ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مجھے امریکی جمہوریت کی فکر ہے

تحریر: جمی کارٹر(سابق امریکی صدر)

ایک سال قبل چندعاقبت نااندیش سیاست دانوں کی سرپرستی میں ایک متشدد ہجوم نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کو  تہ وبالا کر ڈالا اور انتقال اقتدار کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے میں وہ تقریباًکامیاب ہونے ہی والے تھے ہم چار سابق صدور نے ان کے اس عمل کی نہ صرف پرزور مذمت بلکہ 2020ء کے الیکشن کے جائز اور قانونی ہونے کی توثیق بھی کی؛ چنانچہ ایک امید پیدا ہوگئی تھی کہ یہ بغاوت جس نے قوم کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا ہے ہمیں مہلک انتشار میں مبتلا کر کے ہماری جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔تاہم ایک سال بعد جھوٹ کے علمبرداروں نے جن کا دعویٰ تھا کہ الیکشن چوری ہوگئے ہیں ایک سیاسی جماعت پر قبضہ کر لیا ہے اور ہمارے سیاسی نظام کے بارے میں عدم اعتماد کے بیج بو دیے ہیں۔یہ گروہ اور ان کے لیڈر گمراہ کن معلومات کی مدد سے قوت اور اثرو رسوخ کا مظاہرہ کرتے ہیںجو امریکی شہریوں کو ایک دوسرے کے مخالف لا کھڑا کرتے ہیں۔ سروے سنٹر آن امیریکن لائف کے مطابق سیاسی عمل میں شریک 36 فیصدآبادی یعنی 100ملین بالغ امریکی شہری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ روایتی امریکی لائف سٹائل اتنی تیزی سے غائب ہو رہا ہے کہ ہمیں اسے بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ 40فیصد ری پبلکن پارٹی کے حامی کارکن یہ یقین رکھتے ہیںکہ بعض اوقات حکومت کے خلاف متشدد احتجاج جائز ہوتا ہے۔میر ی آبائی ریاست جارجیا سمیت ٹیکساس اورفلوریڈا کے سیاست دانوں نے اس عدم اعتمادکو فروغ دیا ہے جو انہوں نے ایسے قوانین وضع کرنے کی نیت سے پیدا کیا ہے جو جماعتی ارکان کانگرس کو انتخابی عمل میں مداخلت کا اختیار دیتے ہیں۔ وہ الیکشن جیتنے کے لیے کوئی بھی حربہ آزمانے کے لیے تیار ہیںاور امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اسی اندا ز میںسوچنے اور عمل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے جس سے ہماری سلامتی اور جمہوریت کی بنیاد سنگین خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

اب مجھے فکر لاحق ہے کہ ہم نے آج تک عالمی سطح پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جتنی بھی جدوجہد کی ہے یعنی آزادانہ اور منصفانہ الیکشن جو ایسے آہنی سیاست دانوں کی دست برُد سے محفوظ ہوں جن کا مطمح نظر بہر صورت اقتدار کا حصول ہے‘ اب یہ جدوجہد خطرناک حد تک کمزور پڑ چکی ہے۔میں اپنے ماضی میں 1962ء میں اسی خطرے کا سامنا کر چکا ہوں جب ایک منہ  زور سیاست دان نے جارجیا ریاست کے سینیٹ الیکشن چوری کرنے کی کوشش کی تھی۔ایسا پرائمری الیکشن میں ہوا تھا اور میں نے اس فراڈ کو عدالت میں چیلنج کر دیا تھا؛چنانچہ جج نے ان نتائج کو کالعدم قرار دے دیا تھااور میں جنرل الیکشن جیت گیا تھا۔ اس کے بعد جمہوریت کا تحفظ اور فروغ میرے لیے ایک ترجیح بن گیا۔ایک صدر کی حیثیت سے میرا بڑا ہدف جنوبی افریقہ اور دنیا بھر میں اکثریت کی حکومت قائم کرنا بن گیا ۔جب میں نے وائٹ ہائوس چھوڑ کر کارٹر سنٹر قائم کیا توہم نے دنیا بھر میں آزاد انہ او رمنصفانہ الیکشن کروانے کے لیے بھرپور کام کیا ۔میں نے افریقہ‘ لاطینی امریکا اور ایشیا میں الیکشن مانیٹر کرنے والے کئی مشنز کی قیاد ت کی جس کا آغاز 1989ء میں پانامہ سے ہوا تھا جہاںمیں نے انتظامیہ سے ایک سادہ سا سوال پوچھا تھا کہ ’’کیا تم ایماندار عہدیدار ہو یا چور ہو ؟ ‘‘

ہرالیکشن میںمجھے اور میری اہلیہ روزالین کو ان ہزاروں شہریوں کی طرف سے کمٹمنٹ اور حوصلہ مندی کا ساتھ ملا جو میلوں  پیدل چل کر اور شام تک قطاروںمیں کھڑے ہو کراپنا ووٹ ڈالنے کا انتظار کر تے رہے ۔یہ ان کے لیے اور ان کی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن اور سیلف گورنمنٹ کے حصول کی طرف پہلا قدم تھا۔لیکن میں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح نئے جمہوری نظام حتیٰ کہ کئی پرانے جمہوری نظام بھی فوجی حکمرانوں یا اقتدا رکے بھوکے آمروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔سوڈان اور میانمار ا س کی دو تازہ ترین مثالیں ہیں۔اگر ہم امریکی جمہوریت کی پائیداری چاہتے ہیں تو ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے لیڈرز اور نمائندے ہمیشہ آزادی اور اعلیٰ ترین کنڈکٹ کے علمبردار رہیں۔

اول: یہ کہ جہاں شہری سرکاری پالیسیوں سے اختلاف رائے کرسکتے ہیں وہیں تمام سیاسی نظریات کے حامل شہریوں میں بنیادی آئینی اصولوں سمیت شائستگی ‘تہذیبی اقدار اور قانون کی حکمرانی پر اتفاق رائے ہونا بھی لازمی ہے۔شہریوں کو محفوظ اور شفاف انتخابی عمل میں شرکت کا اہل اور حق ہونا چاہئے۔انتخابی خلاف ورزیوں کو اچھی نیت کے ساتھ عدالتوں میں لے جا  کر ان کا فیصلہ کروانا چاہئے اور تمام فریقین کو ان غیر قانونی اقدامات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے۔الیکشن کا عمل بلاخوف و خطر پر امن طریقے سے منعقد ہو نا چاہئے۔

دوم: یہ کہ ہمیں ایسی اصلاحات پر اصرار کرنا چاہئے جن سے ہماری الیکشن تک رسائی اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور الیکشن کے نتائج پر بھی عوام کو بھروسا ہونا چاہئے۔

سوم: یہ کہ ہمیں انتشار کی مزاحمت کرنی چاہئے جو ہماری سیاسی شناخت کو مسخ کر رہا ہے۔ہمیں بعض بنیادی سچائیوں پر فوکس کرنا چاہئے مثلاًیہ کہ ہم سب انسان ہیں ‘ہم سب امریکی شہری ہیں اور ہم اپنی کمیونٹیز اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایک جیسی امیدیں رکھتے ہیں ۔ہمیں مہذب گفتگو کی مدد سے اپنی اس گروہی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے اپنے اہل خانہ ‘دوستوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر پرامن اور تعمیری انداز میں کوشش کرنی چاہئے۔ہم سب کو انتشار کی حامی قوتوں کے خلاف  بھی متحد ہو کر کھڑے ہونا ہوگا۔

چہارم یہ کہ ہماری سیاست میں تشدد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اور ہمیں کردار کشی ‘ڈرانے دھمکانے کے رجحان اور مسلح ملیشیا کے خلاف اپنی قانون سازی کو مزید طاقتور بنانے کی ضرور ت ہے۔ہمیں اپنے الیکشن حکام کی حفاظت اور سلامتی کا خیال رکھنا چاہئے جو ہمارے قابل بھروسا دوست ہیں ان میں سے کئی تو ہمارے ہمسائے بھی ہوتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والوں کے پاس ان حالات کو بہتر بنانے کے اختیارات ہونے چاہئیں اور ماضی و حال کی نسلی ناانصافیوں کے خلاف ہمیں قومی سطح پر مل کر جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے ۔

آخری بات یہ کہ ہمیں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی گمراہ کن ڈس انفارمیشن کے خلاف بھی فوری اقداما ت کی ضرورت ہے۔  ہمیں ان پلیٹ فارمز میں بھی اصلاحات متعارف کرانی چاہئیں اور ہمیں ہمیشہ درست معلومات کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔کارپوریٹ امریکا اور مذہبی کمیونٹیز کو جمہوری اقدار ‘الیکشن کے عمل میں شرکت کا احترام اور ڈس انفارمیشن کے خلاف اقدامات کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔

اس وقت ہماری عظیم قوم انتشار اور تقسیم کے کنارے پر کھڑی ہے۔ اگر ہم نے اس کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو ڈر ہے کہ ہم ایک خانہ جنگی کی طرف نہ چلے جائیں اور ہمیں اپنی انمول جمہوریت سے محروم نہ ہونا پڑے۔اس سے پہلے  کہ بہت زیادہ تاخیر ہوجائے ہمیںچاہئے کہ ہم اپنے تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مل جل کر کام کرنے کی روایت اپنائیں۔

(بشکریہ : نیویارک ٹائمز ،انتخاب : دنیاریسرچ سیل ،مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement