ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان خواتین سڑکوں پر

تحریر: ڈیوڈزکینو

جنوری کی ایک صبح خجستہ الہام برفانی طوفان میں ایک سرکاری رجسٹر میں اپنے دستخط کرنے کے لیے گئی۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے پہلے خجستہ افغانستان کے سول سروس کمیشن کے ویمن پروگرام کی ڈائریکٹر تھیں مگر طالبان کی امارت میں خجستہ اور بہت سی دیگر خواتین کو دفتر آنے سے روک دیا گیا۔ خجستہ الہام‘ جنہیں اگست سے تنخواہ نہیں ملی‘ کو اب کہا جا رہا ہے کہ مہینے میں ایک مرتبہ دفتر میں دستخط کرنے کے لیے آیا کریں تاکہ طالبان کو اس امر کی تردید کا موقع مل سکے کہ انہوں نے تمام سرکاری خواتین ورکرز کو برطرف کر دیا ہے۔ اب تو جو تھوڑی بہت امید باقی تھی‘ وہ بھی دم توڑ چکی ہے کہ وہ کبھی ملازمت پر واپس آ سکیں گی۔ ہیومین رائٹس واچ کے مطابق ان خواتین ورکرز کی برطرفی نے خجستہ جیسی خواتین کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا ہے جہاں انہیں گرفتاری اور تشدد کا خدشہ ہے۔ طالبان گن مین ان پر اسلحہ تانے کھڑے تھے، ان پر مرچوں کا سپرے کیا گیا اور انہیں نامناسب القابات سے نوازا گیا۔ ان خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور وہ انہیں پبلک لائف سے غائب کرنے کے عمل کی مزاحمت کر رہی تھیں۔ ایسے احتجاج شاید ہی کبھی طول پکڑیں۔ طالبان انتظامیہ خواتین کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہے۔ ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف نامناسب ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ خجستہ اور دیگر خواتین کا موقف ہے کہ انہیں انٹیلی جنس حکام کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں کہ خاموش ہو جائیں یا پھر سخت نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔ خجستہ نے ایک انٹیلی جنس افسر کے بارے میں بتایا جو اسے مظاہرہ ختم کرنے کا حکم دے رہا تھا ’’اس نے مجھے کہا کہ کیا میں جانتی ہوں کہ ان کے پاس میرے جیسے لوگوں کے لیے جیلیں بھی ہیں‘‘۔

طالبان انسانی بنیاد پر امدا د اور سفارتی طور پر تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ امریکا، دیگر ممالک اور عالمی ادارے ان پر زور دے رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ ناروے کے شہر اوسلو میں شروع ہونے والے مذاکرات میں طالبان وفد کے ساتھ اس طرح کے ایشوز پر ہی بات چیت ہو گی۔ طالبان کے قبضے کا سب سے ڈرامائی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی حملے کے بعد سے خواتین کے حقوق اور بہبودکے لیے جتنی بھی پیشرفت ہوئی تھی‘ وہ بے کار چلی گئی ہے۔ خواتین سکول اور یونیورسٹی جا رہی تھیں، پارلیمنٹ اور حکومتی اداروں میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ وہ فوج اور پولیس فورس میں کام کر رہی تھیں۔ وکلا اور ججز کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔ ایک موقع پر خواتین حکومت کی ورک فورس کا 25 فیصد تک ہو گئی تھیں مگر اب طالبان نے صرف خواتین میڈیکل ورکرز اور لیڈی ٹیچرزکی محدود تعداد کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگست کے بعد گریڈ 6 کی کوئی لڑکی اپنے سکول نہیں گئی۔ ستمبر میں طالبان حکومت نے ویمن افیئرز کی وزارت کے دفتر کو مذہبی پولیس کے دفاتر میں تبدیل کر دیا۔ پچھلے مہینے سے طالبان حکومت نے خواتین کو کسی مرد کے بغیر طویل سفر کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور وہ حجاب کے بغیر کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کر سکتیں۔ 

طالبان نے احتجاج کرنے والوں کو بھی اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ خجستہ اور دیگر خواتین کہتی ہیں کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ اپنے محفو ظ ٹھکانے تبدیل کرتی رہتی ہیںاور آپس میں بھی اینکرِپٹڈ فون ایپس پر ہی بات کرتی ہیں۔ ایک معروف ایکٹوسٹ رخسانہ رضائی کہتی ہیں کہ جب انہیں دھمکی آمیز فون کالز ملنے لگیں تو ایک مرتبہ مجھے مردوں کا بھیس بدل کر چیک پوسٹ سے گزرنا پڑا مگر وہ مسلسل احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر رہی ہیں۔ ایک حالیہ وڈیو میںدیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اہلکار انہیں بازو سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا اور وہ اس سے بازو چھڑاکر نکل گئیں۔ رخسانہ رضائی نے بتایا ’’اب ہم زیادہ خوفزدہ ہو گئی ہیں۔ وہ ہمارے وقار اور حقوق کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیںہیں‘‘۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے کے لیے پیشگی اجازت لازمی ہے مگر رخسانہ کا کہنا تھا کہ جب ہم اجازت مانگتی ہیں تو ہمیں اجازت نہیں دی جاتی اور نہ کبھی وہ اجازت دیں گے۔ افغان پاور فل ویمن موومنٹ کی لیڈر ظریفہ یعقوبی نے بتایا کہ حجاب کا حکم جاری ہونے کے تین دن بعد 19جنوری کوتین خواتین کو گن پوائنٹ پر کابل میں ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا۔ ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ مسلح افراد ان خواتین کو رات کے وقت اٹھا کر لے گئے تھے۔ ظریفہ یعقوبی نے مزید بتایا کہ ان دو خواتین کے نام تمنا زریاب پریانی اور پروانہ ابراہیم خیل تھے۔ پریانی کی تین بہنیں بھی غائب ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے اہل خانہ سے براہ راست ملنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں دکھائی دے رہا ہے کہ پریانی مدد کے لیے پکار رہی تھی اورچیخ رہی تھی کہ اس کے گھر پر حملہ کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے ان خواتین کو حراست میں لیے جانے کی مکمل تردید کی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے بتایا ہے کہ پریانی کی وڈیو خود ساختہ ہے جسے عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے پوسٹ کیا گیا ہے۔ کابل پولیس کے ایک ترجمان جنرل مبین خان نے خواتین کے غائب ہونے کی رپورٹس کے بارے میں کہا ہے ’’یہ جھوٹ بول رہی ہیں اور میں اس سلسلے میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ ایک فالو اَپ کال میں جنرل مبین خان نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ جو بھی عوام میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا‘ اسے گرفتار کیا جائے گا۔ اس حوالے سے تمام سکیورٹی فورسز کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے انتشار پسندوںکو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں پیش کریں۔

افغانستان میں خواتین کے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈائون نے عالمی سطح پر ہیومین رائٹس تنظیموں میں ایک تشویش پیدا کر دی ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس سے افغانستان میں پُرامن احتجاج اور آزادیٔ اظہار کی کوششوں کو غیر قانونی طور پر دبانے کی عکاسی ہو رہی ہے۔ کابل میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں گمشدہ خواتین کے بارے میں فوری طور پر معلومات فراہم کریں۔ ویمن رائٹس ایکٹوسٹس اور ہیومین رائٹس گروپس نے طالبان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مغربی شہر ہرات کے جیل کی ایک ملازمہ عالیہ عزیزی کی گمشدگی کے بارے میں بھی انہیں معلومات فراہم کی جائیں۔ عالیہ عزیزی 2 اکتوبر کو اپنی ڈیوٹی پرگئی تھیں مگر پھر کبھی گھر واپس نہیں آئیں۔

ہیومین رائٹس واچ میں ویمن رائٹس کی ایسوشی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی طرف سے انتہائی کمزور ردعمل سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے نیوز میڈیا کے خلاف طالبان کے کریک ڈائون میں مزید شدت آ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ طالبان محسوس کرتے ہیں کہ اب احتجاج کا یہ سلسلہ روکنے کی ضرورت ہے اس کے لیے خواہ کتنا ہی سخت اقدام کیوں نہ کرنا پڑے‘‘۔

(بشکریہ: نیو یارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement