ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنگی اموات کی تحقیقاتی خامیاں…(2)

تحریر: عظمت خان

2017ء میں تجزیہ کاروں نے موصل صوبے میں واقع قصبے صیحاکے بارے میں اپنے تجزیے کے دوران گوگل میپ جیسے بنیادی ذریعے سے بھی مدد نہیں لی تھی۔ دیگر کئی تجزیوں میں انفارمیشن کے جائزے کے لیے انہوں نے بھرپور کوشش کر کے تمام ممکنہ ٹولز استعمال کیے تھے۔ جب ایک الزام میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی فوج نے شام میں واقع ایک سویمنگ پول کو نشانہ بنایا تھا تو ماہرین نے’’رقا‘‘ کے قصبے کے گرد و نواح میں موجود تمام پولز کی جانکاری کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کیا تاکہ اردگرد ہونے والے تمام فضائی حملوں کا پتا چلایا جا سکے مگر سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ کار تمام کیسز میں کیوں استعمال نہیں کیا گیا تھا؟ اگر تمام معلومات جمع کر لی گئی تھیں تو حتمی جائزہ لینے کے لیے صرف فضائی حملوں کے لیے ملٹری ریکارڈ چیک کرنے کا معاملہ رہ جاتا ہے تاکہ نشانہ بنائے جانے والے مقامات کی درست نشاندہی کی جا سکے مگر سابق تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ملٹری کے پاس موجود یہ ریکارڈ غلط بھی ہو سکتے ہیں اور اس طرح ان مقامات پر فضائی حملوں کی نشاندہی مشکل بنا دی گئی اور الزامات کو جھوٹ پر مبنی قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ کیپٹن اربن کا کہنا تھا کہ فضائی حملو ں سے متعلق لاگ بک تو بالکل درست ہوتی ہے مگر اس نے اس حوالے سے ایسی کوئی بھی تفصیل دینے سے انکار کر دیا کہ اس ضمن میں بہتری لانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے تھے اور یہ بھی نہیںبتایا کہ ان حملوں کا لاگ بکس کی مدد سے از سر نو تجزیہ کیوں نہیں کرایا گیا۔

ان دستاویزات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب کسی حملے کے مقام کے بارے میں بالکل درست انفارمیشن دستیاب تھی‘ تب تجزیہ کار عربی زبان میںمہارت کے فقدان کی وجہ سے اس سمت میںکچھ پیش رفت نہ کر سکے۔ ایک اور جائزہ رپورٹ میں پنٹاگون نے اس الزام کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا جس میں چار بچوں سمیت آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اس دعوے کو مسترد کرنے کے لیے یہ بھونڈی دلیل دی گئی کہ وہ عراق میں جیری کے گرد و نواح کے علاقے کی نشاندہی نہیں کر سکے تھے۔ اگر عربی زبان میں سرچ کیا جائے تو تھوڑی سی کوشش سے جیری کا قصبہ وکی میپیا پر آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اگرچہ تجزیہ کاروں نے بعض سرچز عربی زبان میں بھی کی تھیں مگر انہوں نے ایسا روٹین میں نہیں کیا تھا۔ متعدد افراد‘ جنہوں نے سویلین اموات والے سیل کے لیے کام کیا تھا‘ نے دی ٹائمز کے رپورٹرز کو بتایا کہ عربی بولنے یا پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی؛ تاہم کیپٹن اربن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں بھی عربی زبان میں مہارت کی ضرورت تھی‘ وہاں ان تجزیہ کاروں کو مترجمین کی سہولت بھی میسر تھی۔ ان دستاویزات کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ جہاں بھی عربی زبان سے ناواقفیت کا مسئلہ پیدا ہوا وہاںسنگین کوتاہی ہوئی۔ کئی مرتبہ پنٹاگون نے محض مختلف قصبوں کے ایک جیسے یا ملتے جلتے ناموں کی بنا پر امریکی فوج کے فضائی حملوں کے الزامات کو مستر دکر دیا جیسا کہ مارچ 2017ء میں شام کے ایک قصبے پر حملے کے کیس میں بھی دیکھنے میں آیا۔ سوشل میڈیا کی کئی پوسٹس میں بتایا گیا کہ شام کے صوبہ الیپو میں مسکانہ نامی قصبے پر فضائی حملے میں 8 لوگ مارے گئے تھے۔ پنٹاگون کی ایک داخلی ٹیم نے اس رپورٹ کو مزید تجزیے کے لیے بھیج دیا۔ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ماہرین جس مسکانہ قصبے کو تجزیے کے لیے سرچ کرتے رہے وہ قصبہ شام کے ایک اور صوبے حمص میں واقع تھا؛ تاہم اس کا نام بھی مسکانہ ہی تھا۔ جب ماہرین کو وہاں فضائی حملوں کے بارے میں کوئی ثبوت نہ ملے تو انہوں نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ 2018ء میں سویلین نقصان کا جائزہ لینے کا عمومی طریقہ کار یہ تھا کہ ماہرین الزام سے متعلق وڈیوز اور تصاویر کے ثبوتوں کی مدد سے اس مقام، وقت اور تاریخ پر فوکس کرتے تھے مگر کئی ایک انسانی جانوں کے نقصان کے معاملے میں ان اہم پہلوئوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس طرح تجزیہ کار وں نے جان بوجھ کربہت سے ثبوت ضائع کر دیے۔ جنوری2017ء میں یہی کچھ عراق کی سنجاری فیملی کے کیس میں ہوا جہاں عزیز رشتے دار عراقی فوج کے ایک ریٹائر کرنل عزیز احمد عزیز سنجاری کے انتقال پر اس کے جنازے میں شرکت کے لیے موصل میں ان کے گھر جمع تھے کہ وہاں اجتماع میں اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میںبہت سے سوگوار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ’’ایئر وارز‘‘ نے یہ خبر پنٹاگون تک پہنچائی کہ اس طرح موصل میں ایک جنازے پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس خبر میں داعش سے تعلق رکھنے والی ایک نیوز آئوٹ لیٹ عمق نیوز ایجنسی کا ایک وڈیو لنک بھی دیا گیا تھا۔ پنٹاگون کے ماہرین نے خود ہی یہ فرض کر لیا کہ حملہ سنجاری فیملی کے گھر سے آدھ میل دور واقع کسی قبرستان میں ہوا تھا اور اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر اس الزام کو مسترد کر دیا کہ قبرستان کی بائونڈی کے 100 میٹر کے اندر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ ماہرین نے یہ رپورٹ بھی دی کہ ایئر وارز نے جو وڈیو لنک دیا ہے انہیں اس لنک تک رسائی نہیںمل سکی۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ کیا اس وقت اس لنک تک رسائی ممکن تھی یا نہیں مگر حملے کے دن کئی اور سائٹس پر وہ وڈیو پوسٹ کی گئی تھی اور جب پنٹاگون نے اپنا تجزیہ شروع کیا تھا اس وقت بھی یہ وڈیو دستیاب تھی اور آج تک آن لائن موجود ہے۔ ٹویٹر پر عربی زبان میں موصل اور حملے کی تاریخ لکھیں تو اسے سرچ کرنے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ وڈیو کاتجزیہ نہ کر کے پنٹاگون نے وہ اہم ثبوت کھو دیا ہے جس میں دکھایا گیا تھا کہ حملہ قبرستان نہیں سنجاری فیملی پر کیا گیا تھا۔

دنیا کی مختلف نیوز ایجنسیوں کے رپورٹرز نے جون 2021ء میں اس حملے میں مرنے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ جو انٹرویوز کیے تھے اور سرکاری طور پر مرنے والے افراد کے جو ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے‘ ان سے پتا چلتا ہے کہ کرنل عزیز احمد سنجاری کے جنازے میں ہونے والے اس بم دھماکے میں گیارہ افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے اور ان مرنے والوں میں ایک نامعلوم عورت اور ایک نوجوان لڑکی بھی شامل تھی جو دھماکے کے وقت اس گھر کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ رضوان احمد سنجاری‘ جس نے اس دھماکے میں اپنے دو بھائیوں اور ایک کزن کھویا تھا‘ ہم سے سوال کر رہا تھا ’’میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ سب کیوں ہوا اور کس نے کیا؟‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement