شوگر کے علاج میں کامیابی …(1)
تحریر: جینا کولیٹا
برائن شیلٹن پوری زندگی ذیابیطس کے خلاف جنگ لڑتا رہا‘ جب اس کے خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی تو وہ کسی کو کچھ بتانے سے قبل ہی بے ہوش ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنی موٹر سائیکل دیوار میں دے ماری۔ وہ ڈاک تقسیم کرتے کرتے ایک دفعہ اپنے کسٹمر کے صحن میں جا گھسا۔ جب اس طرح کے واقعات مسلسل ہونے لگے تو اس کے سپروائزر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پوسٹل سروس کی 25 سالہ ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لے۔ اس کی عمر 57 سال تھی۔ اس کی سابق بیوی سنڈی شیلٹن اسے ریاست اوہائیو میں اپنے گھر لے گئی۔ اس نے بتایا ’’میں سارا دن اسی خوف میں مبتلا رہی کہ اسے گھر پر اکیلا کیسے چھوڑ کر جائوں‘‘۔
اس سال کے شروع میں اسے ایک فون کال موصول ہوئی جس میں ذیابیطس ٹائپ ون میں مبتلا مریضوں کو دعوت دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ’’ورٹیکس فارماسیوٹیکل‘‘ کی نگرانی میں شوگر ٹائپ ون کے ایک کلینیکل ٹرائل میں رضاکارانہ طور پر شرکت کر سکتے ہیں۔ یہ کمپنی شوگر میں مبتلا مریضوں کا ایک ایسا آزمائشی علاج کر رہی تھی جسے ایک سینئر سائنسدان نے کئی عشروں کی ریسرچ کے بعد اس وقت دریافت کیا تھا جب اس کا اپنا 6 مہینے کا بیٹا سیم اور ایک ٹین ایجر بیٹی شوگر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔
برائن شیلٹن رضا کارانہ علاج کرانے والا پہلا مریض تھا۔ 29 جون کو اس کے جسم میں وہ خلیے یا سیل داخل کیے گئے جنہیں سٹیم سیلز کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ یہ سیل اس کے پینکریاز یعنی لبلبہ میں انسولین پیدا کرنے والے سیلز کی طرح تھے جن کی شیلٹن کے جسم میں کمی تھی۔ حیران کن طور پر اب اس کا جسم انسولین کی پیداوار اور شوگر لیول کو خود بخود کنٹرول کرتا ہے۔ برائن شیلٹن‘ اس وقت جس کی عمر 64 سال ہے‘ شاید پہلا شخص ہو گا جس کی بیماری کا اس نئے طریقے سے علاج کیا گیا ہے۔ ماہرین اب یہ امید کر رہے ہیں کہ اس طریق علاج سے ذیابیطس ٹائپ ون میں مبتلا پندرہ لاکھ امریکی شہریوںکا علاج ہو سکے گا۔ برائن شیلٹن نے کہا ’’یہ تو بالکل ہی ایک نئی زندگی ہے۔ یہ کسی کرشمے سے کم نہیں ہے‘‘۔ ذیابیطس کے ماہرین بھی شوگر کے علاج میں کامیابی پر حیران ہیں مگر ساتھ ہی وہ ابھی احتیاط کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ یہ سٹڈی ابھی جاری ہے اور اسے پانچ سال مزید لگ جائیں گے۔ اس سٹڈی میں ذیابیطس ٹائپ ون میں مبتلا 17 مریض حصہ لے رہے ہیں؛ تاہم اس سٹڈی کا ذیابیطس ٹائپ 2 کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ذیابیطس کے ایک ماہر ڈاکٹر آئرل ہرش‘ جو اس سٹڈی میں شامل نہیں ہیں‘ کا کہنا ہے ’’ہم کئی عشروں سے اس کوشش میں تھے کہ کوئی اس طرح کی چیز ہو جائے‘‘۔ وہ اس ریسرچ کے نتائج کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جو ابھی کسی موقر ریویو جریدے میں شائع نہیں ہوئے؛ تاہم بہت سے دیگر جرائد میں انہیں شائع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہرش یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس طریقِ علاج کے غیر متوقع طور پر مضر اثرات تو مرتب نہیں ہوتے، نیز کیا جسم میں داخل کیے گئے سیل مریض کی ساری زندگی کے لیے کافی ہوں گے یا یہ سیل مریض کے جسم میں دوبارہ تو داخل نہیں کرنا پڑیں گے؟ تاہم ان کا کہنا تھا ’’قصہ مختصر یہ کہ نتائج بہت حیران کن ہیں‘‘۔ یو سی ایل اے میں ذیابیطس کے ایک ماہر ڈاکٹر پیٹر بٹلر‘ جو اس ریسرچ میں تو شامل نہیں تھے مگر اسی طرح کی احتیاط کرنے کا انتباہ کرتے ہوئے وہ بھی ان نتائج سے متفق تھے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ زبردست نتائج ہیں، ہمارے جسم سے جو سیل غائب ہو گئے ہیں‘ اگر انہیں جسم میں واپس داخل کر دیا جائے اور ہمارے جسم کا شوگر لیول خود بخود کنٹرول میں آ جائے تو یہ کامیابی کسی کرشمے سے کسی طور کم نہیں ہے۔ اور یہ 100 سال پہلے انسولین دریافت کرنے سے بھی بڑی کامیابی ہے‘‘۔
اس ساری کامیابی کا سہرا ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک بیالوجسٹ ڈوگ میلٹن کی 30 سال محنت کا نتیجہ ہے۔ 1991ء تک‘ جب ان کے 6 مہینے کے بیٹے سیم کا جسم کانپنے لگا‘ ڈاکٹر میلٹن نے ذیابیطس جیسی بیماری کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں تھا۔ سیم کو قے آنا شروع ہو گئی تھی اور سانس پھولنے لگا تھا۔ ڈاکٹر میلٹن نے بتایا ’’وہ شدید بیمار تھا اور امراضِ بچگان کے ماہرین یہ بتانے سے قاصر تھے کہ ان کے بچے کو کون سا مرض لاحق ہے‘‘۔ وہ اور ان کی اہلیہ گیل کیفی اپنے بچے کو فوری طور پر بوسٹن کے چلڈرن ہسپتال میں لے کر گئے‘ جب ٹیسٹ کیا گیا تو سیم کا پیشاب شوگر سے بھرا ہوا تھا جو مریض کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی علامت تھی۔
کسی بھی انسان کو یہ بیماری اس وقت اپنی گرفت میں لیتی ہے جب اس کے لبلبے سے نکلنے والے ہارمون سیلز (آئیلیٹس) اس امیون سسٹم کو تباہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ہمارے لبلبے میں انسولین پیدا کر نے والے سیلز پیدا کرتا ہے۔ تباہی کا یہ عمل عام طور پر 13 یا 14 سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ شوگر ٹائپ 2 کے مقابلے میں ٹائپ 1 زیادہ مہلک ہوتی ہے جب تک کہ مریض انسولین کے انجیکشن نہ لگوانا شروع کر دے۔ کوئی بھی مریض فوری طور پر بہتر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر بٹلر نے بتایا ’’یہ ایک انتہائی خوفناک بیماری ہے‘‘۔ اس کا واحد علاج جو آج تک کارگر ثابت ہوا ہے‘ وہ لبلبے کا ٹرانسپلانٹ یا کسی آرگن ڈونر کے لبلبے سے لیے گئے انسولین پیدا کرنے والے سیلز کا ٹرانسپلانٹ ہے‘ جنہیں Islet Cells کہا جاتا ہے مگر اعضا کا عطیہ کرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس طرح کی بیماری کا علاج کرنے کے لیے یہ اپروچ ناممکن لگتی ہے۔ ڈاکٹر علی ناجی یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں ٹرانسپلانٹ سرجن ہیں‘ جنہوں نے لبلبے کے سیلز کی ٹرانسپلانٹ کی بنیاد رکھی تھی اور اب اس طریقہ علاج کے ٹرائلز کے چیف انویسٹی گیٹر ہیں‘ جس کی مدد سے برائن شیلٹن کی شوگر کا علاج کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر علی ناجی کا کہنا ہے ’’اگر ہم کسی یوٹوپیا (ایک آئیڈیل مگر فرضی ریاست) میں بھی رہتے ہوں تو وہاں بھی اتنی بڑی تعداد میں لبلبے نہیں مل سکیں گے‘‘۔
اس طریقِ علاج میں نیلے رنگ کا خصوصی عمل دخل ہے۔ ڈاکٹر میلٹن اور ان کی اہلیہ مسز کیفی‘ جو اپنے شوگر میں مبتلا چھ مہینے کے بچے سیم کی دیکھ بھال کر رہے تھے‘ کے خیال میں اتنے کم عمر مریض کو سنبھالنا ایک خوفناک تجربہ ہے۔ مسز کیفی کو ہر روز اپنے بچے کی انگلیوں اور پائوں میں چار مرتبہ سوئی چبھونا پڑتی تھی تاکہ اس کے جسم سے خون کا سیمپل لے کر بلڈ شوگر چیک کی جا سکے۔ شوگر چیک کرنے کے بعد جسم کی ضرورت کے مطابق وہ اپنے بیٹے کو انسولین کی ڈوز لگاتی تھیں۔ ابھی تک مارکیٹ میں چھوٹے بچوں کولگانے والی انسولین ڈوز فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہے‘ اس لیے ڈاکٹر میلٹن اور ان کی اہلیہ مسز کیفی کو انسولین لگانے سے پہلے اسے’ ڈائیلیوٹ‘ یعنی پتلا کرنا پڑتا ہے۔ (جاری)