مذاکرات میں سرد جنگ کی بازگشت
تحریر: ڈیوڈ سینگر
سوموار کو جنیوا میں شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد بائیڈن حکومت کے لیے یورپ میں اس بڑی جنگ کے امکانات کم ہو گئے ہیں جس کا آغاز روس کی یوکرائن کے خلاف جارحیت سے ہوا تھا۔ اب یہ اصول برقرار رہے گا کہ کوئی بھی ملک طاقت کے سہارے جغرافیائی سرحدوںمیں رد و بدل نہیں کر سکتا۔ صدر پیوٹن کے لیے یہ مسئلہ اہم اور بہت بڑا ہے۔ کیا وہ تاریخ کے ان لمحات کا استعمال کرتے ہوئے 1990ء کی وسط دہائی والا وہ زمانہ واپس لا سکتے ہیں جسے قدامت پسند مورخ نیال فرگوسن نے ’’پرانا‘ سوویت یونین کے اثر و رسوخ والا دور‘‘ کہا ہے۔
روس جو مطالبہ کر رہا ہے اور جسے پیر کے دن جنیوا میں بھی دہرایا گیا‘ شاید کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے لیکن اگر اس کی ظاہری شکل کو دیکھا جائے تو سپر پاورز کی مخاصمت کی بحالی کے مضمرات حیران کن ہیں۔ صدر پیوٹن کی حکومت نے یہ امر بالکل واضح کر دیا ہے کہ مغرب یوکرائن کے خطرات کم کر نا چاہتا ہے تو اسے سابق سوویت ریاست سے اسلحہ، اپنی فورسز اور ایٹمی ہتھیار واپس لے جانے چاہئیں۔ اسے یہ اعلان بھی کرنا ہو گا کہ یوکرائن اور دیگر ریاستیں کبھی نیٹو میں شامل نہیں ہوں گی۔ اگر اس موقف سے 1961ء والے برلن بحران کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو دیوار برلن کی تعمیر پر منتج ہوا تھا یا 1968ء میں وارسا پیکٹ ممالک کی طرف سے 1968ء میں چیکوسلواکیہ کے خلاف جارحیت کی آوازیںسنائی دے رہی ہیں تو (بعض اختلافات کے ساتھ) اس وقت بھی بالکل ویسے ہی حالات ہیں۔ گزشتہ سال کا سبق یہ ہے کہ اب جبکہ سرد جنگ کو گزرے کافی عرصہ بیت چکا ہے مگر سرد جنگ والا رویہ آج بھی جاری ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے تین عشرے بعد بھی دنیا کے دو بڑے ایٹمی طاقت کے حامل دشمنوں کے تعلقات اتنے برے نہیں رہے اور انہوں نے پُرامن طریقے سے کشیدگی کم کرنے کے لیے ایسا راستہ بنایا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
اور یہ بات بہت واضح تھی جب تجربہ کار سفارتکار اور امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن‘ جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں شمالی کوریا اور بارک اوباما کی دوسری مدت کے دوران ایرانی حکومت سے ہونے والی محاذ آرائی کا سامنا کیا تھا‘ پیر کو ہونے والے 8 گھنٹے کے مذاکرات کے بعد کہا ’’روس کی تجاویز ناقابل عمل ہیں‘‘۔ وینڈی شرمن نے رپورٹرز کو بتایا ’’ اوپن ڈور پالیسی کو ہمیشہ نیٹو اتحاد میں مرکزی حیثیت رہی ہے اور ہم کسی کو بھی یہ دروازہ بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ان خود مختار ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعاون ترک نہیں کریں گے جو امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ہم یوکرائن کے بارے میں یوکرائن کے بغیر، یورپ کے بارے میں یورپ کے بغیر اور نیٹو کے بارے میں نیٹو کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے‘‘۔
ممکن ہے کہ ان کے اس علانیہ موقف کے بعد صدر پیوٹن اپنے جارحانہ عزائم کو کچھ دیر کے لیے مزید ملتوی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ انہوں نے ان دو امور کا ذکر کیا جن کے بارے میں امریکا ڈیل کرنے پر آمادہ ہو جائے گا؛ ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘ جسے صدر ٹرمپ نے چھوڑ دیا تھا‘ اور ملٹری ایکسر سائزز کے سکوپ اور حجم کی معکوسی حدود کا تعین کرنا‘‘۔ مگر یہ دونوں باتیں ہی روس کو سرد جنگ کے بعد والے حالات کی طرف واپس لے آئیں گی اور یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں لگتا ہے کہ صدر پیوٹن رد کرنا چاہتے ہیں۔ اٹلانٹک کونسل کے چیف ایگزیکٹو فریڈرک کیمپ نے ویک اینڈ پر لکھا ہے ’’یورپ ایسے شرم ناک لمحات کا اکثر ماضی میں بھی سامنا کر چکا ہے جب زندگی اور موت، جنگ اور امن جیسے معاملات کا دار و مدار طاقت کے تواز ن پر ہوتا ہے اور اس سے آمرانہ اور عوام دوست فورسز کے درمیان عزم اور ارادے کی آزمائش ہو تی ہے‘‘۔ صدر جارج بش (سینئر) نے 1989ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ اب یورپ کے متحد اور آزاد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ فریڈرک کیمپ نے لکھا کہ ان کی اس بات کے کئی عشرے بعد صدر جو بائیڈن خود کو سچائی کے ان لمحات میں کھڑا پاتے ہیں جب اس خواہش کے انگارے جل بجھ رہے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خطرناک ہتھیار بنانے کی دھمکی نہیں دے رہا۔ ابھی چند دن پہلے امریکا اور روس نے دیگر ایٹمی ممالک برطانیہ، فرانس اور چین کے ہمراہ اس بیان کی توثیق کی کہ ’’ایٹمی جنگ کبھی جیتی جا سکتی ہے اور نہ کبھی یہ لڑی جانی چاہئے‘‘۔ مگر اس شخص کو جو 1990ء کی دہائی میں یہ سوچتا ہو گا کہ روس 2022ء میں یورپ کا حصہ ہو گا‘ اس ہفتے ہونے والی پیشرفت یہ یاد دہانی کرا رہی ہے کہ یورپ کی سرد جنگ کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے کوئی بات مستقل طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ صدر پیوٹن کے لیے یہ عارضی بندوبست ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس پر از سر نو مذاکرات اس وقت کیے جائیں جب عالمی نظام میں طاقت کی تقسیم ان کی پسند کے مطابق ہو لہٰذا جب بدھ کو روس اور نیٹو کے درمیان برسلز میں بات چیت کے اگلے دور میں اور اس کے بعد جمعرات کو آرگنائزیشن آف سکیورٹی اینڈ کوآپریشن اِن یورپ کے مذاکرات میں بھی اس سوال کا جواب ملنا چاہئے کہ کیا صدر پیوٹن اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی باوقار راستہ چاہتے ہیں یا پھرجارحیت کے لیے کوئی جواز چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن کے مشیروںکا کہنا ہے کہ امریکا اس مسئلے کا حل چاہتا ہے مگر یوکرائن کے کسی علاقے پر قبضے یا امریکی افواج میں کمی کی قیمت پر ہر گز نہیں۔ وینڈی شرمن کو امید ہے ’’حقیقی سفارتکاری کی مدد سے اس پر ضرور کوئی پیشرفت ہو گی‘‘۔
انہوں نے تجویز دی ہے کہ انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر میزائلز کو محدود کرنے پر طویل بات چیت ہو چکی ہے اور یہ امریکا کے لیے ایک آسان موضوع بھی ہے کیونکہ اس نے یورپ میں یہ میزائل نہیں رکھے ہوئے جبکہ روس نے کئی سال سے اپنی سرحدوں کے پاس یہ میزائل نصب کر رکھے ہیں۔ فوجی مشقوں پر پابندی کے موضوع پر بات چیت بھی ایک حربہ ہے جس کی مدد سے صدر پیوٹن کو یوکرائن کے تین اطراف جمع کی ہوئی ایک لاکھ فوج کو واپس بلانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اپنی نجی محفلوں میں امریکی حکام شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں کہ صدر پیوٹن کے پاس ترغیبات دینے کے لیے کچھ ہے۔ حکام کو اس بات کی فکر ہے کہ روس اس ہفتے کی ڈپلومیسی کے ذریعے یہ اعلان کرے گا کہ اس کی تشویش پر کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ اس لیے صدر پیوٹن یوکرائن کے مشرقی بارڈر پر زور آزمائی کریں گے یا یوکرائن حکومت کو غیر مؤثر کرنے کے لیے سائبر اٹیک کریں گے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخا ب: دنیا ریسر چ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)