ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

روس یوکرائن پر حملہ نہیں کرے گا؟

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

امریکا اور یورپی یونین کے رکن تمام ممالک نے روس کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ اسے یوکرائن پر حملے کی پاداش میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ بھاری قیمت معاشی پابندیوں کے ساتھ ساتھ روسی فوجیوں کے جانی نقصان کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں صدر ولادیمیر پیوٹن کے لیے ایک پیغام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ایک محفوظ علاقائی اثرو رسوخ کے مطالبے کو سفارتی ذرائع سے پورا کرانے کی کوشش کریں، صدر جو بائیڈن اور یورپی یونین اپنے اس مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ روس جنگ کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائے۔ اگر روسی ٹینکوں کی نقل و حرکت ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ مغربی ممالک کے پاس مطمئن ہو کربیٹھنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ صدر پیوٹن کو اب کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہئے کہ جس طرح کریمیا کا ادغام کر لیا گیا یا مشرقی یوکرائن کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کی گئی، اس کے بعد روس کی طرف سے کسی قسم کی فوجی کارروائی کو عالمی اقدار کی سنگین خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

روس اور مغرب کے درمیان سرحدوں پر صدیوں سے کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سرحد کے آس پاس جتنا خون بہایا جا چکا ہے اس کا اندازہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ 2022ء میں ایک بار پھر یہاں خون ریزی ہو۔ اس وقت یہ بالکل واضح نہیں کہ سر دست یوکرائن کی سرحد پر روسی صدر پیوٹن کے مقاصد اور اندازے کس نوعیت کے ہیں؟ان کے اعلانات سے تو یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس اور یوکرائن کے درمیان ناقابل تردید تاریخی اور کلچرل تعلقات پائے جاتے ہیں اس لیے وہ ناگزیر طور پر روس کے حلقہ اثر میں شامل ہے۔ انہوں نے یہ سمجھانے میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ یوکرائن، جارجیا یا بیلارس میں مغربی ممالک کی فوجی موجودگی کو اور اس لحاظ سے ان ممالک کی نیٹو میں شمولیت کو روس کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ روس سالہا سال سے یوکرائن کے معاملے پر اور نیٹو کی مشرقی یورپ کی طرف توسیع پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں صدر پیوٹن نے اپنے موقف کا کھل کر جارحانہ انداز میں اظہار کرنا شروع کر دیا ہے اور یوکرائن کو ایک خطرناک مسئلہ قرار دے کر ایک پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔

ولادیمیر پیوٹن کا ا س وقت کاا نتخاب ایک الگ سوال ہے۔جب یہ کشیدگی بڑھی اس سے قبل روس کے یورپ کے ساتھ تعلقات میں ایک تسلسل پایا جاتا تھا اور جو بائیڈن حکومت بھی روس کے ساتھ مستحکم اور واضح تعلقات کی حامی تھی مگر لگتا ہے کہ صدر پیوٹن اس امر کے اظہار کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ کسی بھی سیاسی بحران کی صورت میں وہ امریکا کے ساتھ مل کر ایک عالمی کردار ادا کریں گے اور وہ بالکل اس موڈ میں نظر نہیں آ رہے کہ افغانستان سے امریکا کے ہنگامی انخلا کے بعد پھر کوئی نیا بحران جنم لے۔ یورپی ممالک روسی انرجی پر ناگزیر انحصار کی وجہ سے کسی قسم کا متحدہ ردعمل دینے سے قاصر ہیں۔ صدر پیوٹن نے یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیا ہے کہ یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش ترک کر دی ہے اور نیٹو کی رکنیت کے علاوہ جدید اسلحہ لینے کے لیے یورپ کے ساتھ جا ملے ہیں۔ صدر پیوٹن کے خدشات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یوکرائن نیٹو کا رکن بن جاتا ہے تو اس اتحاد کی روس کے ساتھ 1200 میل طویل سرحد بن جائے گی اور کوئی بھی بڑا ملک ایسی صورتحال کوقبول نہیں کر سکتا؛ تاہم صدرپیوٹن کے نئے سکیورٹی آرڈر کے لیے ڈیلٹا طرز کے مذاکرات کے مطالبے کی کامیابی کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوبائیڈن اور ان کی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ یوکرائن کے عوام کی مرضی کے بغیر یوکرائن کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ جوبائیڈن ا ور نیٹو کسی ایسے معاہدے کی توثیق بھی نہیں کریں گے جو ایک خودمختار ملک کے اس اتحاد کا رکن بننے پر پابندی عائد کر دے۔ ان باتوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ روس کو اصل تشویش اپنی سرحدوں پر بھاری اسلحے کی تعیناتی کی نہیں بلکہ یوکرائن کی خودمختار جمہوریت کی ہے۔ پھر بھی مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ روس کا ایک مستقل مطالبہ یہ ہے کہ یوکرائن 6 سال پرانے ’’مینسک دوم‘‘ معاہدے کی شرائط کی پاسدار ی کرے۔ یہ معاہدہ فرانس اور جرمنی کے ساتھ ہوا تھا جس کا مقصد مشرقی یوکرائن میں پائی جانے والی جزوی بغاوت کی وجہ سے علاقے کو ریجنل خودمختاری دینا تھا تاکہ روس کی اس علاقے میں خفیہ جنگی کارروائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ابھی ایسے راستے موجود ہیں جن کی مدد سے امریکا اور نیٹو ایسے سگنل دے سکتے ہیں کہ وہ فوری طورپر یوکرائن کو اپنے اتحاد میں شامل کرنے یا جدید اسلحہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تاہم انہیں ایسا کرنے کے اپنے کسی حق سے دستبردار ہونے کی ضرورت نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی یقینی بات نظر نہیں آتی جس کے ذریعے صدر پیوٹن کو اپنی فوج واپس بلانے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔ 22 سال تک برسر اقتدار رہنے کی وجہ سے انہیں ایسے خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہے جن کے بارے میں یہ امکان ہے کہ وہ انہیں بدلتے حقائق کے بجائے وہی کچھ کہہ رہے ہوں گے جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ روس اور یوکرائن کے تاریخی اتحاد کی بات کرتے ہیں تو وہ اس پہلو کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ان کے کریمیا کے انضمام اور مشرقی یوکرائن میں پراکسی جنگ نے یوکرائن کے متزلزل شہریوں کو روس کے مکمل خلاف کر دیا ہے اور اب وہ اپنی لیے ایسی قومی شناخت چاہتے ہیں  جس کے وجود سے پیوٹن انکار کرتے ہیں۔

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ آئندہ پابندیوں میں دیگر سزائوں کے علاوہ الیکٹرانک چپس کی فروخت پر پابندی بھی شامل ہو سکتی ہے جس کے بعد وہ عالمی مالیاتی نظام سے بھی کٹ سکتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو صدر بائیڈن اور جرمنی کے نئے چانسلر اولف شلز اور ان کے مشیروں کو سوموار کو جینیوا میں ہونے والی ملاقات اور اس کے بعد نیٹو ملاقات کے دورا ن صدر پیوٹن پر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یورپ میں آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن کی میٹنگز میں بھی یہی بات روس کے گوش گزار کر دینی چاہئے۔ صدر پیوٹن کو یہ بات بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر انہوں نے یوکرائن کے خلاف جنگی مداخلت کی تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اگر روس نے امریکا کے ساتھ مخاصمت کو خطرناک سطح تک بڑھا دیا تو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یورپی سکیورٹی فورمز سے باہر نکال دیا جائے گا، اسے عالمی سطح پر ایک تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں روسی معیشت کو ناقابل بیان نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ 

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement