اومیکرون ، نیا ویرینٹ
تحریر: اینڈریو جیکبز
سب سے پہلے بوٹسوانا اور جنوبی افریقہ میں نمودار ہونے والے کوروناکے نئے ویرینٹ نے اپنی کئی ایک میوٹیشنز کی وجہ سے دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماہرین صحت کو تشویش میں مبتلاکر دیا ہے کیونکہ یہ بڑی آسانی سے دوسرے لوگوں کو منتقل ہو سکتاہے اور اس پر ویکسین بھی اتنی کارگر نہیں ہے؟ڈبلیو ایچ او نے بھی اومیکرون کو تشویشناک وائرس قرار دیا ہے اور وارننگ جاری کی ہے کہ یہ پوری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔برطانیہ ‘اٹلی‘ بلجیم اور نیدرلینڈ سمیت یہ دنیا کے بیس ممالک میں موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی تک امریکا میں ا س کے کوئی شواہد نہیں ملے مگر اس کے یہاں پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
اومیکرون کی وجہ سے پوری دنیا میں گھبراہٹ ہے۔ جاپان‘ مراکش اور اسرائیل سمیت کئی ممالک نے جنوبی افریقہ سے اپنی فلائٹس بھی بند کر دی ہیںاور ماہرین صحت نے وارننگ جاری کر دی ہے حالانکہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک وائر س ہے جس نے امریکا اور دیگر کئی ممالک کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اگرچہ ڈیلٹا اپنے سابق ویرینٹ کے مقابلے میںبڑی تیزی سے پھیلتا ہے اور شواہدکے مطابق جن افراد کو ویکسین نہ لگی ہو انہیں شدید بیمار بھی کر سکتا ہے تاہم ابھی ایسے شواہد نہیں ملے کہ نیا وائرس انتہائی مہلک ہے اور ویکسین کو بھی غیر مؤثر کر سکتا ہے۔مگر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بہت تیزی سے لوگوں میں دوبارہ انفیکشن پھیلا سکتا ہے۔ابتدائی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ نیا وائرس متاثرہ افراد کو قدرے بیمار کر سکتا ہے مگر اس کا مشاہدہ صرف جنوبی افریقہ کے نوجوانوں میں کیاگیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے لوگ شاید ہی کووڈ سے بیمار ہوں۔سائوتھ افریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر انجلیک کوٹزی کا کہنا ہے کہ ملک کے ہسپتالوںمیں ابھی نئے وائرس سے متاثر زیادہ مریض نہیں آئے اور میں نے جتنے بھی مریض دیکھے ہیں وہ اپنے ہوش و حواس میں ہیں اور ان کی ذائقے اور سونگھنے کی حس بھی برقرار ہے ۔ ریجنرون نے بتایا ہے کہ اس کا کووڈ اینٹی باڈیز کا علاج شاید اومیکرون کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوجس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگریہ نیا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا توممکن ہے کہ مفید مونوکلونل اینٹی باڈی ڈرگز کو اپ گریڈ کرنا پڑے ۔چونکہ اومیکرون ایک بالکل ہی نیا وائرس ہے اس لیے شاید ماہرین یہ نہ جانتے ہوں کہ یہ کتنا ہلاکت خیز ہے ۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جان جائیں گے۔فی الحال ان کے پاس یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ موجودہ ویکسین اومیکرون پر کارگر ثابت نہیں ہوگی اگرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف بہت زیادہ تحفظ نہ دے سکے۔اس وقت خاموش اور مطمئن رہنے کی ایک اور بھی وجہ ہے۔ویکسین بنانے والوں کا کہنا ہے کہ ہمیں پورا اعتماد ہے کہ ہم موجودہ ویکسین کے فارمولے میں ہی ضرور ی تبدیلی سے اس کو نئے وائرس کے خلاف بھی مؤثر بنا لیں گے۔نیز یہ کہ ناک کے مواد اور لیب ٹیسٹ کی مدد سے اومیکرون کی تمام میوٹیشنز کی شناخت کی جا سکتی ہے۔چونکہ کوروناوائرس لوگوں کے اندر ہی شکلیں تبدیل کر رہا ہے اس لیے اس کی نئی میوٹیشنز سامنے آرہی ہیں۔زیادہ تروائرس میں کوئی نیا اضافہ نظر نہیں آیامگر کئی مرتبہ اس کی بعض میوٹیشنز سے ایسے بیکٹریا پیدا ہوجاتے ہیں جو انسانوںمیںبڑی تیزی سے پھیل سکتے ہیں یا جسم کے امیون سسٹم کو دھوکا دے سکتے ہیں۔سائوتھ افریقہ کے ریسرچرز اس لیے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ انہیں اس کی پروٹین میں 30سے زائد میوٹیشنز ملی ہیں اور اس ویرینٹ سے جڑی پروٹین انسانی خلیے کی مدد سے انسانی جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ بوٹسوانا سے ملنے والے وائرس کے کچھ سیمپلز میںایسے پچاس سے زائد میوٹیشنز ملے ہیں جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئے ۔یہ نوکدار پروٹین ہی اینٹی باڈیز کا بڑا ہدف ہوتی ہے جسے ہمارا امیون سسٹم کووڈ انفیکشن کے خلا ف لڑنے کے لیے پیدا کر تا ہے۔اتنے زیادہ میوٹیشنز کی وجہ سے یہ تشویش پیدا ہو گئی کہ شاید نئی پروٹین پہلی ویکسین سے پیدا ہونے والے اینٹی باڈیز کے حملوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائے۔اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اس ویرینٹ کی وجہ سے مونو کلونل اینٹی باڈیز سے علاج کی افادیت کم ہو جائے۔اس خدشے کی جزوی تصدیق منگل کو ریجنرون کے اعلان سے بھی ہوگئی ہے۔ویکسین سے توقع ہے کہ یہ ہمیں اومیکرون کے خلا ف بھی تحفظ فراہم کرے گی کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے اینٹی باڈیز بلکہ دوسرے امیون سیلز کو بھی متحرک کر تی ہے جو وائرس سے متاثرہ سیلز پر حملہ آور ہوتے ہیں۔چونکہ ویکسین کی امیونٹی چھ مہینے کے بعد کمزور پڑجاتی ہے اس لیے ماہر ین تجویز کرتے ہیں کہ اینٹی باڈیز لیول میں اضافے کے لیے بوسٹر شاٹ بھی لگوا لینی چاہئے۔
متعدی امراض کے اعلیٰ ترین امریکی ماہر ڈاکٹر فائوچی نے لوگوں کو بوسٹر شاٹ لازمی لگوانے کے لیے کہا ہے جو ان کے خیال میں ہمارے جسم کو اس شدید بیماری کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم اس حوالے سے بار بار تاکیدکرتے رہے ہیں اور ایسا کرناضروری بھی تھا کہ اگر آپ نے ویکسین نہیں لگوائی تو فوری طور پر ویکسین لگوائیں اور ماسک پہننے ‘ تنگ مقامات او رہجوم میں جانے سے گریز کریں۔ ماڈرنا ‘فائزر ‘جانسن اینڈ جانسن جو امریکا میں اور آسٹرازینیکا جو پورے یورپ میں استعمال ہو رہی ہیں ان سب کے بنانے والوں کاکہنا ہے کہ وہ اومیکرون کو سٹڈی کر رہے ہیں اور پورا یقین ہے کہ فارمولے میں معمولی ردو بدل کے بعد ان کی ویکسین نئے ویرینٹ کے خلا ف بھی اتنی ہی موثر ہوں گی۔ جس طرح ڈیلٹا ویرینٹ بھارت میں ظاہر ہو اتھااسی طرح دنیا بھر میںاس نئے ویرینٹ کے ظہور کے بعد عالمی برادری کو اس بنیادی مسئلے کا سامنا کرتے ہوئے ڈیڑھ برس سے زائد ہو گیا ہے۔چونکہ امیر ممالک ویکسین کا ذخیرہ کر رہے ہیںاور غریب ممالک ویکسین کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیںاس لیے خدشہ ہے کہ ان کے وہ شہری جنہیں ویکسین نہیں لگ سکی وہ SARS CoV-2کے شکار نہ ہوجائیں۔زیادہ میوٹیشنز کا مطلب ہے کہ وائرس زیادہ متعدی ہو نے کی وجہ سے زیادہ مہلک ثابت ہو گا۔ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلنے کے بعدلگتا ہے کہ ایک نیا خطرناک ویرینٹ زیادہ عرصے تک ایک مقام پر نہیں رہے گا۔حالیہ دنوںمیں اومیکرون کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندیاں افریقی عوام میںاشتعال او رگھبراہٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ مغربی ممالک ایسی پالیسیز پر عمل پیرا ہیں جن کی وجہ سے افریقی عوام کو ویکسین اور دیگر وسائل فراہم نہیں کیے جا سکے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈراس نے سفری پابندیوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک جو اپنے شہریوں کو اس ویرینٹ سے تحفظ دینے کے لیے اتنے پریشان ہیں جسے ہم خود ابھی تک نہیں سمجھ سکے ‘میں ان کی اس تشویش کو بخوبی سمجھتا ہوں۔
(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب : دنیاریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)