ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر جوبائیڈن کے ’’کووِڈ دوست‘‘ مخالفین

تحریر: پال کرگمین

صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہائوس میںاپنا پہلا سال ایسے حالات میں مکمل کیا ہے کہ پولز کے مطابق مختلف مسائل سے نمٹنے کے طریقۂ کارکی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ بلاشبہ امریکی عوام ان کے سیاسی اقدامات پر ہونے والے تبصرے سن رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کانگرس میں ڈیموکریٹس کی معمولی اکثریت کے ہوتے ہوئے عوام نے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ میرے خیال میں جس امر پر زیادہ زور نہیں دیا گیا‘ وہ یہ ہے کہ جس طرح کووڈ نے مسلسل اپنے حملے جاری رکھے ہیں‘ اس سے بائیڈن کی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا ہے؛ حالانکہ کووڈ جیسی ناخوشگوار حقیقت کی ذمہ داری ان پر ڈالنا مناسب نہیں۔ ہاں! عوام کو واضح پیغام دیا جا سکتا تھا، انہیںوافر مقدار میں ماسک اور ٹیسٹوں کی سہولت فراہم کی جا سکتی تھی، مگر کووڈ کے بارے میں صدر بائیڈن کی سب سے سنگین غلطی اپنے حریفوں کی سنگدلی اور ہٹ دھرمی کے بارے میں غلط اندازے لگانا تھا جنہوں نے امریکا کی کووڈ سے نمٹنے کی ہر کوشش کو مقدور بھر نقصان پہنچایا ہے۔

کووڈ سے نمٹنے کی کوششوں سے متعلق سیاست پر بات کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ ہم پہلے کووڈ کی وجہ سے اپنی قوم کے موڈ کی مستقل پرتوں پر بات کر لیں۔ ان میں سے کچھ اثرات بالکل واضح اور براہِ راست ہیں۔ یقینا عوا م کی اکثریت کو اگر کووڈ نہیں بھی ہوا‘ پھر بھی وہ ان لوگوں کو ضرور جانتے ہیں جو کووڈ کی وجہ سے شدید بیمار یا فوت ہوئے ہیں۔ مزید برآں کووڈ کسی نہ کسی حوالے سے آج بھی ہماری زندگیوں میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اکثر والدین کے لیے سکولوں کا بند ہونا ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر ممالک میں سکول کھل چکے ہیں۔امریکی سینسس بیورو کے حالیہ ہائوس ہولڈ پلس سروے کے مطابق 8.7 ملین امریکی آج بھی کورونا سے بیمار ہونے یا اپنے کسی قریبی بیمار عزیز کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے۔ 3.2 ملین امریکی وائرس سے متاثر ہونے یا اس کے پھیلنے کے خوف سے کام نہیں کر رہے۔

کووڈ امریکی قوم کے معاشی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک دوسرے کو براہ راست چھونے کے خوف کی وجہ سے صارفین نے سروسز کے بجائے اپنا پیسہ اشیائے صرف پر خرچ کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے سپلائی چین پر دبائو بڑھ گیا اور افراطِ زر کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا۔ کووڈ کی سنگینی کا سامنا کرنے والے ورکرز میں انفیکشن اور کام کی تھکان وہ اہم عوامل ہیں جو لیبر کی قلت اور اس کے نتیجے میں افراط زر میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حالیہ سرویز کی حیران کن بات یہ ہے کہ بیروزگاری میں کمی ہونے کے باوجود عوام معیشت کے بارے میں منفی تاثر کیوں رکھتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ افراطِ زر میں اضافے نے لوگوں کی تنخواہوں کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن جارج بش نے بھی 1988ء میں بڑی مضبوطی سے معیشت چلائی تھی حالانکہ اس وقت تنخواہو ں کی حقیقی ویلیو رونلڈ ریگن کی دوسری مدت صدارت سے بھی نیچے گر گئی تھی۔ میرے سمیت کئی دیگر تجزیہ کاروں نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے کہ امریکی عوام میں اپنی مالی صورت حال اور بگڑتی ہوئی معیشت کے تخمینے کے بارے میں گہرا تفاوت پایا جاتا ہے اور یہ ایک مثبت پہلو ہے۔ اس حوالے سے دو جماعتی نظام ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ آج کی معیشت اتنی ہی خستہ حالت میں ہے جیسے یہ 2009ء میں ہوا کرتی تھی‘ جب ہم ہر مہینے تقریباً سات لاکھ ملازمتوں سے محروم ہو رہے تھے۔

شاید کووڈ نے بھی ہمارے تاثرکو کمزور کر دیا تھا۔ عمومی بے چینی سے ہٹ کر بھی لوگ جب دکانوں کو بند اور آفس بلڈنگز کو خالی دیکھتے ہیں تو اس سے انہیں حالات حقیقت سے بھی زیادہ گمبھیر نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ حوصلہ شکن پہلو یہ ہے کہ 2021ء کا سال اس امید پر شروع ہو اتھا کہ کرشماتی ویکسینز کووڈ کا خاتمہ کر دیں گی۔ بیماری کی پیچیدگیوں کے خلاف ویکسین کے موثر ہونے کے باوجود ان ممالک میں بھی ایسا نہیں ہو سکا جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے۔ امریکا میں تو حالات اور بھی بدتر ہیں کیونکہ یہاں ویکسین لگے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ ویکسین لگانے کا آغاز تو زبردست تھا مگر بعد میں امریکا دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا۔ اگرچہ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں کہ لوگ ویکسین لگوانے میں کیوں ناکام رہے؟ ہمارے ہاں اس کی اہم وجہ سیاست ہے۔ جن ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے‘ وہاں تو ویکسین لگنے کی شرح دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسی ہے مگر ریپبلکن اکثریت والی ریاستوں میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ آخر ریپبلکن پارٹی والے ویکسین لگوانے سے کیوں انکار کرتے ہیں؟

اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ مسلسل دائیں بازو کے حامی میڈیا سے غلط انفارمیشن حاصل کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کے حامی سیاست دان آہستہ آہستہ ویکسین لازمی لگوانے کے مخالف ہونے سے اب ویکسین کے کٹر مخالف بن گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست فلوریڈا کی اورنج کائونٹی کے ایک میڈیکل ڈائریکٹر کو محض اس وجہ سے جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا کہ وہ سٹاف کو ویکسین لگوانے کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا حالانکہ وہ ویکسین لازمی لگوانے کے لیے نہیںکہہ رہا تھا۔ آخر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ ویکسین کے اس قدر خلاف کیوں ہے؟ کیا انہوں نے اس کے خلاف ثبوتوں کا اچھی طرح سے مشاہدہ کر لیا ہے؟ ان کی اس مخالفت کا بظاہر ایک ہی محرک نظر آتا ہے کہ ڈیمو کریٹس اپنی کسی پالیسی پر عمل درآمد کرنے میں کہیں کامیاب نہ ہو جائیں۔ کیا یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ دائیں بازو کی کئی معروف شخصیات صورتحال کو سنگین تر بنانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں عوام صدر جو بائیڈن کو ہی موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ کسی بھی صدر کے دورِ حکومت میں اگر کوئی بات غلط ہو جائے تو عوام کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس صدر کے خلاف الزام تراشی کی جائے مگر وہ بھی پوری مستعدی سے اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔

  1948ء میں ہیری ٹرومین نے ’’کچھ نہ کرنے والے‘‘ ان ریپبلکنز کے خلاف ایک کامیاب مہم چلائی تھی جو ان کے معاشی اور ہائوسنگ ایجنڈا کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صدر جو بائیڈن کے پاس تو ریپبلکنز کے خلاف ایسی مہم چلانے کا ایک ٹھوس جواز موجود تھا جن کا ویکسین مخالف موقف ہماری معیشت اور ہزاروں امریکی شہریوں کی زندگیوں کو رسک پر لگا رہا ہے۔ کیا یہ مہم کارگر بھی ثابت ہو گی؟ کوئی نہیں جانتا! مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کی مصالحت پسندی اور قوم کو متحد رکھنے کی کوشش کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی۔ صدر بائیڈن کو بھی اب سامنے آ کر بھرپور انداز میں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement