اومی کرون اور امریکی ہیلتھ کیئر سسٹم
تحریر: کریگ سپینسر
اومی کرون کا سونامی نیویارک کے ساحلوں سے ٹکرا چکا ہے مگر اچھی خبر یہ ہے کہ اس ویری اینٹ سے کوئی شدید بیماری لاحق نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہمیں فرنٹ لائن پر کسی المناک صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں ایمرجنسی روم کا ڈاکٹر ہوں جو اومی کرون کے خلا ف جنگ میں مصروف ہے اور میں ویکسین کا شکر گزار ہوں جس کی وجہ سے میرے مریضوں کو مارچ 2020ء کے مقابلے میں بہت کم لائف سپورٹ کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اُس وقت مریضوں کو سنبھالنے کے لیے نرسز اور ڈاکٹرز کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ میرے بہت سے مریضوں کو اضافی آکسیجن کی ضرورت تھی اور زیادہ بیمار لوگوں کو وینٹی لیٹر پر لگانا پڑتا تھا جن میں سے کئی واپس نہ آ سکے۔ ہمارے ہاں وینٹی لیٹرز کی قلت پیدا ہو گئی تھی مگر مریض مسلسل آ رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اومیکرون کی یہ لہر اتنی شدید نہیں ہے کہ مجھے مریضوں کو وینٹی لیٹر پر ڈالنا پڑے اور مریضوں کی اکثریت کو آکسیجن لگانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔
اس وقت ہمارے پاس علاج کے اچھے اور سستے طریقے بھی دستیاب ہیں۔ سٹیرائیڈز اور دیگر ادویات میسر ہیں جو کووِڈ مریضوں کی زندگی بچانے میں مفید ثابت ہوئی ہیں۔ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ ناک کے ذریعے آکسیجن کا تیز رفتار بہائو بہتر نتائج دیتا ہے۔ اگرچہ ہمیں قلت کا سامنا ہے مگر اینٹی وائرل ادویات کی وجہ سے مریضوں کو ہسپتالوں میں داخلے کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی‘ اور سب سے زیادہ ریلیف ویکسین سے ملا ہے جو ویری اینٹ سے قطع نظر‘ مریضوں کو ہسپتال جانے سے تحفظ دے رہی ہے؛ تاہم ابھی زیادہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اس لیے اومیکرون کے مریضوں کا ہسپتالوں میں رش کم کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔ ہیلتھ ورکرز اور ہسپتالوں کی صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ صرف نیویارک کے ہسپتالوں میں چند ہفتوں کے دوران مریضوں کی تعداد تین گنا ہو گئی ہے۔ نیوجرسی میں بھی داخلوں کی شرح بلند ترین ہے۔ اس وقت تقریباً تما م ریاستوں میں ہسپتالوں پر دبائو بڑھ رہا ہے۔
جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے ان میں اومیکرون کی وجہ سے گلے میں سوزش یا معمولی تکلیف ہوتی ہے مگر ہمارے ہسپتال میں مریضوں کی حالت زیادہ ابتر ہے۔ حال ہی میں مجھے کووِڈ کے مریض دیکھنے کا اتفاق ہوا، ان میں سانس اور آکسیجن کی کمی کا مسئلہ تھا۔ وہ سب ویکسین کے بغیر تھے۔ مجھے ایسے عمررسید ہ مریض بھی ملے جو اتنے کمزور تھے کہ بیڈ سے ہل بھی نہیں سکتے تھے۔ ذیابیطس والے مریض بھی میرے زیر علاج رہے جن میں وائرس کی مہلک پیچیدگیاں پائی جاتی تھیں۔ مارچ 2020ء کے مقابلے میں اب میرے مریض زیادہ تکلیف میں نہیں ہیں مگر ہسپتال میں ان کے لیے آج بھی اتنی ہی جگہ درکار ہے۔ اس وقت کووڈ کے تمام مریضوں کو قرنطینہ کی ضرورت ہے تاکہ ان کا انفیکشن دوسرے مریضوں کو منتقل نہ ہو سکے اور ہیلتھ ورکرز کو بھی حفاظتی لباس پہننا پڑتا ہے۔
ہاں! ایسے مریضوں کی تعداد قلیل ہے جن میں وائرس پایا گیا ہے‘ مثال کے طور پر ایک ایسا مریض بھی تھا جس کا اپینڈکس کا اپریشن ہونا تھا مگر ٹیسٹ کرنے پر اس کا کورونا پازٹیو نکلا لیکن انتظامیہ کو اپنے مریضوں کی دیکھ بھال توکرنی ہے‘ اس لیے مریضوں کے داخلے کے وقت یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہسپتال میں بیڈز دستیاب ہیں یا نہیں یا اس میں وائرس ہے یا نہیں۔ اس وقت ہسپتال آنے والے مریضوں میں کورونا مثبت آنے کی شرح جتنی زیادہ ہے وہ سب سے زیادہ وہاں خدمات انجام دینے والے ہیلتھ ورکرز میں انفیکشن پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں انہیں سائیڈ لائن کرنا پڑ رہا ہے‘ ماضی میں ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جب مارچ 2020ء میں ہمیں کورونا وائرس کی پہلی لہر کا سامنا تھا اس وقت چاروں طرف ایک ہی شور تھا کہ ہمیں ماسک اور گائون مہیا کرو۔ جب کووڈ مریضوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا تو ہمیں ان کے علاج کے لیے خیموں، سپورٹس سٹیڈیمز اور پانی میں کھڑے بحری جہازوں میں عارضی سنٹرز بنانا پڑے۔ اس وقت ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ قلت محسوس ہو رہی ہے وہ ہیلتھ کیئر پرو وائیڈرز ہیں۔ سپلائز اور جگہ سے زیادہ ہمیں کوالیفائیڈ سٹاف کی ضرورت ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ فرنٹ لائن پر خدمات انجام دینے والے میرے تمام کولیگز کو ویکسین لگ چکی ہے اس لیے مجھے اب یہ فکر نہیں ہے کہ مجھے انہیں بطور مریض ایمرجنسی رومز میں آتے یا مرتے ہوئے دیکھنا پڑے گا جیسا کہ 2020ء والی لہر کے دوران ہوتا رہا، مگر اکثر ہسپتالوں میں ملازمین کورونا وائرس کے انفیکشن سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکا کے کئی ہسپتال اپنی 15 فیصد سے زیادہ ورک فورس سے محروم ہو چکے ہیں۔ جب کبھی ہیلتھ کیئر ورکر بیمار ہوتا ہے تو اس کی جگہ شفٹ میں دوسرا ورکر آ جا تا ہے مگر اب تو ہم بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ سنٹر فار ڈیزیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی تازہ ترین گائیڈ لائن میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہیلتھ ورکرز کے لیے اپنی ملازمت پر جلد واپسی کے لیے قرنطینہ کی مدت بھی کم کر دی گئی ہے۔ اس سے سٹاف کی قلت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا مگر کیلیفورنیا اور رہوڈز آئی لینڈ جیسی ریاستوں میں سٹاف کی قلت کا مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ وہاں ہنگامی پلاننگ کرنا پڑ رہی ہے اور ہیلتھ ورکرز کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود ڈیوٹی پر واپس آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
بڑی تعداد میں کورونا سے متاثرہ نرسز اور ڈاکٹرز کو مریضوں کے علاج کے لیے بھیجنا اس اصول سے مطابقت نہیں رکھتا کہ ’’پہلی بات یہ کہ کوئی نقصان نہ کرو‘‘۔ مگر پھر اس کا متبادل یہی ہے کہ مریضوں کو علاج کے لیے طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اس سے بھی بدتر صورت یہ ہو گی کہ وہاں علاج کے لیے کوئی ہیلتھ ورکرز دستیاب ہی نہیں ہو گا۔ کووڈ کو آئے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں مگر ہمیں آج بھی ایسے فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ کم سہولتوں کا مطلب کم بیڈز ہیں کیونکہ ان مریضوں کی تعداد ابھی بہت زیادہ ہے جن کا ڈاکٹروں کی ٹیم علاج کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علاج کی رفتار سست ہے اور مریضوں کو ایمرجنسی رومز میں زیادہ وقت گزارنا ہوگا اور اس سے بھی بڑی تعداد کو ویٹنگ رومز میں انتظار کرنا ہو گا۔ ’’ڈومینو ایفکیٹ‘‘ کا اثر ہمیں پورے ہیلتھ سسٹم میں نظر آئے گا۔ نرسوں کی تعداد میں کمی سے لے کر 911 کالز پر جانے والی ایمبولینسز کی کمی تک‘ ہر چیز کی قلت پیدا ہو گی اور سب کو زیادہ وقت تک انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے گا۔
اگرچہ اومیکرون ایسا ویری اینٹ ہے جس سے بیماری کے مہلک اثرات مرتب نہیں ہوتے مگر ہمارے ہیلتھ سسٹم کے ناکام ہونے کا رسک اپنی جگہ موجود ہے۔ آنے والے دنوں میں اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ اعلیٰ کوالٹی کے ماسک کی ضرورت ہو گی، طبیعت خراب ہونے کی صورت میں گھر پر رکنا پڑے گا، ویکسین یا بوسٹر لگوانے کی ضرورت ہو گی تب جا کر ہسپتالوں اور ہیلتھ ورکرز پر کام کا رش کم ہو گا۔ اگرچہ یہ مارچ 2020ء جیسی صورتحال نہیں ہے مگر ہمیں اسے زیادہ سنجیدگی سے لینا ہو گا۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)