امیر بچے‘ غریب باپ …(2)
تحریر: ایساؤ میک کالی
میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر ہم بلا خوف و خطر ایک طویل وقت گزاریں تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ میں کئی مرتبہ رات کے کسی پہر اپنے بچوں کے کمرے میں جاتا ہوں اور انہیں سوئے ہوئے دیکھتا ہوں‘ صرف یہ جاننے کیلئے کہ انہیں نیند میں خواب دیکھنا کیسا لگتا ہے؟ ایسی گہری نیند‘ جس میں کوئی ڈرائونا خواب نہ ہو۔ میں جو ہوں‘ سو ہوں کیونکہ مجھے اپنے بچپن سے ہی کڑی جدوجہد کرنا پڑی اور بڑی اذیتناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں تو کیچڑ سے اوپر اٹھا ہوں اور بخوبی جانتا ہوں کہ اس کیچڑ کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔
ایک دن جب میری ماں نے مجھے بتایا کہ میرا نانا لڑکپن سے ہی ایک مزارع تھے جو دوسروں کے کھیتوں پر کام کیا کرتے تھے تو میں الباما کے کپاس کے کھیتوں میں سے ڈرائیو کرتے ہوئے اکثر سوچا کرتا ہوں کہ میرے نانا کی زندگی کیسی ہوتی ہو گی؟ یہ سرزمین اور اس کی فضائیں ایسی ہی بے شمار یادوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں اور میرے بچے ایک بار پھر جنوبی ریاستوں میں واپس آگئے ہیں بالکل اسی علاقے میں‘ جہاں پل کر میں جوان ہوا تھا۔ میں اپنے دو بچوں کو لے کر اس گھر میں بھی جا چکا ہوں جس میں مَیں بچپن میں رہا کرتا تھا مگر یہ مٹی، یہ کیچڑ اور یہ کنکریٹ میرے بچوں سے اس طرح باتیں نہیں کرتے جیسے یہ میرے ساتھ کیا کرتے تھے۔ بچپن کی یادیں بھی ان کا پیچھا نہیں کرتیں۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر غربت کے اسی جال میں پھنس جائوں، محض یہ جاننے کے لیے کہ غربت سے گزرنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے؟ سیاہ فام اور گندمی رنگت والے انسانوں کو کامیابی کے ایسے راستے پر گامزن ہونا چاہئے جس میں انہیں نسل پرستی اور سماجی ناانصافی کے احساس پر قابو نہ پانا پڑے‘ ہمیں کامیاب زندگی کے حصول کے لیے عام سی شاہراہوں پر سفر کرنا چاہئے، مگر پھر بھی! میں پھر بھی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے بچے اپنی کوئی قیمتی متاع کھو چکے ہیں۔ شاید وہ عزم جو مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ میری حسرت ہے کہ کاش میں انہیں یہ احساس دے سکتا۔ میری یہی مشکلات تھیں جن میں سے گزرنے کے دوران میری ماں نے مجھے تعلیم کی دولت اور اس کی قدر و قیمت سے آشنا کیا تھا۔ اسی تعلیم نے پادری کے ان خطبات کا پس منظر بنایا تھا جو میں نے اپنی جوانی کے دنوں میں سیاہ فاموں کے لیے مخصوص چرچوں میں سنے تھے۔ میں جس خدا کو جانتا تھا وہ میرا وہی خدا تھا جو میرے سیاہ جسم اور سیاہ روح کا خیال رکھتا ہے۔ میر ی تمام تر دوستیوں میں میری مشکلات ہی ایسا واحد فیکٹر تھا جو ہمیں جوڑے ہوئے تھا۔ یہ واحد بانڈ ہوتا ہے جو ہماری بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ آپ اپنی پدرانہ ذمہ داریا ں کیسے نبھاتے ہیں جبکہ آ پ کا اپنا بچپن خوف کے عالم میں گزرا ہو اور آپ کے بچوں کو ذرہ برابر خوف نہ محسوس ہوتا ہو؟ (یہ بھی ایک عجیب وغریب مخمصہ ہوتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی یہ یقین دہانی کرانے میں بیت جائے کہ انہیں ایسا کوئی خوف درپیش نہیں ہو گا) مجھے پھر بھی ایسا یقین نہیں ہے۔ ہاں البتہ! آپ مجھ سے کوئی دس بیس سال بعد یہ سوال ضرور پوچھ سکتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں یہ سیکھ سکتا ہوں کہ مجھے اپنے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بچو ں کی پرورش کیسے کرنی ہے۔
نارتھ ویسٹ ہنٹس ویلی نے مجھے جو کچھ بھی سکھایا ہے‘ اس کی سکھائی ہوئی ہر بات میرے لیے مفید نہیں ہے۔ آج کے دن تک میرے لیے کسی پر اعتماد کرنا اور ریلیکس کرنا مشکل ہے۔ جب مجھے اپنے بیٹے یا بیٹی کو گلے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تو میں نے زندگی بھر جو کچھ بھی سیکھا ہے‘ میرے لیے سب بے کار ثابت ہوتا ہے۔ پھر بھی میں اپنے بچوں کو وہ سب اہم سبق سکھا سکتا ہوں جو میری ماں نے مجھے سکھائے تھے۔ ہمیں درپیش حالات ہی ہماری قدر وقیمت کا تعین نہیں کرتے۔ نظریاتی طور پر میرے بچے بھی غریب بچوں کی کیٹگری سے مختلف نہیں ہیں۔ اگر کبھی انہیں افلاس کے مارے ایسے بچوں کو دیکھنا پڑ جائے تو میں انہیں یہ احساس دلاتا ہوں کہ ان غریب بچوں کے چہروں میں اپنے باپ کا چہرہ ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔ میں نے جیسا مشکل اور پیچیدہ بچپن گزارا ہے وہ آج بھی میرا قیمتی اثاثہ ہے۔ میں اپنے بچوں میں بھی وہی سیاہ فام امیدیں اور احساسِ ذمہ داری منتقل کرنا چاہتا ہوں جو ان لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہے جنہیں اپنی زندگی میں میرے جیسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
یہ احساس اس تشکر سے پیدا ہوا ہے جو ہم اپنے خدا کے لیے اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اسی احساس کی بدولت ہم ایک باشعور انسان کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جس کی مجھے بچپن کے ان مشکل دنوں میں اس وقت اشد ضرورت ہوتی تھی جب میرا پیٹ خالی ہوا کرتا ہے اور میرے کئی کئی دن کچھ کھائے بغیر گزرتے تھے۔ مجھے ہر وقت ایک ہی احساس کھائے جاتا تھا کہ میرا بچپن اتنا مشکل اور اذیت ناک نہیں ہونا چاہئے تھا۔
میں اپنے بچوں کی زبان سے صرف یہی سننا چاہتا ہوں کہ ہمارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں مزید کچھ کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ہماری فیملی ’’تھینکس گیونگ‘‘ یعنی خدا کی عطا کردہ نعمتوں پر یوم تشکر منا رہی ہے۔ ہم ایک میز کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور میر ی فیملی کا ہر فرد خدا کی کسی نہ کسی ایسی نعمت کا ذکر کر رہا ہے جس کیلئے وہ اپنے رب کا شکر گزار ہے۔ میں اپنے خدا کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ اس نے مجھے اتنی اچھی بیوی اور اتنے پیارے بچے عطا کیے ہیں۔ میرے بچے جتنی خوبصورت زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اس کے لیے بھی اپنے خدا کا شکر گزار ہوں مگر اس سے بھی زیادہ میں ان چیزوں کے لیے اس کاشکر ادا کرتا ہوں جن سے میں اپنے بچپن میں محرو م رہا یا جن کی بدولت مجھے مشکلات جھیلنا پڑیں یا کڑی آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا۔ میں اپنے خدا کا اس لیے بھی شکر گزار ہوں کہ انہی مشکلات اور آزمائشوں میں سے گزرنے کی وجہ سے میرے لیے اپنے وجودکی شناخت کرنا ممکن ہو سکا۔ میں یہ جاننے کے قابل ہو سکا کہ میں کون ہوں اور میری پہچان کیا ہے۔ اس نے مجھے ان راستوں پر چلایا جن پر چلتے ہوئے میرے اندر یہ خوف پیدا ہوا کہ یہ آزمائشیں مجھے زندگی میں آگے نہیں بڑھنے دیں گی۔ یہ آپ کو اس دنیا کے ان تمام لوگوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں جو آپ کیلئے کوئی آسانی پیدا کرنے کے بجائے آپ کوصرف دکھ اور تکلیف ہی دے سکتے ہیں مگر یہی مشکلات آپ کے لیے کامیابیاں اور کامرانیاں لے کر بھی آتی ہیں۔ آپ کی زندگی کو ایک مقصد اور منزل عطا کرتی ہیں تاکہ اپنے خدا کا تشکر مناتے ہوئے کسی دن آپ اپنا نیا خاندان تخلیق کریں اور پھر اسی طرح کھانے کی میز کے گرد گھومتے ہوئے آپ اپنے خدا کے شکر گزار بندے بن سکیں۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسر چ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)