ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

انسانی صحت میں جانوروں کا کردار …(2)

تحریر: برینڈن کیم

انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ہمارے لیے ویکسین کے آزمائشی ٹیسٹوں کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والے جانوروں کا احترام کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم ان کے کسی احسان کا بدلہ اتار رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے‘ کہ اس بات کا منطقی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے‘ ڈاکٹر شارپ مرنے کے بعد جسمانی اعضاء کو عطیہ کرنے کے عمل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جو لوگ دوسروں سے گردے کا عطیہ لے کر اپنے جسم میں ٹرانسپلانٹ کراتے ہیں‘ وہ اکثر ڈونر کو بدلے میں کچھ لوٹانا چاہتے ہیں مگر ڈونر تو اکثر ختم چکا ہوتا ہے۔ پھر آپ کسی ایسے  فردکی تلاش کرتے ہیں جو ڈونر کا قریبی عزیز ہو۔ ڈاکٹر شارپ تجویز کرتی ہیں کہ ’’جب کوئی شخص کسی جانور سے کورنیا یا دل کا عطیہ حاصل کرتا ہے یا انہیں امپلانٹ کرنے کے پروسیجر کی سٹڈی کے لیے فنڈنگ حاصل کرتا ہے تو وہ جانوروںکی سینکچوئری یعنی محفوظ پناہ گاہ میں رکھے گئے کسی دوسرے جانورکی دیکھ بھال کے لیے بھی رقم دے سکتا ہے۔ آپ کے پاس موجود جانور تمام جانوروں کی نمائندگی کرتے ہیں‘‘۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں بائیو ایتھیکس ایکسپرٹ کے فرائض انجام دینے والی ریبیکا واکر کا کہنا ہے کہ ’’آپ اس اصول کی دوسری شکل بچوں کی کسی رِسکی ریسرچ میں ممکنہ شرکت کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ جب کوئی بیمار بچہ اپنے آپ کو کسی ایسی دوائی کے  کلینکل ٹرائل کے لیے رجسٹر کرواتا ہے جو ابھی منظور شدہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ اسے اس بات سے کوئی ذاتی فائدہ نہ ملے مگر اسے اخلاقی لحاظ سے قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس ریسرچ سے اس بیماری کے شکار بچوں کو بڑے پیمانے پر فائدہ حاصل ہوگا۔ ڈاکٹر واکر کہتی ہیں کہ ’’اگر آپ کسی فرد کے فائدے کے لیے کچھ نہ بھی کر رہے ہوں مگر پھر بھی آپ ایک بڑے گروپ کے لیے قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی بات جانوروں کے معاملے پر بھی صادق آسکتی ہے‘‘۔ مثال کے طور پر میکسیکو کی پالتو مچھلی ایکسو لاٹی کو ہی دیکھ لیں جس کی نسل  اپنی بقا کے شدید خطرے سے دو چار ہے جسے بریسٹ کینسر اور ٹشوز کی نشوونما جیسے مسئلے کا سامنا ہے تو احسان کے بدلے کے طور پر ہم انسان میکسیکو سٹی کی آلودہ نہروں میں بقا کی جنگ لڑنے والی ایکسو لاٹی مچھلی کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں مدد دے سکتے ہیں۔

لزا گنزل نیدر لینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈ بائوڈ میں نیورو سائنٹسٹ ہیں‘ وہ اپنے ہی میڈیکل سکول میں جوڈیتھ ہمبرک کے تعاون سے جانوروں پر ریسرچ اور ان کی زندگیوںمیں بہتری لانے کے لیے طے شدہ قوانین اور تقاضوں سے کہیں زیادہ کام کررہی ہیں۔ ’’ہم بدلے میں ہر جانور کا انفرادی طورپر خیال رکھتے ہیں‘‘۔ 

ڈاکٹر گنزل کے خیال میں ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان کی زندگیوں اور ہر اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے جو جانوروںکے لیے اہمیت کی حامل ہے‘‘۔ ڈاکٹر گنزل اور ڈاکٹر ہمبرک دونوں کاکہنا ہے کہ اب ہم بھول بھلیوں کے حل کے لیے چوہوںکو متحرک کرنے کی غرض سے ان پرخوراک کی پابندیو ں کا استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ چوہے نہ صرف ایک دوسرے کے سماجی تعلق کو پروان چڑھاتے ہیں بلکہ وہ ان انسانوں کے ساتھ بھی سماجی روابط بڑھاتے ہیں جو ہر روز ان کے ساتھ کھیلنے میں اپنا کچھ وقت صرف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر گنزل یہ بھی کہتی ہیںکہ ’’وہ اپنے چوہوں کو ایک بہتر قدرتی ماحول فراہم کرنے کے لیے انہیں بڑے بڑے انکلوژرز میں رکھنا پسند کریں گی یا ایسے بڑے سائز کے پنجروں میں رکھنے کو ترجیح دیں گی جن میں چوہے آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہوں مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر ہمیں اس کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہمارے پاس کوئی مالی وسائل دستیاب نہیں ہیں‘‘۔

اگر ہم جانوروں کی قربانی کے بدلے کے طور پر ان پر ریسرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس پر اچھی خاصی لاگت آئے گی۔ بعض ماہرین نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ ادویات سے حاصل ہونے والی آمدنی یا ریسرچ گرانٹس میں سے کچھ حصہ بھی اس مقصد کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ میریمس نیویارک میں قائم ایک کمپنی ہے جو مختلف بیماریوں کے نئے نئے علاج کے آزمائشی ٹرائلز کے لیے ماڈل جانور تیار کرتی ہے‘ اس کے چیف ایگزیکٹو مسٹر پریم سریرت کہتے ہیں کہ ’’مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہو رہی ہے کہ ایسا پہلے سے ہی ہورہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سائنس کے میدان میں خواہ کچھ بھی کرنا چاہتے ہوں‘ ہمیں بدلے میںان جانوروں کے لیے بھی کچھ ضرور کرنا چاہیے جو ہر مرحلے پر ہمارے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں ایسی کوئی تمیز نہیں کرنی چاہیے کہ وہ انسان ہیں یا جانور‘‘۔

جانوروں پر ہونے والی ریسرچ کے حوالے سے ایسے بہت سے ناقدین بھی موجود ہیں جن کے نزدیک ہمارے یہ تمام اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں سابق میڈیکل آفیسر عائشہ اختر‘ جو خود پیشے کے اعتبار سے ایک نیورالوجسٹ ہیں اور سنٹر فار کنٹیمپریری سائنسز کی شریک بانی ہیں‘ یہ سنٹر جانوروں پر ٹرائل کے بغیر انسانوں کے لیے میڈیکل ریسرچ کے طریقے وضع کرنے میں سپورٹ کرتا ہے‘ کہتی ہیں ’’ہم حقیقت میں جانوروں کے کس حد تک مرہونِ منت ہیں‘ ہمیں اس احساس کو جانوروںکے فائدے کے لیے ایک قابلِ عمل متبادل میں بدلنا ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر عائشہ اختر نے ایسے تمام طریقوںکے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز اکٹھا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آمدنی اور گرانٹس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ہمیں اس مقصد کے لیے مختص کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر گلک کہتے ہیں کہ ’’اگر میں اپنی لیب کا کچھ حصہ متبادل طریقوں میں پیش رفت کے لیے منسلک کر سکتا تو میرے پیش نظر صرف یہی بات ہوتی کہ میں جانوروں کی انسانوں کی صحت کے لیے دی گئی قربانیوں کا بدلہ کس طرح چکا سکتا ہوں‘‘۔

جہاں تک مس لورین سٹروہیکر کا تعلق ہے‘ وہ اپنے حصے کی کووڈ کی بوسٹر ڈوز بھی لگوا چکی ہیں اور اب وہ مزید عطیہ دینے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ اس مرتبہ وہ ان جانوروں کو خراج عقیدت کے طور پر کچھ رقم عطیہ کرنا چاہتی ہیں جو برتھ کنٹرول کے لیے بننے والی ادویات کے آزمائشی ٹرائل میں استعمال ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہماری ذہنی تربیت ہی کچھ اس طرح کی ہوئی ہے کہ ہم ان جانوروں کے بارے میں سوچنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے جو ہماری صحت کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ ہماری دنیا اتنی سچی اور پر خلوص ہے کہ ہم کبھی انہیں نقصان نہیںپہنچائیں گے‘ لیکن ہم انہیں اس وقت جتنا نقصان پہنچاتے ہیں‘ اس کے لیے ہمیں کم از کم ان کا مالی وسائل کے ذریعے شکر گزار ہونا چاہیے‘‘۔

بشکریہ: نیویارک ٹائمز انتخاب: دنیا ریسرچ سیل مترجم: زاہد رامے

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement