ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

اب امریکا کا ہر دن ’’6 جنوری‘‘ ہے!

تحریر: اداریہ : نیویارک ٹائمز

آج اس بات کو ایک سال ہو گیا ہے جب ہر طرف دھواں ہی دھواں پھیلا تھا اور سڑکوں پر ٹوٹے شیشے بکھرے ہوئے تھے۔ اس دن مصنوعی پھانسیاں اور اصلی خون بکھرا ہوا تھا۔ ایک بار پھر پیچھے مڑکر دیکھنے اور یہ سوچنے کو دل کرتا ہے کہ 6 جنوری 2021ء کو کیا ہوا تھا۔ وہ دن‘ جب امریکا کے ایک سرکاری منصب کے لیے خونریز ہنگامے ہوئے تھے، ایک شکست خوردہ شخص کی شہ پر اپنے جانشین کو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ ڈالنے کی آخری کوشش کی گئی‘ جو بڑی ہولناک تھی مگر اب یہ ماضی کا حصہ بن چکی ہے اور ہماری قوم اس سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اس سارے واقعے کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ چار سال کے انتشار، ظلم اور نااہلی‘ جو کووڈ سے ہوتی ہوئی 6 جنوری کے ناقابل تصور صدمے پر منتج ہوئی تھی‘ امریکی عوام کی اکثریت امن اور سکون کے لیے بے قرار تھی؛ تاہم اگر تھوڑا سا بھی کرید کر دیکھیں تو صورت حال ابھی نارمل ہونے سے کوسوں دور ہے۔ 6 جنوری ابھی اتنی دور نہیں گیا، اب تو ہر روز 6 جنوری ہوتا ہے۔

یہ عام امریکی شہری تھے جنہوں نے الیکشن حکام اور عوام کو دھمکیاں دی تھیں، جو پوچھ رہے تھے ’’ہم بندوق کب استعمال کر سکتے ہیں؟‘‘ اور جنہوں نے ان سیاستدانوںکو قتل کرنے کا عہد کر رکھا تھا جو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کے خواہش مند تھے۔ یہ ریپبلکن ارکان تھے جو عوام کے لیے ووٹ دینا ایک مشکل عمل اور عوام کی مرضی اور منشا کو الٹانے کو ایک آسان عمل بنانا چاہتے تھے۔ یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھے جو اپنے متواتر جھوٹ کی مدد سے کشیدگی کی آگ کو مسلسل ہوا دینے میں مصروف تھے جو حقائق کو توڑ مروڑ کر ابھی تک امریکا کی ایک بڑی سیاسی جماعت پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے تھے۔ مختصر بات یہ کہ ایک جمہوری ملک اس تحریک کی طرف سے ملنے والی ایک ٹھوس دھمکی کا سامنا کر رہا تھا جو جمہوریت کے لیے ایک شرمناک بات ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کی کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ کوئی بھی خود مختار سوسائٹی اس دھمکی کو نظر انداز کرکے اپنا وجود برقرار نہیں رہ سکتی کہ خطرہ تو سرے سے موجود ہی نہیں‘ بلکہ ایسے معاشرے کی بقا بیک وقت ماضی اور مستقبل میں جھانکنے میں مضمر ہے۔

ہمارے سامنے موجود اس خطرے سے حقیقی انداز میں نمٹنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال پہلے‘ آج ہی کے دن جنم لینے والی دہشت اور خوف کا بخوبی ادراک کیا جائے۔ بھلا ہو ایوانِ نمائندگان کی اس دو جماعتی کمیٹی کی محنت کا کہ آج اس پر کارروائی ہو رہی ہے۔ اب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دن ہونے والے تشدد اور ہنگامہ آرائی کو دنیا بھر میں براہ راست نشر کیا گیا تھا اور یہ اقدام ہی الیکشن کے نتائج کو مسخ کرنے کی سب سے نمایاں جھلک ہے۔ یہ کارروائی آگے اوول ہائوس تک جاتی ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے رفقا ایک آئینی بغاوت کی منصوبہ بندی کر کے بیٹھے تھے۔ اس وقت بھی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ مستقبل پر نظر رکھنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ پچھلا پورا ایک سال 41 ریاستوں کے ریپبلکن ارکانِ اسمبلی  6جنوری کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے مقاصد کے حصول کی ہی کوششوں میں مصروف رہے۔ اس مقصد کے لیے و ہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے قانون سازی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں بل تجویز کیے گئے ہیں اور تقریباً تین درجن ایسے قوانین پاس کیے گئے جو ریاستی اسمبلیوں کو اس بات کا اختیار تفویض کرتے ہیں کہ وہ ووٹرز کی مرضی کو مسترد اور الیکشن کے عمل کو خود ہی سبوتاژ کر سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بل ایسے بھی ہیں جو قوانین کو تبدیل کرکے ریاستی ارکانِ اسمبلی کے لیے یہ امر آسان تر بنا دیں گے کہ اگر انہیں کسی الیکشن کے نتائج پسند نہیں آتے تو وہ شہریوں کی ووٹ کی رائے کو مسترد بھی کر سکیں گے۔ ان میں سے بعض قوانین ایسے بھی ہیں جن کی مدد سے پروفیشنل الیکشن حکام کی جگہ جماعتی ہمدردوں کو بھی لانے کی اجازت مل جائے گی جن کی مخصوص مفادات کے پیش نظر پوری کوشش ہو گی کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو الیکشن جتوانے میں ہر ممکن مدد کریں۔ یہ الیکشن حکام کی ممکنہ انسانی غلطیوں کو مزید مجرمانہ کارروائی میں بدلنے کے مترادف ہو گا۔ اس طرح واشنگٹن میں ہونے والے ہنگامے کسی خونریزی اور قانون شکنی کے بغیر اس انداز میں امریکا بھر کے ریاستی ایوانوں میں آج تک جاری ہیں کہ کسی کو کوئی پولیس افسر گرفتار کر سکتا ہے نہ کسی مجرم پر عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ایک متحرک سیاسی جماعت اپنے سیاسی اور انتخابی نقصانات کا جائزہ لیتی ہے کہ اس سے کہاں پر غلطی ہوئی ہے اور وہ اگلے الیکشن میں پہلے سے دوگنا ووٹرز کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے دنیا بھر کی آمرانہ تحریکوںکی طرح یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ پارٹی لیڈرز کی تقاریر سے تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی حکومتی اقتدار کا اہل سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کی کامیابی کو فراڈ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی جھوٹ ہے جو 6 جنوری 2021ء کے ہنگامو ں کا باعث بنا تھا کہ جو بائیڈن نے الیکشن میں فتح حاصل نہیں کی تھی۔ مختلف پولز سے پتا چلتا ہے کہ ریپبلکنز کی اکثریت آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ جو بائیڈن قانونی طور پر صدر منتخب نہیں ہوئے تھے اور ان کی ایک تہائی تعداد اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کو بھی جائز سمجھتی ہے۔ ان دونوں کی تعداد کو جمع کرکے دیکھیں آپ کو ایک انتہائی بھیانک منظر نظر آئے گا۔

ریپبلکن لیڈرز اپنے ووٹرز کے ساتھ دیانتداری کا مظاہرہ اور اپنے اندر موجود انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد کرکے ایک مثبت قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ڈیمو کریٹس بھی اتنے بے بس نہیں ہیں۔ صدر جو بائیڈن اور دیگر معروف ڈیمو کریٹک رہنما اپنے پاس موجود اختیار کا استعمال کرتے ہوئے قانون سازی کے لیے ہونے والی ووٹنگ کی راہ میں حائل تاخیری حربوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، تمام امریکیوںکا فرض ہے کہ و ہ ہر لیول پر الیکشن میں کامیابی اور جمہوریت کے بنیادی فنکشن کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی کوشش کریں۔ اگر سازشی تھیوریز پر یقین کرنے والے کامیاب ہو سکتے ہیں تو حقیقت کی دنیا میں بسنے والے کیوں نہیں جیت سکتے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں ملک کو درپیش موجودہ خطرات کے ادراک میں غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ گزشتہ چھ برسوںکے دوران 6 جنوری کے واقعے سمیت ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادی متعدد بار کوئی نہ کوئی غیر قانونی یا تباہ کن کوشش کر چکے ہیں مگر ہر مرتبہ عوام کی طرف سے یہی ردعمل آیا کہ وہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آخر ہمیں اور کتنی مرتبہ غلط ثابت کیے جانے کی ضرورت ہے کہ تب ہی ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا شروع کریں؟ ہم ایسا جتنی جلد کریں گے‘ اتنی ہی جلدی یہ امید رکھنی چاہئے کہ ہم خطرات میں گھری جمہوریت کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement