ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنگی اموات کی تحقیقاتی خامیاں

تحریر: عظمت خان

اپریل 2017ء میں جو رپورٹ امریکی فوج کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی‘ اس میں عراق سے متعلق ہولناک خبریں تھیں۔ 30 سے زائد افراد‘ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے‘ اُس وقت مارے گئے تھے جب امریکی سرپرستی میں داعش کے خلاف لڑنے والی اتحادی فوج نے موصل میںصیحا کے نواح میں ایک فضائی حملہ کیا تھا۔ امریکی فوج کے سویلین اموات کے تحقیقی سیل کو‘ جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اتحادی فوج کی جنگی کارروائیوں کے دوران مرنے والے سویلینز کے بارے میں رپورٹ تیار کرے‘ اس بات کا علم ایک فیس بک پوسٹ سے ہوا جو ’’عراقی سپرنگ میڈیا سنٹر‘‘ نے لگائی تھی۔ پینٹاگون نے ایک انکوائری شروع کر دی مگر ایک ہفتہ بعد بھی اس کے افسران اس با ت کی تصدیق نہیں کر سکے کہ کیا اتحادی فوج کے پائلٹ نے ہی اس مقام کو نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ مغربی موصل کے اضلاع میں صیحا کے بارے میں تو کسی کو معلوم بھی نہیں۔ اس پر مزید تو کوئی بات نہ ہوئی مگر صیحا کو تلاش کرنا اتنا مشکل نہیں تھا۔

’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے رپورٹرز نے محض گوگل میپس کی مدد سے ہی مغربی موصل کے نواحی علاقے ڈھونڈ نکالے۔ محض ہجوں (سپیلنگ) کا فرق تھا‘ قصبے کا نام صیحا کے بجائے صیحاہ نکلا۔ گوگل پر سرچ کرنے سے اپریل 2017ء سے پہلے کی کئی رپورٹس مل گئیں جس سے ’صیحاہ‘ اور اس کے اردگرد کی لوکیشن کی تصدیق ہو گئی۔ ’’دی ٹائمز‘‘ کے پنٹاگون کی خفیہ دستاویزات کے تجزیے سے پتا چلا ہے کہ سویلینز کی اموات کے الزامات کو محض ناقابل اعتبار قرار دے کر مسترد کر دیا گیا جبکہ دی ٹائمز کے رپورٹرز نے ایسی اموات کا سراغ عوام کے پاس موجود ذرائع کی مدد سے لگایا تھا۔ ان میں گوگل میپس اور ویکی میپیا جیسے پلیٹ فارم بھی استعمال کیے گئے تھے۔ خاص طور پر امریکی فوج کے تخمینہ کاروں کے پاس سٹرائیک لاگ اور ان حملوں کی وڈیوز جیسے مستند اور بہترین ذرائع کی سہولت دستیاب تھی۔ پینٹاگون کے ایک سابق سینئر انٹیلی جنس تجزیہ کار مارک گارلیسکو کہتے ہیں ’’میں آپ کو بتائوں گا کہ یہ سب کیا تھا۔ بات بڑی سیدھی اور سادہ ہے۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ یہ بنیادی سطح کی انویسٹی گیشن ہے اور یہ نہ کرنا پرے درجے کی لاپروائی ہوگی‘‘۔ مشرق وسطیٰ میں ستمبر2014 ء سے جنوری 2018ء تک‘ داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فضائیہ نے جتنے بھی فضائی حملے کیے‘ دی ٹائمز نے ان میں مارے جانے والے سویلینز کے حوالے سے 1300سے زائد خفیہ ثبوت حاصل کیے ہیں۔ دی ٹائمز نے حال ہی میں ناکام انٹیلی جنس، فیصلہ سازی اور ان مہلک فضائی حملوں میں ہونے والی اموات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ان دستاویزات سے پینٹاگون کے اس معیار کا پتا چلتا ہے کہ اس نے ان حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کی اموا ت کو کس طرح مصدقہ اور غیر مصدقہ میں کلاسیفائی کیا ہے۔ ان میں سے 1100 سے زائد کو غیر مصدقہ قرار دے دیا گیا۔ کئی ایسے کیسز بھی تھے جس میں تجزیہ کاروں کے پاس کافی معلومات نہیںتھیں کہ وہ ان فضائی حملوںکا پتا چلا سکیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے ہی شہریوں کی اموات واقع ہوئی تھیں۔

ٹائمز نے یہ بھی پتا چلایا ہے کہ بہت سے شہریوں کی اموات کو محض اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ ان وڈیوز کی کوالٹی اتنی عمدہ نہیں کہ جس سے یہ تعین ہو سکے کہ ان علاقوں پر ہونے والے بہت سے فضائی حملوں میں سے یہ کس حملے کی بات کی جا رہی ہے۔ ان تحقیقات میں ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ تحقیقات کرنے والوں کے پاس اتنی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ ان فضائی حملوں کی لوکیشن کا تعین کر سکیں۔ شہریوں کی اموات کے 80 سے زائد کیسز میں دی ٹائمز کو پتا چلا کہ یہ نقصان صرف انسانی خطا کا نتیجہ تھا۔ درجنوں مثالوںمیں پنٹاگون کے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ حملے کی جگہ کا تعین ممکن نہیں حالانکہ وہ جگہ انٹرنیٹ پر آسانی سے تلاش کی جا سکتی تھی یا شاید وہ کسی غلط جگہ کو دیکھتے رہے۔

امریکی فضائیہ کے ان غلط حملوں کے بارے میں دی ٹائمز کے حالیہ انکشافات کے بعد پنٹاگون نے کہا ہے کہ وہ ان حملوں کی تحقیقات کرنے میں پُرعزم ہے مگر یہ تحقیقات امریکی فوج کی ان اموات کی درست گنتی کرنے کی استعداد اور آمادگی کے بارے میں کئی نئے سوالات اٹھاتی ہے۔ 2020ء کی اس رپورٹ کے اہم لکھاری اور وزارتِ خارجہ کے ایک سابق عہدیدار ڈینیل مہانٹی کا کہنا ہے ’’اس ساری کوشش کا مقصد شہریوں کی اموات کے بارے میں منظر عام پر آنے والی رپورٹس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا اور اس بیانیے پر پیش رفت کرنا تھا۔ اس کا قطعی یہ مقصد نہیں ہے کہ ان فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے توجہ ہٹائی جائے‘‘۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن کا کہنا تھا کہ فوج ان فضائی حملوں میں شہریوں کی اموات کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے تجزیے اور تخمینے کے حوالے سے ان کے ذرائع سے قطع نظر اپنی ہی پالیسی پر عمل کرتی ہے اور جہاں بھی دستیاب معلومات کی روشنی میں تحقیقات کی اجازت اور گنجائش ہوتی ہے‘ وہ ان سے سبق بھی سیکھتے ہیں اور ان کی کسی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کا اعتراف بھی کرتے ہیں‘‘۔ تاہم کیپٹن بل اربن نے دی ٹائمز کی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والی مخصوص غلطیوں پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

امریکی اور اتحادی فوج کے عراق میں واقع داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کی اموات کے الزامات پر تحقیقات کے عمل کو کئی طریقوں سے تیز تر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں لوکل نیوز میڈیا کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹس اور سوشل میڈیا پر آنے والی وہ پوسٹس بھی شامل ہیں جنہیں امریکی فوج کے اہلکار مانیٹر کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر واقعا ت کو ’’ایئر وارز‘‘ نے رپورٹ کیا ہے جو ایک غیرمنافع بخش مانیٹرنگ گروپ ہے اور اس کا ہیڈ آفس برطانیہ میں قائم ہے۔ یہ مقامی ذرائع سے رپورٹس اکٹھی کرتا ہے اور پھر ان کی سمری مہیا کرتا ہے۔ یہ الزامات خاص طور پر سویلین اموات کے تحقیقاتی سیل کو بھیجے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیل کے ممبرز ایسے افراد ہیں جنہیں تجزیہ کار بننے کے لیے کسی قسم کی معیاری ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ فوج کے ترجمان کیپٹن بل اربن کہتے ہیں ’’ہر ممبر اپنی انفرادی مہارتوں کا ہی استعمال کرتا ہے اور ہر ممبر سے یہی تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ مہارتوںمیں خود ہی بہتری لانے کا بندوبست کرے‘‘۔

اس سیل کے ایک سابق تجزیہ کار‘ جنہوں نے امریکی فوج کی طرف سے ممکنہ تادیبی کارروائی کے خوف سے اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی درخواست کی تھی‘ کا کہنا تھا کہ جب مجھے پہلی ذمہ داری سونپی گئی‘ اس سے قبل میں نے ایسے کسی سیل کا نام بھی نہیں سنا تھا اور ان اموات کا تجزیہ کرنے کے لیے درکار مہارت کو ملازمت کے دوران ہی سیکھنا پڑتا ہے‘‘۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement