ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے جوہری پروگرام میں پیش رفت…(2)

تحریر: ڈیوڈ سینگر

ایٹمی تنصیبات کے معائنے میں آنے والا وقفہ تشویش ناک ہے کیونکہ ایرانی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے اب تک 55 پونڈ یا 25 کلو گرام یورینیم بنا لیا ہے جو60 فیصد تک افزودہ ہے۔ چونکہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کم از کم افزودگی 90 فیصد تک ہونی چاہئے اس لیے ایران کی افزودگی کا لیول ابھی کم ہے مگر اتنا بھی کم نہیں۔ مسٹر گروسی کا کہنا ہے کہ یہ وہ لیول ہے ’’جو صرف ایٹم بم بنانے والے ممالک کے پاس ہی ہے مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ایران ایسا کر رہا ہے؛ تاہم یہ بہت زیادہ لیول ہے‘‘۔ ایرانی حکام اب تک اس کی کئی وضاحتیں دے چکے ہیں کہ وہ یہ اقدام کیوں کر رہے ہیں، مثال کے طور پر اپنے نیول نیوکلیئر ری ایکٹر کو ایندھن سپلائی کرنے کے لیے جو ایران کے پاس موجود ہی نہیں ہیں۔ اس کی اصل وجہ صرف دبائو میں اضافہ کرنا ہے۔ ایران کی ایٹمی انرجی ایجنسی کے ترجمان بہروز کمال واندی نے بڑے فخر سے یہ بتایا ہے کہ صرف ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک نے ہی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ یورینیم کو اس لیول تک افزودہ کر سکتے ہیں (مگر وہ غلط کہتے ہیںکیونکہ بہت سے نان نیوکلیئر ممالک کے پاس بھی یہ صلاحیت موجود ہے)۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہمارا ارادہ ہوا تو اس آرگنائزیشن کے پاس کچھ بھی کرنے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے نکلنے کے فیصلے سے قبل تک ایران 2015ء میں ہونے والے معاہدے کی شرائط کی پابندی اور پاسداری کر رہا تھا۔ اس طرح وہ تمام تر اندازوں کے مطابق ’’بریک آئوٹ‘‘ پوائنٹ سے ایک سال کی دوری پر تھا جب اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے لیے کافی میٹریل ہو سکتا تھا۔ چونکہ یہ اندازے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس لیے خیال ہے کہ اب وہ ایٹمی ہتھیار بنانے سے صرف تین ہفتوں یا چند مہینوں کی دوری پر ہے اور اس سے پورے مشرق وسطیٰ کی جیو پولیٹیکل صورتحال تبدیل ہو کر رہ جائے گی۔ جب صدر جو بائیڈن نے صدارت سنبھالی تھی تو ان کے بہت سے مشیروں کو یہ قوی امید تھی کہ اصل معاہدہ‘ جس کے کئی حصوں پر وہ مذاکرات کر چکے تھے‘ بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت تک ایران میں وہ حکومت برسرِ اقتدار تھی جو اس معاہدے سے اتفاقِ رائے رکھتی تھی۔ اگرچہ ان کے اختیارات میں بڑی حد تک کمی ہو گئی تھی مگر صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف‘ دونوں ابھی عنانِ حکومت سنبھالے ہوئے تھے مگر امریکی حکومت نے صرف یہ طے کرنے میں ہی دو مہینے سے زیادہ عرصہ لگا دیا کہ مذاکرات کا سلسلہ کیسے شرو ع کیا جائے اور یورپی ممالک کے حکام کو شکایت تھی کہ امریکا نے جو وقت فیصلہ کرنے میں ضائع کر دیا تھا‘ وہ انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ مارچ کا مہینہ آ گیا تب جا کر دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر دوبارہ بیٹھنے کے لیے آمادہ ہوئے؛ چنانچہ اپریل میں ویانا میں مذاکرات کاسلسلہ شروع ہو سکا۔ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے ’’جون تک ایک وسیع تر معاہدہ تیار ہو چکا تھا‘‘ تاہم پھر یہ واضح ہو گیا کہ ایران اپنے اگلے صدارتی الیکشن تک اس معاملے کو طول دینا چاہتا ہے۔ ان الیکشنز کے نتیجے میں عدلیہ کے سخت گیر سربراہ ایران کے صدر منتخب ہو کر اپنا منصب سنبھال چکے تھے۔

ابتدائی مرحلے پر امریکی حکام کو امید تھی کہ صدر ابراہیم رئیسی پہلے سے متفقہ تیار معاہدے میںتھوڑے بہت ردو بدل کے بعد اسے منظور کر لیں گے اور اس کے بعد مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر لگائی گئی زیادہ تر پابندیوںکو ہٹا دیا جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس معاہدے میں اگر کوئی خرابی نظر بھی آئی تو موجودہ صدر ابراہیم رئیسی اس کی ذمہ داری سابق صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے کاندھوں پر ڈال دیں گے مگر یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ستمبر کے مہینے میں ایران کے نئے وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہین نے نیویارک ٹائمز کے رپورٹر کو بتایا کہ انہیں اس طرح کے تفصیلی مذاکرات میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے‘ جو ان کے پیشروئوں نے سالہا سال کی سخت محنت سے شروع کرائے تھے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ اگر امریکا اس معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی تین شرائط ہوں گی۔ اسے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اس نے معاہدے سے نکل کر ایک غلطی کی تھی، اسے تمام پابندیاں فوری طور پر ہٹانا ہوں گی، اسے یہ ضمانت دینا ہو گی کہ جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا‘ آئندہ کوئی امریکی حکومت ایسی حرکت نہیں دہرائے گی۔ ایرانی حکومت کے قریب اور فارن پالیسی ایڈوائزر غیث قریشی کا کہنا ہے ’’یہ ایران کے لیے بالکل ممکن نہیں کہ وہ حسن روحانی کی حکومت کی طرح امریکا کو رعایتیں دے۔ ہم اپنے تمام کارڈز نہیں دکھا سکتے اور یہ دیکھنے کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا کہ کیا امریکا اور یورپی یونین اس معاہدے کے حوالے سے پختہ عزم ہیں بھی یا نہیں۔ ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہے‘‘۔ یورپی حکام کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات میں کسی موقع پر تعطل آ گیا تو ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے جس پر ہم غو رکریں، اس ضمن میں بہت سے پلانز معاشی بائیکاٹ سے لے کر سبوتاژ کرنے تک ان تمام موضوعات پر وائٹ ہائوس، وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ایک پریس کا نفرنس میں دو ہفتے قبل پلان بی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں صدر جو بائیڈن نے ایک توقف کیا اور پھر جواب دیا ’’اب میں ایران کے بارے میں کوئی کمنٹس نہیں کروں گا‘‘۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت اسرائیلی حکومت کمنٹس کر رہی ہے۔

اُسی مہینے اسرائیل کے آرمی چیف آف سٹاف جنرل اویو کوچاوی نے یہ کہنا شرو ع کر دیا تھا ’’اسرائیل کی فوج نے ایران اور ایٹمی حملے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے آپریشنل پلانز پر تیزی سے کام کرنا شرو ع کر دیا ہے‘‘۔ ان کا اشارہ دراصل اس بات کی طرف تھا کہ اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے پلاننگ اور ایران پر حملے کی پریکٹس کرنے کے لیے مزید فنڈز منظور کر لیے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسی بنکر بسٹنگ صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کے بعد ہمیں کسی ایسی مدد مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی جیسا کہ ہم نے 13 سال قبل بش حکومت سے مانگی تھی؛ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا محض شو بازی ہے۔

جوبائیڈن حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ شاید کسی موقع پر انہیں یہ اعلان کرنا پڑ جائے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اس قدر جدید نہیں ہوا کہ وہ 2015 ء کے معاہدے پر محفوظ طریقے سے واپس چلے جائیں۔ ان کا کہنا ہے ’’یہ کوئی عصری کلاک نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹیکنالوجیکل کلاک ہے‘‘۔ امریکی نمائندے مسٹر مالے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا ’’ایک مرحلے پر جا کر یہ معاہدہ بڑی حد تک ناکارہ ہو جائے گا کیونکہ ایران اپنے پروگرام میں اتنی پیشرفت کر چکا ہوگا کہ اسے واپس لے جانا مشکل ہو جائے گا‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’آپ کسی مردہ‘ کسی لاش میں روح نہیں پھونک سکتے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement