ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت اومی کرون کی زد میں

تحریر: مجیب مشال

جب دسمبر میں پورا بھارت اومی کرون کی لپیٹ میں آ گیا تو وزیراعظم نریندر مودی نے قوم پر احتیاط کرنے اور میڈیکل گائیڈ لائنز پر عمل کرنے پر زور دیا۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے دارالحکومت میں سخت کرفیو لگا دیا، مووی تھیٹرز بند کر دیے گئے۔ آدھے ریستوران اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا گیا۔ پھر دونوں سیاست دان بغیر ماسک پہنے ہزاروں افراد کی عوامی ریلیوں میں نظر آنے لگے۔ دہلی کا 41 سالہ ٹیکسی ڈرائیور اجے تیواڑی کہتا ہے ’’جب ہماری روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو انہیں لاک ڈائون اور پابندیاں لگانے کا خیال آ جاتا ہے۔ سیاسی جلسوں میں اس سے کہیں بڑا ہجوم ہوتا ہے مگر یہ ان علاقوں میں کوئی لاک ڈائون نہیں لگاتے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے‘‘۔ ایک طرف اومیکرون بھارت کے بڑے شہری علاقوں میں تیزی سے انفیکشن پھیلا رہا ہے تو دوسری جانب پورا ملک‘ جو پہلے ہی کورونا کی تباہی کا سامنا کر رہا تھا‘ اب اومیکرون کی وجہ سے پریشان ہے۔ ابھی چند ہی مہینے گزرے ہیں جب ڈیلٹا ویری اینٹ پورے ملک میں تباہی پھیلا کر گیا ہے، حکومتی عہدیدار اس خطرے کا پوری طرح ادراک نہ کر سکے اور اپنی اپنی بولی بولتے رہے۔ مریضوں سے بھرے ہسپتال اور مرنے والوں کی چتائیں ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

بدھ کے روز ممبئی میں ایک دن میں 15 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور یہ کووڈ کیسز کی بلند ترین شرح ہے جس نے 11 ہزار کیسز کا سابقہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ نئی دہلی میں انفیکشن کیسز کی تعداد ایک ہی رات میں دوگنی ہو گئی ہے۔ بھارت کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی نے پہلے ہی ماہرین کو کورونا کے ایک نئے ویری اینٹ کے آمد سے پریشان کر رکھا تھا۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور حصے میں ڈیلٹا نے بھارت جیسی تباہی مچائی ہو۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کووڈ سے پانچ لاکھ سے زائد اموات ہو چکی ہیں جو ماہرین کے خیال میں اصل تعداد سے کہیں کم ہے۔

اومی کرون کے پھیلنے کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ انفیکشن ریٹ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور لگتا ہے کہ یہ بھارت کی اہم ڈیفنس لائن‘ یعنی آدھی سے زائد آبادی کو ویکسین لگنے کی مہم کو بھی نظر انداز کر چکا ہے۔ ابتدائی سٹڈیز سے لگتا ہے کہ آسٹرا زینکا کی مقامی طور پر تیار کردہ ڈوز جو 90 فیصد سے زائد لوگوں کو لگائی گئی تھی‘ اومی کرون ویری اینٹ کے خلاف تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے؛ تاہم اس نے بیماری کی شدت کو ضرور کم کر دیا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف میتھ میٹکل سائنسز کے پروفیسر ستبھرا سنہا کہتے ہیں کہ وائرس کی ری پروڈکشن کے بارے میں ان کی سٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ اومیکرون کے پھیلنے کی ویلیو R ہے۔ دہلی اور ممبئی جیسے شہر وں میں‘ جہاں امیونٹی کی شرح انتہائی بلند سمجھی جاتی ہے‘ یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دونوں شہروں میں موسم بہار میں بھی بڑی تعداد میں انفیکشن کیسز سامنے آئے تھے اور ان کی بالغ آبادی کی بڑی تعداد کو ویکسین بھی لگ چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کیسز کے پھیلنے کی ویلیو R ہو چکی ہے تو اسے روکنے کے لیے غیر معمولی اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے مگر حکام عوام کو جنوبی افریقہ کی مثالیں دے کر حوصلہ دینے میں مصروف نظر آتے ہیں جہاں اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کے باوجود بڑے پیمانے پر تباہی نہیں ہوئی۔ شاید انہوں نے ڈیلٹا کی لہر سے سبق سیکھا ہے جس نے بھارت کو تباہ کر دیا تھا۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر آنند کرشنن کہتے ہیں کہ بھارت نے نئے ویری اینٹ کے بارے میں جب یہ کہا کہ یہ کوئی سنگین بیماری نہیں ہے تو یہ پیغام عوام میں اطمینان کا باعث بنا۔ وہ کہتے ہیں ’’اس اطمینان کی وجہ سے ہیلتھ سسٹم نے کام کرنا بند کر دیا مگر عوام مطمئن ہیں۔ لوگ ماسک پہن رہے ہیں‘ نہ اپنے رویے تبدیل کر رہے ہیں۔ وہ اسے معمولی بیماری سمجھ رہے ہیں اور جو بھی پابندیاں عائدکی جا رہی ہیں وہ ان کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘‘۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس ویری اینٹ سے جتنی تعداد میں انفیکشن پھیل رہا ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے اومیکرون کے بارے میں بلا وجہ پُرامید رہنا قبل از وقت ہے۔ بے شک ابھی ہسپتالوں میں بڑے پیمانے پر داخلے نہیں ہو رہے مگر کل آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ایک بڑی تعداد ہے۔

اگرچہ حالیہ دنوں میں ہسپتالوں میں انفیکشن سے متاثرہ افراد کے داخلے کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر بھارت کے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں ممبئی، نئی دہلی اور کولکتہ سے ملنے والے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک کووِڈ کے مریضوں کے لیے مخصوص بیڈز خالی پڑے ہیں۔ آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے مرتب کردہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ دہلی کے 3 فیصد اور ممبئی کے 12 فیصد ایکٹو کیسز کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑی ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جیا لال کا کہنا ہے کہ مجھے جس بات کی فکر ہے وہ ہسپتالوں میں بیڈز یا آکسیجن کی کمی نہیں ہے کیونکہ ڈیلٹا ویری اینٹ پھیلنے کے بعد ہیلتھ حکام ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد تو بڑھاتے رہے ہیں مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہیلتھ ورکرز کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر جیا لال کہتے ہیں کہ کووڈ پھیلنے سے لے کر اب تک 1800 سے زائد بھارتی ڈاکٹرز کووڈکی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں ڈاکٹرز کام کے بوجھ کی وجہ سے ہڑتال پر ہیں اور نئے ڈاکٹرز کی بھرتی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ دنوں میں سینکڑوں ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کے کورونا ٹیسٹ پازٹیو آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر جیا لال کہتے ہیں ’’ہماری ڈاکٹر برادری کی ایک بڑی تعداد کے کورونا ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں۔اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔ معمولی انفیکشن والے کیسز کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ کسی بڑے ہسپتال میں داخلے کے لیے تو نہیں آئیں گے مگر وہ اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں گے‘ اس سے ان ڈاکٹروں میں بھی انفیکشن کا امکان بڑھ جاتا ہے‘‘۔

بھارت جو پہلے ہی ڈیلٹا ویری اینٹ کی لہر کی زد میں ہے‘ اب اومی کرون ویری اینٹ بھی وہاں پھیل رہا ہے جبکہ عوام اپنی نقل وحرکت کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں مصروف ہیں۔ تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں سفر کر رہے ہیں، ہر ریاست میں سیاسی ریلیاں نکل رہی ہیں، یہ لوگ آنے والے دنوں میں الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے جائیں گے۔ وزیراعظم اور ان کے حواری 20 کروڑ آبادی والی ریاست اترپردیش میں ریلیاں نکال رہے ہیں جہاں مودی کے ایک حواری کی حکومت ہے اور وہ نئے الیکشن میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ معروف اپوزیشن لیڈر اور نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال بھی بھرپور انداز میں ان ریلیوں میں شریک ہیں۔ وہ اپنی چھوٹی سی سیاسی جماعت کو دوسری ریاستوں میں بھی متعارف کرانا چاہتے ہیں جہاں اس سال الیکشن ہو رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے نئی دہلی میں سخت پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں مگر وہ خود انتخابی ریلیوں میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں۔ یوپی میں ایک ریلی میں ماسک کے بغیر شرکت کرنے کے اگلے روز کیجریوال نے ٹویٹر پر یہ بری خبر شیئر کی کہ ان کا کورونا ٹیسٹ پازٹیو آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے چھونے والے افراد خود ہی قرنطینہ میں چلے جائیں۔ اگلے دن پارٹی کے فیس بک پیج پر کیجریوال کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا تھا ’’کورونا کے خلاف جنگ جاری ہے‘ دہلی میں ویک اینڈ کرفیو لگا دیا گیا ہے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement