ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

شوگر کے علاج میں کامیابی …(2)

تحریر: جینا کولیٹا

ڈاکٹر میلٹن نے ذہن پر زور دیتے ہوئے یاد کیا ’’گیل نے مجھے کہا تھا کہ جب میں یہ سب کچھ کر رہی ہوں تو تم اس مہلک بیماری پر کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ اسی دوران ان کی بیٹی ایما بھی‘ جو سیم سے چار سال بڑی تھی‘ شوگر کی مریضہ بن گئی۔ اس وقت ایما کی عمر 14سال تھی۔ اس وقت ڈاکٹر میلٹن مینڈک پر ریسرچ میں مصروف تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنی یہ ریسرچ ترک کر دی اور اپنے آپ سے یہ عہد کر لیا کہ وہ شوگر کا علاج دریافت کر کے رہیں گے۔ انہوں نے اپنا کام سٹیم سیلز کے ابتدائی مرحلے سے شروع کیا جس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جسم کے کسی بھی سیل میں ڈھل سکتا ہے۔ ان کا ہدف تھا کہ وہ شوگر کے مریضوں کے علاج کے لیے سٹیم سیل کو آئیلٹ سیل میں تبدیل کر نے کی کوشش کریں۔ ان کے سامنے یہ پتا چلانا ایک بڑا چیلنج تھا کہ سٹیم سیلز کو کیا میسج دیا جائے کہ وہ انسولین پیدا کرنے والے آئیلٹ سیلز میں بدل جائیں۔ ان کے سامنے لبلبے کی نارمل نشو و نما کو سٹڈی کرنے جیسا مشکل ہدف تھا اور یہ جاننا مقصود تھا کہ آئیلٹ سیلز لبلبے میں کیسے بنتے ہیں۔ سٹیم سیلز کو آئیلٹ سیلز میں تبدیل کرنے کے لیے بے شمار تجربات کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ایک انتہائی سست رفتار عمل تھا۔

کئی سال بعد جب کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی تو ایک پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچر فیلیشیا پیگلوکا سمیت ریسرچرز کی ایک چھوٹی سی ٹیم 2014ء کی ایک رات لیب میں موجود تھی‘ جہاں وہ ایک اور تجربہ کرنے میںمصروف تھی۔ فیلیشیا نے بتایا ’’ہم بہت زیادہ پُرامید نہیں تھے‘‘۔ جس محلول میں سٹیم سیل بنائے جا رہے تھے‘ انہوں نے اس میں ایک رنگ ڈال رکھا تھا۔ اگر اس سیل نے انسولین بنانا شروع کر دی تو اس کا رنگ بدل کر نیلا ہو جائیگا۔ اس کا خاوند بھی اس سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کب گھر آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد فیلیشیا نے دیکھا کہ وہ ہلکے نیلے رنگ میں تبدیل ہو گیا اور پھر نیلا رنگ مزید گہرا ہوتا گیا۔ اسے اور دیگر ریسرچرز کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے سٹیم سیلز کو لبلبے کے آئیلٹ سیلز کے طور پر کام کرتے دیکھا۔ اس کامیابی پر لیب میں ایک پارٹی اور کیک کے ساتھ جشن منایا گیا۔ پھر ریسرچرز کے پاس اپنی بنائی ہوئی شوخ رنگ کی نیلی اونی ٹوپیاں تھیں جن پر پانچ دائرے تھے سرخ، زرد، سبز، نیلا اور قرمزی۔ یہ وہ مراحل تھے جن میں سے گزرتے ہوئے ایک سٹیم سیل نے متحرک آئیلٹ سیل میں تبدیل ہونا تھا۔ انہیں ہمیشہ قرمزی رنگ کی امید ہوتی تھی مگر اس وقت تک وہ صرف سبز رنگ میں ہی پھنسے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر میلٹن بخوبی جانتے تھے کہ شوگر کی دوائی کو مارکیٹ میں لانے کے لیے بہت کثیر وسائل کی ضرورت ہو گی اس لیے ان کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ وہ ایسا طریقہ استعمال کریں جسے دوسرے لوگ بھی دہرا سکیں۔ اس کام میں مزید پانچ سال لگ گئے۔ ایک کمپنی‘ جس کی سربراہ سیل اور جین تھراپی کی ماہر بیسٹیانو ثنا تھی‘ نے اس سیل کو چوہوں میں ڈال کر آزمایا جس میں دیکھا گیا کہ وہ سیل بہترین انداز میں اپنا فعل سرانجام دے رہے تھے اور انہوں نے چوہوں میں پائی جانے والی ذیابیطس کا علاج کر دیا تھا۔ اس سے اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اس کا مریضوں پر بھی کلینکل ٹرائل کیا جائے۔ اس کے لیے ایک بڑی، تجربہ کار اور کافی وسائل رکھنے والی کمپنی کی ضرورت تھی جس میں سینکڑوں ملازمین کام کر رہے ہوں۔ کمپنی کو اپنا ہرکام امریکا کی ایف ڈی اے کے درست معیار کے مطابق کرنا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات تیار کیے گئے اور کلینکل ٹرائلز کی منصوبہ بندی کی گئی۔ بے یقینی بڑھتی گئی۔ اپریل 2019ء میں ایم آئی ٹی جنرل ہسپتال میں ایک اجلاس کے دوران ڈاکٹر میلٹن بھاگتے ہوئے اپنے ایک سابق ساتھی ڈاکٹر ڈیوڈ آلٹ شلر کے پاس پہنچے جو ہارورڈ میں جینیات اور میڈیسن کے پروفیسر تھے اور بورڈ انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ ڈاکٹر آلٹ شلر نے‘ جو ورٹیکس فارما سیوٹیکلز میں چیف سائنٹیفک آفیسر بن چکے تھے‘ ڈاکٹر میلٹن سے پوچھا کہ کوئی نئی بات ہے تو بتائو۔ ڈاکٹر میلٹن نے ایک شیشے کی ایک چھوٹی سی وائل نکالی جس کی تہہ میں قرمزی رنگ کی ایک چھرا نما سی چیز پڑی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر آلٹ شلر کو بتایا ’’یہ وہ آئیلٹ سیلز ہیں جو ہم نے اپنی کمپنی’’Semma‘‘ میں تیار کیے ہیں۔ ورٹیکس کمپنی صرف ان انسانی بیماریوں پر ہی فوکس کرتی ہے جس کی بیالوجی انسانی سمجھ بوجھ میں آتی ہو۔ ڈاکٹر آلٹ شلر نے انہیںکہا ’’میرے خیال میں یہاں ایک موقع موجود ہے‘‘۔ اس کے بعد کئی اجلاس ہوئے اور 8 ہفتے بعد ورٹیکس کمپنی نے 950 ملین ڈالرز میں Semma کمپنی کو خرید لیا اور ڈاکٹر ثنا ورٹیکس میں ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ بن گئیں۔ اس کے دو سال سے بھی کم عرصے میں ایف ڈی اے نے ورٹیکس کو اس طریقے کے کلینکل ٹرائلز کی اجازت دے دی اور برائن شیلٹن اس کے پہلے مریض تھے۔ لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کروانے والے مریضوں کی طرح برائن شیلٹن کو بھی ادویات لینا تھیں جو اس کے امیون سسٹم کو دبا دیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ روزانہ شوگر مانیٹر کرنے اور انسولین لگانے کے مقابلے میں کہیں آسان اور کم رِسکی ہے۔ انہیں یہ ادویات اس وقت تک لینا پڑیں گی جب تک کہ ان کا جسم داخل کیے ہوئے سیلز کو ریجیکٹ کرنا بند کر دے۔ ڈاکٹر جان بیوز یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں ذیابیطس کے ماہر ہیں اور ان کا ورٹیکس سے کوئی تعلق نہیں۔ انہو ں نے بتایا ’’ہمیں یہ تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ ذیابیطس کے بوجھ اور امیونٹی کو دبانے والی ادویات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں کیا چیز زیادہ نقصان دہ ہے‘‘۔

گزشتہ مہینے ورٹیکس ڈاکٹر میلٹن کو نتائج بتانے کے لیے تیار تھی مگر انہیںکوئی زیادہ توقعات نہیںتھیں۔ میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار تھا۔ ڈاکٹر میلٹن جو عام طور پر ٹھنڈے مزاج کے مالک ہیں مگر جس وقت حقیقت ان کے سامنے آنے کا وقت آیا تو وہ کافی گھبرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنا سارا جنون اور کئی عشرے اس پروجیکٹ پر صرف کر دیے تھے۔ جب ورٹیکس ٹیم نے اپنی پریزنٹیشن دے لی تو ڈاکٹر میلٹن کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ پھیل گئی کیونکہ اعداد و شمار حقائق پر مبنی تھے۔ ڈاکٹر میلٹن ورٹیکس سے روانہ ہو گئے کیونکہ انہیں سیم، ایما اور مسز کیفی کے ساتھ ڈنر کرنا تھا۔ جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھ گئے تو ڈاکٹر میلٹن نے انہیں اپنی ریسرچ کے نتائج سے آگا ہ کیا۔ ’’ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے‘‘۔ مسٹر شیلٹن کے لیے سچ جانے کا موقع پروسیجر مکمل ہونے کے چند روز بعد آیا جب وہ ہسپتال سے گھر آ گیا۔ اس نے اپنی بلڈ شوگر چیک کی اور یہ بالکل نارمل تھی۔ پھر ڈاکٹر میلٹن اور مسٹر شیلٹن نے اکٹھے کھانا کھایا تو اس کی شوگر نارمل رینج میں تھی۔ جب شیلٹن نے اپنا شوگر کا رزلٹ دیکھا تو وہ بے اختیار رونے لگا اور بولا کہ میں شکریے کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیار یسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement