویہ اپنائوں۔ میری یہ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ہمیں سالہا سال تک جگہ جگہ گھر بدلنا پڑے۔ کبھی میری بیوی کی فوج میں ملازمت کی وجہ سے اور کبھی تعلیمی معاملات سے نمٹنے کے لیے۔ اس سال موسم خزاں میں ہم نے پہلی مرتبہ اپنے لیے ایک پیارا سا گھر خریدا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اب کچھ عرصے کے لیے اس میں مستقل رہ سکیں گے۔ ہمارے بچوں میں سے دو قریبی پرائیویٹ کرسچن سکول میں داخل ہو گئے ہیں۔ جس بات کو امریکی شہریوں کا خواب کہا جاتا ہے۔ کہنے کی حد تک ہم نے اس خواب کی تعبیر پا لی ہے مگر مجھے نہیں معلوم کہ آگے چل کر میرے یا میرے بچوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ ہم نے آج تک جو کچھ بھی حاصل کیا ہے‘ اس میں سے کیا کچھ کھو چکے ہیں؟

میں انہیں یہ کہانیاں ضرور سنا سکتا ہوں کہ وہ زیادہ کھانا کھائے بغیر اور بار بار گھر تبدیل کرنے کے باوجود کس طرح جوان ہو سکتے ہیں کیونکہ ہم اپنے گھر کا کرایہ ادا کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے تھے۔ میں انہیں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح آپ کے کلاس فیلوز آپ کو جان سے مار بھی سکتے ہیں، میں انہیں ایسے علاقے میں رہنا سکھا سکتا ہوں جہاں جانے یا کھانا کھانے کے لیے سرخ لکیروںکی مدد سے نسلی بنیاد پر حد بندی کر دی گئی ہو مگر انہیںکھانے کے لیے سفید بریڈ، سرکاری پنیر یا پھل نہیں مل سکتے۔ میرے ذہن میں تو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیںشایدکسی ڈرامے میں کام کرنے والے کردار کو پیش آنے والے تجربات کا حصہ ہیں نہ کہ اس زندگی کا حصہ جو ان بچوںکے باپ کو گزارنا پڑی تھی۔

میرے بچے ہرگز یہ نہیں جانتے کہ بچپن کے دنوںمیں میری زندگی اور میری دنیا کیسی تھی۔ اسی طرح میں ان کی زندگی اور دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ایک بچہ کسی ایسے گھر میں بیدار ہوتے ہوئے کیسا محسوس کرتا ہے جس کے سارے معاملات چلانے کی ذمہ داری دو کالج گریجویٹس کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہو۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ایک بچہ سالگرہ مناتے ہوئے پارٹیوں میں کیا کچھ سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔

کرسمس ٹری (یہاں میں وضاحت کر دوں کہ پلاسٹک کا نہیں بلکہ حقیقی ٹری) بناتے وقت اور سالگرہ کے تحائف وصول کرتے وقت ایک بچے کے کیا کیا جذبات ہو سکتے ہیں؟ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اپنی فیملی کے ساتھ مل کر چھٹیاں کیسے منائی جاتی ہیں یا جب کوئی غیر ملکی سیر کی جاتی ہے تو انسان کے تخیل میں کیا کچھ پھوٹتا ہے؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے جب پہلا ہوائی سفر کیا تھا‘ اس وقت میں کالج میں تھا۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement