ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

انسانی صحت میں جانوروں کا کردار …(1)

تحریر: برینڈن کیم

جب 2021ء کے موسم بہار میں لورین سٹروہیکر نے کووڈ 19کی ویکسین کی دوسری ڈوز لگوائی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس کے خیال میںکورونا ویکسین لگوانے کا مطلب تھا کہ اب وہ دوبارہ اپنے تمام دوستوں سے بلاخوف مل سکتی ہے، میوزک سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی کنسرٹ میں شرکت کر سکتی ہے اور اب وہ اس خوف کے بغیر بھی اپنی زندگی گزار سکتی ہے کہ کورونا کی وبا سے ہونے والا انفیکشن اسے جسمانی یا مالی طور پر تباہ کر سکتا ہے، مگر پھر کیا ہوا کہ یہی خوشی اس کی تلخ و شریں یادوں کا دائمی حصہ بن گئی۔ لورین سٹروہیکر کو یہ ویکسین لگوائے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ امریکی ریاست ٹینسی کے مشرقی حصے میں رہنے والی اس آرٹسٹ نے ان بندروںکے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا جن پر کووڈ کی نئی ویکسین کے آزمائشی ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ اس کے اپنے الفاظ میں ’’مجھے خیال آیا کہ میں تو اس تکلیف دہ سوئی سے خوف زدہ تھی اور ان جانوروں کو اس آزمائش کے پورے دور میں اسی تکلیف کا سامنا رہا ہو گا‘‘۔

 لورین ہر وقت اسی خیال میں ڈوبی رہتی کہ اس وقت اسے گھومنے پھرنے، دوستوں سے ملنے او رمیوزک سے لطف اندوز ہونے کی جو آزادی ملی ہے اس کی قیمت بے چارے ان جانوروں نے اپنی قربانی دے کر ادا کی ہے جنہیں اس ویکسین کی تیاری کے دوران تکالیف یا موت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ اسے احساس ہونے لگا کہ اس ویکسین کی تیاری میں قربانی دینے پر محض ان جانوروں کا شکرگزار ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ لورین سٹروہیکر انہیں شکریے کے طور پر کوئی ایسی شے واپس دینا چاہتی تھی جو سب دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے۔ اس نے ان جانوروںکی قربانی کا بدلہ اتارنے کیلئے ایک آن لائن ریسرچ فنڈ قائم کیا جس کا مقصد لیب کے ان ریٹائرڈ جانوروں کی بہبود کے لیے کام کرنا تھا اور سب سے پہلے اس نے خود اپنی جیب سے ان جانوروں کے لیے عطیہ دیا اور کہا کہ ’’یہ بہت ہی کم ہے جو میں ان جانوروں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کر سکتی ہوں‘‘۔

اس کا یہ اقدام دراصل وہ پہلی آواز تھی جو اکثر بائیو میڈیکل ریسرچ میں استعمال ہونے والے جانوروں کے لیے ہونے والے مذاکروں میں سنائی نہیں دیتی۔ ریسرچ کے مخالفین ایسے مواقع پر تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر اخلاقی اقدام ہے اور ان فوائد کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے جبکہ اس کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ریسرچ کے بے شمار فوائد ہیں اور اس طرح جانوروں کو پہنچنے والے نقصان کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ جانوروں پر آزمائے بغیر تیار ہونے والی ادویا ت اور دیگر سیفٹی پروڈکٹس نے یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ کئی کیسز میں جانوروںکے استعمال سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ مگر ایسا ہونے میں شاید ابھی کئی سال لگ جائیں اور کئی ریسرچرز تو کہتے ہیں کہ آنے والے دور میں ٹیسٹنگ کے لیے جانوروں کا استعمال بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ جب تک جانوروں کا استعمال جاری ہے تو یہ سوال موجود رہے گا کہ ’’کیا انسان ان جانوروں کے احسان مند ہیں؟‘‘۔

یونیورسٹی آف نیو میکسیکو کے سائیکالوجی کے پروفیسر امریطس جان گلک‘ جن کے بندروں پر تجربات سے ہونے والے احساسِ اذیت نے انہیں ایک بائیو ایتھِک ایکسپرٹ بننے پر مجبور کر دیا تھا‘ کا کہنا ہے کہ ’’اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ اگر میں ریسرچ کا کوئی اچھا پلان بناتا ہوں تو میرے ذہن میں آئیڈیا ہے کہ میں ان جانوروں کا ہر ممکن خیال رکھنے کے لیے ان کی رہائش کا بندوبست کروں گا اور پھر میں اپنے تعلق کے حوالے سے کام کروں گا۔ میںسمجھتا ہوںکہ اس میں وسائل کی عدم دستیابی اہم رکاوٹ ہو سکتی ہے‘‘۔ اس تناظر میں سائنس دان عام طور پر تین R کا حوالہ دیتے ہیں جو جانوروں پر تجرباتی ریسرچ کے لیے رہنمائی فراہم کرنے والے اصول وضوابط کا ایک سیٹ ہے جسے سب سے پہلے 1959ء میں ایک ماہر عمرانیات ولیم رسل نے ریکس برچ کے ساتھ مل کرپیش کیا تھا جو پیشے کے اعتبار سے ایک مائکرو بیالوجسٹ تھے۔ ریسرچرز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ اگر ان کے پاس جانوروںکا متبادل موجود ہو تو وہ اسے استعمال کرنے کو ترجیح دیں، جانوروںکا کم سے کم استعمال کریں اور اپنی ریسرچ کا معیار اتنا عمدہ کر لیںکہ جانوروںکو کم سے کم تکلیف اور مشکل پیش آئے۔ اگر انسانوںکو ملنے والے فوائد کو پیش نظر رکھیںتو جانوروں کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ مثلاً کووڈ کی ویکسین تیار کرنے میں اتنی تیزی اس لیے دکھائی گئی کیونکہ جانوروں کی مدد سے mRNA ویکسین ٹیکنالوجی پر پہلے ہی کئی عشروں سے کام جاری تھا جبکہ چوہوں اور بندروں پر اس کے آزمائشی تجربات بھی ہو چکے تھے۔ بیس کروڑ انسانوں کی جانیں بچانے کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اربوں ڈالرز کی آمدنی بھی حاصل کی جا چکی تھی۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کیا اس میں چوتھے R کا بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے؛ یعنی ری پیمنٹ۔ ریسر چ کمیونٹی میں ری پیمنٹ کے اشارے پہلے سے موجود ہیں۔ خاص طور پر ان لیبارٹریوں میںجو جانوروںکا انتظام کرتی ہیں۔ عام طور پر ان بندروں کا‘ جنہیںاستعمال کرنے کے بعد محفوظ پناہ گاہوں میںبھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں تک کتوں اور چوہوںکا تعلق ہے‘ انہیں بعض اوقات پالتو جانوروں کے طور پر رکھ لیا جاتا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں قائم لیبارٹری اینمل ریسورسز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر لارا کونر‘ جو پیس ایبل پرائمیٹ سینکچوئری میں ریٹائر ڈ جانوروں کا انتظام کرتی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک طرح سے کرما کی طرح کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح سے کسی حد تک توازن قائم ہو جاتا ہے‘‘۔ سکول نے کئی جانور پالتو جانوروں کے طور پر پرائیویٹ لوگوںکے حوالے کیے ہیں اور ان کے لیے خود ویٹرنری کیئر کے انتظامات کیے ہیں۔

عام طورپر ایسے جانوروںکو مار دیا جاتا ہے ایسی صورت میں انہیں پالتو جانور کے طور پر اڈاپٹ کر نا کوئی مناسب آپشن نہیںہے کیونکہ یہا ں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جانوروںکا یہ قرض کس طرح چکایا جا سکتا ہے؟ لیزلے شارپ‘ جو برنارڈ کالج نیویارک میںایک میڈیکل انتھرو پالوجسٹ ہونے کے علاوہ ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں‘ جس کا عنوان ہے ۔’’ Animal Ethos: The Morality of Human Animals Encounters in Experimental Lab Science۔ اپنی اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ کئی مرتبہ ریسرچ لیب والے جانوروں کے لیے میموریلز قائم کرتے ہیں، ان کے لیے یادگاری تختیاں بنوائی اور لگائی جاتی ہیں۔ ان کی تصاویر کے ساتھ بلیٹن بورڈ بنوائے جاتے ہیں، ان کی یاد منانے کے لیے نظمیںلکھی جاتی ہیںاور اجتماع منعقد ہوتے ہیں۔ یہ وہ بھاری بوجھ ہے جو وہ سائنس کے نام پر انسانوں کے لیے اٹھانے پر مجبور ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں احترام سے دیکھنے کی ضرورت ہے، ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے، انہیںعزت و احترام سے نوازا جائے اور ان کی موت پر سوگ منایا جانا چاہئے‘‘۔ (جاری ) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement