ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ٹرمپ کا دورِ سیاست اور ذہنی صحت

تحریر: میشل گولڈ برگ

گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی سیاست کی مکروہ صورت نے میری راتوں کی نیند اڑائے رکھی مگر کچھ عرصے سے میں سوچتی ہوں کہ میں تو اس سے الگ تھلگ ہی رہی تھی۔ حتیٰ کہ جب میں نے یہ لکھا تھا کہ سیاسی مایوسی ڈیمو کریٹس کے لیے ایک مسئلہ ہے تو میرا خیال تھا کہ اس بات کا اطلاق صرف ایسے متحرک ووٹرز پر ہی ہوتا ہے جو اس وقت اپنا زیادہ وقت خاموشی سے سینیٹر جو مانچن کو لعنت ملامت کرکے گزار رہے ہیں۔ مگر نبراسکا یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے سربراہ کیون سمتھ کی ایک حیران کن سٹڈی کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد‘ جو سیاست کو ایک عذاب اور اذیت سمجھتے ہیں‘ ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ ’’سیاست دیرینہ سٹریس کا ایک جاذب اور ناگزیر ذریعہ ہے جس کی وجہ سے 2017ء سے 2020ء کے دوران امریکی بالغ شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی صحت کی بھاری قیمت چکانا پڑی‘‘۔

سمتھ کی سٹڈی کا موضوع تھا ’’سیاست ہمیں بیمار کر رہی ہے، ٹرمپ دورِ حکومت کے دوران سیاسی شراکت کے صحت عامہ پر منفی اثرات‘‘۔ 2020ء کے الیکشن نے ان اثرات کو کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔ ان کی سٹدی کہتی ہے کہ ’’40 فیصد سے زائد امریکی شہری سمجھتے ہیں کہ سیاست ان کی زندگیوں میں سٹریس کی اہم وجہ ہے‘‘۔ اس بات کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے پانچ فیصد نے سیاسی ہلچل کی وجہ سے خود کشی کے بارے میں بھی سوچا۔ سمتھ نے مجھے بتایا کہ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ تعداد پڑھی تو اس شرح کے بارے میں کچھ مشکوک تھا اور ابھی تک ایک تذبذب کا شکار ہوں مگر تین متواتر سروے میں یہ شرح اتنی ہی رہی۔

میں کچھ وجوہ کی بنا پر سمتھ کی سٹڈی کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ اس کی پہلی وجہ ہمارا دو جماعتی سیاسی نظام ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے ووٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں سیاسی سٹریس نے ان کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے مگر حیران کن طور پر ڈیمو کریٹس کی صحت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ جب ٹرمپ وائٹ ہائوس میں تھے تو ان شہریوںکے غصے اور اشتعال میں مزید اضافہ ہوتا تھا مگر میں نہیں سمجھتی کہ یہ ابھی تک چل رہا ہو گا۔ دائیں بازو کی نفرت کے ہوتے ہوئے سیاست مشتعل ڈیمو کریٹس کی بے بسی کا جتنا بڑا تماشا بن گئی ہے اتنا ہی مجھے ڈر ہے کہ لوگ اپنے تحفظ کے اس وسیلے سے لاتعلق ہو جائیں گے لیکن سیاست کے اس کردار میں بھی میری دلچسپی ہے جو وہ امریکی عوام کی ذہنی صحت کی تباہ کن صورت حال میں ادا کر رہی ہے۔ ہمارے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک وسیع تر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ یہ ملک نفسیاتی لحاظ سے ایک منفرد جگہ ہے۔

یو ایس اے ٹو ڈے اور یونیورسٹی آف سفوک کے ایک حالیہ پول سے پتا چلا ہے کہ ہر 10 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 9 ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں ذہنی صحت کا ایک بحران پایا جاتا ہے۔ یہ بحران ہر طرح سے اپنا اظہار بھی کر رہا ہے جو نوجوانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان، ریکارڈ سطح کی منشیات کے استعمال، سڑکوں پر ہونے والے تشدد، بچوں کے تھراپسٹس کے انتظار میں لگی لمبی قطاروں اور ماسک کے استعمال میں کمی کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ میں عرصے سے اس بات پر غور کر رہی ہوں کہ کووڈ کی وجہ سے پائی جانے والی نفسیاتی بے چینی بھی امریکی سیاست میں بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے؛ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار کام ملنے اور امریکی سیاست کی بدنمائی کی وجہ سے عوام کی نفسیات پر اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سمتھ نے پہلی مرتبہ مارچ 2017ء میں 800 شہریوں پر سیاست اور ذہنی صحت کے حوالے سے ایک ماڈل سروے کیا تھا۔ جیسا کہ اس نے اس سروے کے بعد 2019ء میں ایک اخبار میں لکھا بھی تھا کہ اس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سیاست کی وجہ سے ایک شدید ذہنی اذیت میں مبتلا پایا۔ 40 فیصد شہریوں نے یہ کہا کہ وہ سیاست کی بدولت سخت ذہنی اذیت کا شکار ہیں‘ ان کے علاوہ بیس فیصد سے زائد نے کہا کہ وہ اپنی نیند سے محروم ہو چکے ہیں، ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہیں یا وہ سیاست کی وجہ سے ڈپریشن میں جا رہے ہیں۔ ان میں سے کم از کم 25 فیصد شرکا نے بتایا کہ ان کے اندر خود کُش اور جابرانہ رویہ پروان چڑھ گیا ہے اور وہ ایسی باتیں کہہ یا لکھ جاتے ہیں جن کا انہیں بعد میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ ان سے غلط فیصلے ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی اہم ترجیحات کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں۔ 

ایک وقت تھا کہ جب سمتھ کو لگتا تھا کہ یہ شاید ٹرمپ کے صدر بن جانے کے صدمے کا نتیجہ ہے مگر اس نے نومبر اور اکتوبر 2020ء میں جو اگلے دو سروے منعقد کرائے ان میں بھی بالکل ایسی ہی مایوسی ابھر کر سامنے آئی۔ شاید اس وقت لوگ ایک سیاسی بخار میں مبتلا تھے۔ اگر سمتھ نے یہی سروے 2018ء اور 2019ء میں کیے ہوتے تو شاید اسے اس سے کم سیاسی منافرت نظر آتی۔ اس کے باوجود اس کے انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے کروڑوں کی تعداد میں امریکی شہری موجود ہیں جو خود کو اس سیاسی ماحول میں بے بس اور مجبور پاتے ہیں۔ کچھ لحاظ سے یہ بات عجیب بھی دکھائی دیتی ہے۔ 

عوام کی بڑی تعداد بے کار اور فضول نہیں ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت ٹویٹر کااستعمال نہیں کرتی جو ہر وقت مائکرو لیول پر سیاسی خبریں چلاتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ الیکشن کے سال میں بھی لوگوں کی اکثریت امریکا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے کیبل نیوز چینل فاکس نیوز پر کامیاب پرائم ٹائم ٹاک شوز کے بجائے ’’ڈانسنگ وِد دا سٹارز‘‘ دیکھنے کو ترجیح دیتی رہی۔ وہی بات جو سیاسی تجزیہ کاروں یانا کروپنیکوف اور جان بیری ریان نے نیویارک ٹائمز میں لکھی ہے کہ ’’80 سے 85 فیصد تک لوگ سیاست میں محض جز وقتی دلچسپی رکھتے ہیں یا انہیں سرے سے سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہوتا‘‘۔ سمتھ کو ان سے کوئی اختلاف نہیںہے مگر اس کا خیال ہے کہ جو لوگ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے وہ بھی سیاست کی پھیلائی ہوئی نفرت، انتشار اور بے عملی سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میرے ذہن میں ابھی تک یہی بات چل رہی ہے کہ سیاست سے بچنا محال ہے۔ یہ ہماری زندگیوں کے بیک گرائونڈ شور کا لازمی حصہ ہے‘‘۔

بلاشبہ ایک سیاسی تجزیہ کار اور لبرل کالم نگار کے طور پر میں آپ کو یہی بتائوں گی کہ خود کو اس شور سے مکمل لاتعلق کر لیں۔ ایک مٹتی ہوئی سلطنت‘ جس کے سیاسی ادارے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں‘ میں زندہ رہنا ایک تکلیف دہ امر ہے۔ اس کا کوئی انفرادی حل نہیں ہے کیونکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہاں یہی خوفناک مخمصہ ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال کی افسردگی کے خاتمے کے لیے ہمیں مزید سیاست میں الجھنا پڑے گا۔ اگر ایسے میں آپ کو خود کشی کے خیالا ت آتے ہیں تو ’’سپیکنگ آف سوسائڈ ڈاٹ کام پر ہر طرح کے وسائل میسر ہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement