ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچے

تحریر: ضیا الرحمن

ان چاروں بچوں کا وطن پاکستا ن ہے۔ ان کی پیدائش اور پرورش پاکستان میں ہوئی۔ ان کے ذہنوں میں پڑھنے، بزنس شروع کرنے اور کامیابی کے منصوبے جاگزیں ہیں مگر انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارا وطن کہیں اور ہے۔ ان چاروں میں سے ایک لیب ٹیکنیشین، ایک ویب ڈویلپر، ایک جیولری میکر اور ایک سابق ویلڈر ہے۔ ان سب کے والدین افغان ہیں جو جنگ کی وجہ سے بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے۔ ان بچوں کی زندگی مہاجر کیمپوں میں گزری ہے۔ انہیں ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ انہیں ایک ایسے ملک میں بھیج دیا جائے گا جسے انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ کراچی میں آصف سکوائر میں رہتے ہیں۔ ان مہاجرین کو اکثر جرائم اور گینگ تشدد کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان ایسے لاکھوں بچوں کا مسکن ہے۔ شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے کسی سکول یا یونیورسٹی نہیں جا سکتے۔ وہ کوئی جائیداد یا گاڑی نہیں خرید سکتے اور انہیں کوئی نوکری بھی نہیں ملتی۔

24 سالہ محمد سلیم‘ جو لیب ٹیکنیشین ہے‘ کے پاس کوئی کاغذات نہیں ہیں‘ اس لیے اسے کسی میڈیکل سکول میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ شہریت کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے اسے مارکیٹ سے ایک تہائی معاوضہ ملتا ہے صرف 85 ڈالر ماہانہ۔ اس کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے میں اپنے والدین کا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا نہیں کر سکا۔ پاکستان کا قانون یہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت کا حق دیتا ہے مگر عرصے سے یہاں پیدا ہونے والے افغان بچوں کے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایلین رجسٹریشن کارڈ سسٹم متعارف کرایا ہے جس کے بعد یہاں پیدا ہونے والے بچے اپنا بزنس شرو ع کر سکیں گے مگر انہیں مکمل شہری حقوق پھر بھی نہیں مل سکیں گے۔ اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے اور وہاں حکومت بنانے کے بعد شاید اب مزید افغان سرحد پار کر کے یہاں آ جائیں جس کے بعد یہاں مہاجر کیمپوں میں مزید رش ہو جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں چودہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین مقیم ہیں مگر ماہرین کے خیال میں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے؛ طالبان کے بعد‘ پاکستان کے سرحدوں پر سخت کنٹرول کی وجہ سے ابھی تک زیادہ مہاجرین یہاں نہیں آ سکے لیکن خدشہ ہے کہ جونہی پاکستان نے سرحدیں کھولیں تو معاشی بدحالی کی وجہ سے مہاجرین کا ایک سیلاب آ جائے گا۔

23 سالہ مدد علی ایک ویب ڈویلپر ہے اور فری لانسر کے طور پر آن لائن کام کرتا ہے مگر اس کا معاوضہ اسے آن لائن ملتا ہے جس کے لیے شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسے ایک غیر قانونی طریقہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مدد علی ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے جسے افغانستان میں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اور ملک میں شرعی قوانین نافذ کر دیے تھے تو اس سے ایک سال قبل ہی اس کے والدین فرار ہو کر پاکستان آ گئے تھے۔ اپنے صاف ستھرے اپارٹمنٹ پر کا م کرنے والے مدد علی کا کہنا ہے کہ وہ کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشان ہے اور اپنا ڈپریشن دور کرنے کے لیے وہ اکثر ساحل سمندر پر چلے جاتے ہیں۔

ایسے لاکھوں بچے ہیں جو محض اس وجہ سے سکول نہیں جا سکتے کہ ان کے پاس پاکستان کے برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہیں۔ زیادہ تر بچے مدرسوں میں قرآنِ مجید حفظ کرتے ہیں یا کوڑے کے ڈھیروں سے چیزیں چن کرکباڑیوں کے پاس بیچتے ہیں۔ آصف سکوائر‘ کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر افغان مہاجرین ہی رہتے ہیں‘ اس کے قریب ہی ایک مہاجر سکول بھی ہے اور یہاں گریڈ 12 تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ سکول افغانستان کی وزارتِ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ہے مگر اس کے سرٹیفکیٹس کو پاکستان میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔

سمیرا واحدی‘ جس کی عمر بائیس سال ہے‘ نے اپنی تعلیم اسی سکول سے مکمل کی ہے مگر وہ اس سے آگے نہیں پڑھ سکتی کیونکہ اس کے پاس مناسب ڈاکیومنٹس نہیں ہیں۔ سمیرا واحدی کے والدین نے 1980ء کی دہائی میں افغانستان کے صوبے تخار سے ہجرت کر کے پاکستان میں پنا ہ لی تھی۔ اس کا کہنا ہے ’’جس طالب علم نے بھی اپنی تعلیم آگے جاری رکھنی ہو اسے افغانستان جانا پڑتا ہے مگرمیں تو پاکستان میں پیدا ہوئی تھی، میں نے اپنی زندگی میں ایک بار بھی افغانستان نہیں دیکھا۔ جہاں تک میرے والدین کا تعلق ہے‘ ان کا آبائی وطن افغانستان ہو سکتا ہے مگر میرے لیے تو پاکستان ہی میرا وطن ہے‘‘۔

سمیرا نے یو این کے زیر اہتمام ایک افغان ریفیوجی کیمپ میں قائم سنٹر سے زرگری کا ہنر سیکھ رکھا ہے اور کانوں کی بالیاں، نیکلیس اور چوڑیاں بنا کر اپنی روزی کماتی ہے۔ اس نے بتایا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے وہ اچھے پیسے کما رہی تھی مگر اب گاہکوں نے ہم سے مال خریدنا بند کر دیا ہے؛ تاہم مجھے امید ہے کہ جلد ہی یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان مہاجرین کے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دینے کا وعدہ کیا تھا تو 23 سالہ سمیع اللہ ان ہزاروں افغان مہاجر بچوں میں سے ایک تھا‘ جنہوں نے روہنگیا اور بنگالی تارکین وطن کے ساتھ مل کر عمران خان کا شکریہ ادا کیا تھا مگر ملک بھر سے سیاسی دبائو پڑنے کی وجہ سے عمران خان ابھی تک اپنے اس وعدے کی تکمیل نہیں کر سکے ہیں۔ پاکستا ن کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت دینے سے ملک کے کئی حصوں میں نسلی تناسب بگڑنے کا خدشہ ہے۔

سمیع اللہ آصف سکوائر میں ویلڈر کا کام کرتا تھا اور اسے روزانہ 7 ڈالر معاوضہ ملتا تھا مگر کام کی وجہ سے اس کی آنکھیں اس قدر متاثر ہوئیں کہ اسے اپنی یہ ملازمت چھوڑنا پڑگئی۔ اس نے بتایا ’’اب میں کوئی نئی ملازمت تلاش کر رہا ہوں مگر ہر کوئی مجھ سے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ لانے کا مطالبہ کرتا ہے‘‘۔ کبھی سمیع اللہ کو امید تھی کہ میں ویلڈنگ کی اپنی ورکشاپ کھولوں گا مگر اب وہ امریکا یا آسٹریلیا جانے کے خواب دیکھتا ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی پاسپورٹ نہیں ہے۔ وہ گلہ کرتا ہے ’’اگر میں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں یا میری پرورش یہاں ہوئی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مجھے پورا یقین ہے کہ میں مروںگا بھی پاکستان میں۔ مجھے یہ بھی کامل یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن پاکستان کی حکومت ہمیں پاکستانی شہریت دیدے گی‘‘۔

اس حوالے سے سست روی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ 2019ء میں وزیراعظم عمران خان نے ان افغان مہاجرین کو بینک اکائونٹس کھولنے کی اجازت دی تھی جن کے پاس بطور مہاجر رجسٹریشن کارڈ موجود تھے۔ آصف سکوائر میں رہنے والے افغان مہاجرین ابھی تک ایک غیر یقینی صورتحال میں رہ رہے ہیں۔ ان کے غیر قانونی سٹیٹس کی وجہ سے اکثر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ انہیں جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سمیع اللہ کہتا ہے ’’میں پولیس کے خوف کی وجہ سے باہر جانے سے گریز کرتا ہوں۔ وہ میری تلاشی لیتے ہیں اور شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پکڑے جانے پر پانچ سو روپے رشوت لے کر جانے دیا جاتا ہے‘‘۔

(بشکریہ : نیویارک ٹائمز انتخاب : دنیا ریسرچ سیل مترجم : زاہد رامے )

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement