ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت: مسلمان‘ عیسائی اور سکھ فرقہ پرستوں کے نشانے پر

تحریر: پی چدمبرم

’’پہلے وہ آئے کمیونسٹوں کیلئے، میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا، پھر وہ آئے سوشلسٹوں کیلئے، میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا، پھر وہ آئے ٹریڈ یونینوں کیلئے، میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا، پھر وہ یہودیوں کیلئے آئے، میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا، پھر وہ میرے لیے آئے اور تب تک کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لیے بولتا‘‘۔ (مارٹن نمولر جرمن)

مارٹن نمولر جرمن کی پیدائش 1892ء میں ہوئی اور 1984ء میں انہوں نے اپنی آخری سانس لی۔ وہ ایک ماہرِ ادیان تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا‘ حالات کے لحاظ سے لکھا۔ اس وقت بھارت کے بھی جو حالات ہیں‘ وہ سب پر عیاں ہیں۔ ہفتہ 25 دسمبر کرسمس کا دن تھا۔ قبل اس کے کہ کرسمس کی تقاریب اپنے اختتام کو پہنچتیں، بعض مقامات پر درمیانی شب سے قبل تمام برائیوں نے‘ جن کے خاتمے کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کوشش کی تھی‘ تبلیغ کی تھی‘ دوبارہ اپنے سر ابھارے اور ان برائیوں سے انسانیت کا نقصان ہوا۔ اگر نئے سال کا آغاز ہی تلخی کے ساتھ ہو تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صورتحال کیا ہے۔ پچھلے دو ہفتے بھارت کے عیسائیوں اور روشن خیال یا ان کے ہم خیال لوگوں کیلئے چیلنج سے بھرپور رہے۔ جہاں تک سال 2021ء کا سوال ہے‘ اس سال فادر اسٹین سوامی کی موت ہوئی تھی۔ اسٹین سوامی تامل ناڈو کے ایک کرسچن مشنری تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اڈیشہ کے قبائلیوں کے ساتھ گزاری۔ اس طرح ایک انسانی ہمدردی رکھنے والے فادر اسٹین سوامی کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ 2021ء اس لیے بھی ہندوستانی عیسائیوں کیلئے ٹھیک نہیں رہا کہ اس سال کے اواخر میں مدر ٹریسا کی قائم کردہ مشنریز آف چیریٹی پر بیرونی ممالک سے عطیات حاصل کرنے کے معاملے میں پابندی عائد کردی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مشنریز آف چیریٹیز کے حساب کتاب میں معمولی سی غلطی پائی گئی اور اسی غلطی کو بنیاد بناکر پابندی عائد کردی گئی۔

کرسمس کے دن جو کچھ بھارت میں ہوا‘ وہ ناقابلِ معافی ہے۔ یہاں تک کہ اگر عیسائی شر پسندوں کو معاف کرنے کیلئے تیار ہیں‘ اس کے باوجود یہ شر پسند اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ حالیہ جو واقعات پیش آئے‘ ان پر ذرا سا غور کیجئے۔ مثال کے طور پر ہریانہ کے انبالہ میں ہولی ریڈیمر چرچ ہے۔ یہ گرجاگھر 1840ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کرسمس کے درمیانی شب جبکہ گرجا گھر کے دروازے بند کر دیے گئے تھے اور وہاں کوئی نہیں تھا‘ دو افراد گرجاگھر میں داخل ہوئے اور یسوع مسیح کا مجسمہ گرادیا اور پھر سانتاکلاز کی تصاویر کو جلا دیا۔ اس سے دو دن قبل پٹوڈی، گروگرام اور ہریانہ میں واقع گرجاگھروں میں داخل ہوکر عبادت میں مصروف عیسائیوں کو برا بھلا کہا گیا اور دعائیہ اجتماع میں خلل پیدا کیا گیا۔ ان لوگوں نے گرجا گھروں میں جاکر ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگائے۔ اب آگرہ چلتے ہیں۔ اترپردیش کا یہ شہر یادگارِ محبت ’’تاج محل‘‘ کے باعث سارے عالم میں شہرت رکھتا ہے۔ اسی شہر میں شرپسندوں نے مشنری کالجز کے سامنے نصب کیے گئے سانتاکلاز کی بے شمار تصاویر کو آگ لگا دی۔ بجرنگ دَل کے سیکرٹری جنرل نے اس طرح کی کارروائیوں اور غنڈہ گردی کو ’’منصفانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمارے بچوں کو یہ کہتے ہوئے اپنی جانب راغب کرتے ہیں کہ سانتاکلاز ان کیلئے تحفے تحائف لاتا ہے۔ اس طرح کے لالچ کے ذریعے وہ ہمارے بچوں کو عیسائی بنا لیتے ہیں۔ بجرنگ دَل کے اس عہدیدار نے یہ بات تو کہہ دی لیکن شاید وہ یہ کہنے میں ناکام رہے کہ مشنری کالجز نے کئی دہائیوں سے ہمارے ہزاروں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ یہ تو رہی بات اترپردیش کے آگرہ کی۔ آسام کے ضلع کاچر میں دو افراد‘ جو زعفرانی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے‘ کرسمس کی رات پریس بائٹیرن چرچ میں داخل ہوئے اور یہ مطالبہ کیا کہ گرجاگھر میں موجود تمام ہندو اس جگہ کو چھوڑ دیں۔ اسی طرح کرسمس کے دیگر اجتماعات میں بھی شر پسندوں نے گڑبڑ کی اور مشنریز مردہ باد کے نعرے لگائے۔

 2021ء کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں‘ خاص طور پر کرناٹک میں تبدیلیٔ مذہب کا بل منظور کیا گیا یا انسدادِ تبدیلیٔ مذہب کا مسودہ تیار کیا گیا جس کا مقصد عیسائیوں کو نشانہ بنانا تھا کیونکہ عیسائیت کے بارے میں اب ملک میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ ہندو اپنا مذہب ترک کرتے ہوئے عیسائیت قبول کررہے ہیں یا انہیں مختلف ترغیبات دے کر عیسائی بنایا جارہا ہے، حالانکہ اس طرح کے واقعات سے متعلق کوئی شواہد نہیں پائے گئے۔ بہرحال بھارت بھر کے مسلمانوں کے بعد اب عیسائی ان فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں اور یہ نفرت پر مبنی تقاریر اور بیانات کے ذریعہ غیرہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ چھ ماہ قبل دارالحکومت دہلی میں ’’سلی ڈیلس‘‘ نامی ایک ایپلی کیشن منظر عام پر آئی اور چند دن قبل ’’بلی بائی‘‘ نامی ایپلی کیشن ممبئی میں منظرِ عام پر لائی گیا۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے ممتاز مسلم خواتین کو آن لائن ’’نیلامی‘‘ کیلئے پیش کیا گیا۔ وہ ٹویٹر ہینڈل‘ جس نے اس ایپلی کیشن کو فروغ دیا‘ اس کیلئے سکھوں کے نام استعمال کیے‘ جیسے خالصہ‘ جتیندر سنگھ اور ہرپال‘ تا کہ تمام نفرت سکھوں کے خلاف پھیلے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کے ان سوداگروں کا اگلا نشانہ بھارت کی سکھ کمیونٹی ہے۔ مسلمان، عیسائی اور سکھ اُتنے ہی بھارتی ہیں جتنے ہندو۔ انہیں اپنے مذاہب پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر آپ بھارت کے دستور کی دفعہ 25 کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے لیکن دائیں بازو کے انتہا پسند گروپس مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کو چیلنج کررہے ہیں جو قطعی غیردستوری ہے؛ تاہم ان غیردستوری حرکات میں سرگرم عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے‘ اس کا انکشاف ہر ی دوار کے ’’دھرم سنسد‘‘ میں کی گئی تقاریر سے ہوتا ہے جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’اگر آپ ان(مسلمانوں) کا صفایا چاہتے ہیں تو انہیں قتل کر دو… ہمیں ایسے 100 سپاہیوں کی ضرورت ہے جو ان کے 20 لاکھ کو قتل کر سکیں… اپنے مقصد کے حصول کیلئے انہیں قتل کرنے یا خود قتل ہونے کیلئے تیار رہو کیونکہ ہمارے پاس دوسرا آپشن نہیں… ہر ہندو بشمول پولیس، فوج، سیاست دان کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کا صفایا اسی طرح کرے جس طرح میانمار میں کیا گیا‘‘۔ یہ باتیں نفرت پر مبنی تقریر سے کہیں بڑھ کر ہیں بلکہ ہم اسے قتلِ عام کہتے ہیں، یہ جو تقاریر ہیں‘ کسی پاگل کی بکواس نہیں۔ 6 جنوری 2021ء کو ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں مسٹر ہلال احمد کا ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں انہوں نے تفصیل سے یہ بتایا کہ مسٹر مودی نے کیوں اور کیسے بی جے پی ایجنڈے کی ازسرنو تشریح کی۔ کرسمس تقاریب میں خلل، نفرت انگیز تقاریر اور گندی ایپلی کیشنز‘ ان تمام پر وزیراعظم مودی نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے اس کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ مستقبل کیلئے تیار رہئے۔ تعصب غیرپابند ہوگا۔ یا تو خود آواز اٹھائیے وگرنہ آپ کیلئے بھی کوئی بولنے والا نہیں رہے گا۔

(بشکریہ: سیاست انڈیا)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement