کمپیوٹر چپس کا بانی ماہر طبیعات
تحریر: کیڈ میٹز
جے لاسٹ ایک ماہر طبیعات تھے جنہوں نے سلیکان چپس بنانے میں مدد کی تھی اور ان کی بنائی ہوئی چپس اب تک دنیا بھر کے کمپیوٹرز میں استعمال ہو رہی ہیں ۔وہ ان 8انٹرپرینیورز میں شامل تھے جن کی کمپنی نے سلیکان ویلی کی تکنیکی ‘مالیاتی اور کلچرل بنیاد رکھی تھی۔ جے ٹیلرلاسٹ اسی مہینے 11نومبر کو لاس اینجلس میں انتقال کر گئے ہیں۔انتقال کے وقت ان کی عمر 92سال تھی۔ان کی اہلیہ ڈیبی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی موت ہسپتال میں واقع ہوئی ہے۔اب ڈیبی ان کی اکیلی وارث ہیں۔
ڈاکٹر جے لاسٹ 1956ء میں میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے جب ولیم شوکلے نے ان سے رابطہ کیا تھا ۔ولیم شوکلے کو اسی سال ٹرانزسٹر ایجاد کرنے پر نوبل پرائز ملا تھا ۔یہ ایک چھوٹی سی برقی ڈیوائس تھی جو دنیابھر کے کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والی چپس کا لازمی بلڈنگ بلاک بن گیا ۔ڈاکٹر شوکلے نے انہیں دعوت دی کہ اگر وہ سان فرانسسکو سے 30میل جنوب میں پالو آلٹو میں واقع لیب میں سلیکان ٹرانزسٹر کی تجارتی بنیادوں پر تیار ی میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔جے لاسٹ ڈاکٹر شوکلے کی ذہانت اور شہرت سے بہت متاثر تھے مگر وہ ان کی ملازمت کی پیشکش سے زیادہ مطمئن نہیں تھے۔آخر کار وہ ڈاکٹر شوکلے کی سیمی کنڈکٹر لیبارٹری میں ملازمت کے لیے اس وجہ سے تیار ہو گئے کیونکہ یہ لیب شمالی کیلی فورنیا میں قائم تھی جہاں وہ پینسلوینیا میں واقع اپنے گھر سے ہچ ہائیکنگ (مختلف گاڑیوں میں مفت سفر کرنے)کے بعد موسم گرما میں پھل چنتے تھے۔ مگر ڈاکٹر جے لاسٹ سمیت سات شریک سائنس دانوں کا ڈاکٹر شوکلے کے ساتھ تنازع شروع ہوگیا تھا۔ڈاکٹر شوکلے بعد میں اپنی اس تھیوری کی بدولت بہت زیادہ بدنام ہوگئے تھے کہ ذہانت کے لحاظ سے سیاہ فام لوگ جینیاتی طور پر سفید فام لوگوں سے کمتر ہوتے ہیں؛چنانچہ ان سب لوگوں نے اپنی ٹرانزسٹر کمپنی بنانے کی نیت سے فوری طو رپر ڈاکٹر شوکلے کی لیب چھوڑ دی۔بعد میں ان کی کمپنی اوریہ سب لوگ ’’8کاسازشی ٹولہ‘‘کے نام سے مشہو ر ہوگئے تھے۔’’فیئرچائلڈ سیمی کنڈکٹر ‘‘کو اب سلیکان ویلی میں گرائونڈ زیرو کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
فیئر چائلڈ میں ڈاکٹر جے لاسٹ ان سائنسدانوں کی ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے جس نے وہ بنیادی تکنیک وضع کی تھی جو کمپیوٹر چپس بنانے میں آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔اس طرح وہ ان اربوں کمپیوٹرز‘ ٹیبلٹس‘سمارٹ فونز اور سمارٹ واچز کو ایک طرح سے ڈیجیٹل دماغ فراہم کر رہے ہیں ۔کیلی فورنیا میں قائم کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں موجود سافٹ ویئر ہسٹری سنٹر کے ڈائریکٹر ڈیوڈ براک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم آج بخوبی جانتے ہیں فیئر چائلڈ سیمی کنڈکٹر کے لیے سلیکان ویلی سے زیادہ اہم تجربہ کوئی نہ تھا۔اس وقت تک اس کے جتنے بھی محرکین اور محرکات موجود ہیں وہ سب فیئر چائلڈ کے بانیوں کی تخلیق ہی تھے جن میںڈاکٹر جے لاسٹ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ڈاکٹر جے ٹیلر لاسٹ 18اکتوبر 1929ء کو امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر بٹلر میں پیدا ہوئے تھے۔اپنے پیشہ ورانہ مستقبل کے حوالے سے جب انہوں نے اپنے والد سے مشورہ مانگا تو انہوں نے نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی آف روچیسٹر میں داخلہ لے کر 0pticsیعنی روشنی کی فزکس کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔وہ گرمیوں میں اپنے گھر واپس آنے کے بعد ایک ریسرچ لیب میں کام کرتے رہے جو مقامی پلیٹ گلاس مینوفیکچررز کے مقاصد پورے کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔جیسا کہ انہوں نے اپنے بچپن میں خود سے یہ عہد کر رکھا تھا اس کی تکمیل کرنے کے لیے وہ میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے اپنی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے چلے گئے مگر اسی دوران وہ شمالی کیلی فورنیا میں قائم ڈاکٹر ولیم شوکلے کی لیب میں ملازمت کرنے کے لیے چلے آئے تاہم یہاں آکر انہیں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ڈاکٹر ولیم شوکلے کی لیب کے انتظامی امور پر ضرورت سے زیادہ کنٹرول رکھنے کی عادت تھی۔وہ اپنی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی کام کرنے پر ناراضی کا اظہار کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے تھے۔ڈاکٹر جے ٹیلر لاسٹ نے 2004ء میں ایک موقع پر بتایا تھا کہ میں ڈاکٹر شوکلے کی لیبارٹری میں ایک اسسٹنٹ کے طور پر کام کررہا تھا اور میں وہاں کام کرنے والے ہر سائنسدان کے ساتھ اسی انداز میںکام کرتا تھا۔وہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ہر کوئی سیمینار میں شامل ہوتا تھا اور اس سیمینار میں سب شرکا یہ بتاتے تھے کہ ہم کیا کیا کام کر رہے ہیں اور پھر اس پر کھل کر بحث و تمحیص ہوتی تھی۔تاہم ڈاکٹر شوکلے کی لیب میں ایک سال تک کام کرنے کے بعد ڈاکٹر جے ٹیلر لاسٹ سمیت ا ن کے سات کولیگز نے مشترکہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ڈاکٹر شوکلے کی لیب چھوڑ کر اپنی لیب بنائیں گے؛ چنانچہ اسی فیصلے کی روشنی میں فیئر چائلڈ سیمی کنڈکٹر وجود میں آئی ۔
ڈاکٹر شوکلے اور ان کے دو اور ساتھی سائنسدانوں نے سلیکان اور جرمینیم جیسا میٹریل استعمال کر تے ہوئے عملی طورپر یہ ثابت کر دیا تھا کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے ٹرانزسٹر بنائے جا سکتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی دن انفارمیشن کو ایک الیکٹریکل سگنل کی شکل میں سٹور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسے آگے بھی بھیجنا ممکن ہے۔مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ ایک بڑی مشین بنانے کے لیے ان چھوٹے چھوٹے ٹرانزسٹرز کو آپس میں کس طرح جوڑا جا ئے۔ڈاکٹر جے لاسٹ اور ا ن کے ساتھی سائنسدانوں نے مختلف کیمیکلز استعمال کرتے ہوئے ان ٹرانزسٹرز کو سلیکان میٹریل سے بنی ہوئی ایک شیٹ میں پیوست کر دیا۔اس کے بعد ڈاکٹر جے لاسٹ اور ان کے ساتھیوں نے ہر ٹرانزسٹر کوشیٹ سے کاٹ کر الگ الگ کر لیا اور انہیںکسی بھی دوسری الیکٹریکل ڈیوائس کی طرح علیحدہ علیحدہ تاروں کی مددسے جوڑدیا مگر یہ سب کچھ انتہائی مشکل اورمہنگا ہونے کے علاوہ مقاصد بھی پورے نہیں کر رہا تھا۔فیئر چائلڈ کے ایک اور شریک بانی رابرٹ نوئس نے ایک اور متبادل طریقہ تجویز کیا جسے ڈاکٹر جے لاسٹ کی نگرانی میں ایک ٹیم نے عملی شکل میں ڈھال دیا۔انہوں نے ایک ایسا طریقہ وضع کیا جس میں ٹرانزسٹرزاور تاروں کو سلیکان کی ایک ہی شیٹ میں اکٹھا پیوست کر دیا گیا۔آج تک سلیکان چپس بنانے میں یہی طریقہ استعمال کیا جارہا ہے اورMoore,s Lawکی روشنی میں بننے والے یہ نئے ٹرانزسٹرز 1960ء کی دہائی میں بننے والے ٹرانزسٹرز سے حجم میں انتہا ئی چھوٹے تھے۔ ڈاکٹر جے ٹیلر لاسٹ کی وفات کے بعد ان ’’8سازشیوں ‘‘کے ٹولے میں سے اب صرف ڈاکٹر Moore ہی حیات ہیں۔
(بشکریہ : نیویارک ٹائمز، انتخاب : دنیاریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)