ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

میرے خوابوں جیسا بک سٹور

تحریر: ایزراکلین

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میرے آبائی شہر میں پہلا بارنیز اینڈ نوبل سٹور کھلا تھا۔ اس سے پہلے ہمارے ہاںصرف کرائون بکس اور چند محدود سی لائبریریاں ہوتی تھیں۔ بارنیز اینڈ نوبل ایک نئی دنیا تھی۔ وہاں ایک حیران کن کمرہ ہوا کرتا تھا جس میں بہت سی کتابیں ہوتی تھیں اور ہر کتاب کا دروازہ کسی نامعلوم دنیا کی طر ف کھلتا ہے اور جہاں ہمیں ہر دم نئے خیال اور نئی زندگی سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجھے آج بھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک بڑے سے بک سٹور کے اندر داخل ہوا کرتا تھا، بہت ہی وسیع اور لامحدود! جہاں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتی ہیں۔ 

اگر آپ چاہیں تو مجھے ایک کتابی کیڑا اور عجیب و غریب بچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرے والد نے اپنے شوق سے ہمیں ہفتے میں تین یا چار راتوں کے لیے بارنیز اینڈ نوبل سٹور میں لے کر جانا شروع کر دیا۔ میں اس بک سٹور کے فینٹسی سیکشن میں ہی بیٹھا کرتا تھا۔ جہاںمیں ’’سٹار وارز‘‘ اور ’’ڈنجنز اینڈ ڈریگنز‘‘ کی ورق گردانی کیا کرتا تھا۔ میری یہ شدید خواہش ہوتی تھی کہ وہاں اور بھی کتابیں ہوں مثلاً ’’ڈریگن رائڈرز آف پرن‘‘ سیریز وغیرہ۔ پھر ایک وقت آتا جب یہ اعلان ہو جاتا کہ بک سٹور جلد ہی بند ہونے والا ہے

جب میری عمر بڑھنے لگی تو کتابیں بھی بد ل گئیں مگر جو عادتیں ایک دفعہ پختہ ہو جائیں وہ کبھی نہیں بدلتیں۔ زندگی میں مجھ پر ایک ایسا دور بھی آیا جب مجھ پر کار میگزین پڑھنے کا جنون سوار ہو گیا تھا۔ یہ میگزین بھی بارنیز اینڈ نوبل کے سٹور میں آیا کرتا تھا۔ پھر مجھ پر فلسفے کی ضخیم کتابیں پڑھنے کی دھن سوار ہو گئی جس کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ان کتابوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔ مجھے بک سٹور میںگرافک ناولز کے سٹینڈ کے قریب بیٹھنا اچھا لگتا تھا مگر میری جیب میں انہیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے؛ تاہم مجھے انہیں پڑھ کر حقیقی خوشی ملتی تھی۔ مجھے بارنیز اینڈ نوبل سٹور میں بس یہی ایک کشش محسوس ہوتی تھی۔ اس علاقے میں کتابیں خریدنے کے لیے کوئی ایسا سٹور نہیں تھا جس میں آپ جتنی دیر چاہیں‘ کتابوں کے درمیان بیٹھے رہیں۔ 

کرائون سٹور کے برعکس بارنیز اینڈ نوبل سٹور میں بیٹھنے کے لیے جگہ کی کافی سہولت موجود تھی جو آپ سے کہتی بھی تھی کہ آپ کچھ دیر وہاں رک جائیں۔ لائبریری کے برعکس یہ بک سٹور روزانہ نو بجے اور بعض اوقات دس بجے تک بھی کھلا رہتا تھا۔ مجھے سکول سے شدید نفرت تھی، مجھے پارٹیز میں بھی مدعو نہیں کیا جاتا تھا مگر حیران کن طور پر مجھے بارنیز اینڈ نوبل سے عشق تھا۔

جب میں بڑا ہو گیا تو مجھے گرد و نواح کے کئی قصبوں میںقائم بڑے بک سٹورز پر جانے کا موقع ملا۔ پھر میں نے کیلیفورنیا کے سینٹا کروز کالج میں داخلہ لے لیا اور وہاں کی بک شاپ کے لیے آج بھی میرے دل میں احترام اور فخر کے جذبات موجزن ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں اس بک شاپ کے تیس میل کے اندر موجود ہوں اور وہاں نہ جائوں۔ میں واشنگٹن ڈی سی میں رہتا تھا اور میری راتیں ’’پولیٹکس اینڈ پروز‘‘ پر گزرتی تھیں۔ میں جب ’’بارنیز اینڈ نوبل‘‘ اور ’بارڈرز‘ دیکھا کرتا تھا تو دونوں مجھے ایک دوسرے کی نقل لگتے تھے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب کاروبار بڑی تیزی سے آن لائن پر شفٹ ہونے لگا۔ بارنیز اینڈ نوبل بھی ایک بڑا سٹور تھا مگر ایمازون پر تو کتابوں کی سلیکشن کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔E-reader نے تو فاصلے اور ڈِلیوری کا مسئلہ ہی ختم کر دیا۔ میں رات ساڑھے گیارہ بجے بھی جو چاہتا‘ ڈائون لوڈ کر لیتا تھا کیونکہ مجھے رات کو نیند نہیں آتی تھی۔

بک سٹورز کی تو کچھ اور بھی چینز بننا شروع ہو گئیں، مثال کے طور پر ٹوائے سٹورز، ڈی وی ڈی ہاکرز یہاں تک کہ انہوں نے اپنا بزنس بچانے کے لیے ریستوران بھی بنانا شروع کر دیے۔ ’’بارڈرز‘‘ تو دیوالیہ ہو گیا جبکہ بارنیز اینڈ نوبل بھی اسی کے نقش قدم پر گامزن نظر آیا۔ مجھے بارنیز اینڈ نوبل سے جنون کی حد تک لگائو تھا مگر میں اسے ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا تھا۔ پھر میں اچانک سان فرانسسکو چلا گیا اور اس کے بعد کووڈ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب آپ کا بچہ آپ کے پہلو میں بیٹھا ہو اور آپ ایمازون پر بچوں کی کتابوں کا آرڈر دے رہے ہوں تو کوئی خاص مزہ نہیں آتا۔ کووڈ کی وجہ سے لائبریریوں کو بند کر دیا گیا تھا اور یہ مہینوں تک بند ہی رہیں اور ان کی بندش میں مسلسل توسیع ہوتی رہی۔ شہر میں ایک بھی بارنیز اینڈ نوبل سٹور نہیں ہے لیکن یہاں سے جنوب میں بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو پر ایک سٹور ہے۔ میں اپنے بچوں کو ہر دوسرے دن وہاں لے جاتا ہوں جہاں انہیں بیٹھنے اور کھیلنے کے علاوہ کتابوں کے درمیان وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مجھے بھی ایسے لگتا ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اپنے بچپن میں پہنچ گیا ہوں اور وہاں کتابوں کے درمیان کھیلتا اور وقت گزارتا ہوں۔

مجھے پتا چلا کہ میں وہاں اکیلا نہیں تھا۔ بارنیز اینڈ نوبل نے کووڈ کے بعد ایک نئی مگر شاندار انگڑائی لی۔ ان کے بک سٹورز کی چین‘ جو پہلے سکڑ رہی تھی‘ دس سال میں پہلی دفعہ پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ ان کا ایک سال میں تیس نئے بک سٹورز کھولنے کا منصوبہ ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں پہلے ایمازون بھی اپنے بک سٹورکھولنے کی کوشش کر نے کے بعد ناکام ہو گیا تھا۔ اسی لیے اب انہیں ایک دوسرے کے دشمن کے بجائے ایک اتحادی اور آزاد بک سٹورزکے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بک انڈسٹری سٹڈی گروپ کے 2020ء کے کی نوٹ کے دوران بارنیز اینڈ نوبل کے چیف ایگزیکٹو جیمز ڈانٹ کا کہنا تھا کہ ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایمازون کے عہد میں بک سٹورز اپنے وجود کا جواز پیش کریں۔ وہ اپنے جواز کے لیے ایسے مقامات تلاش کرتے ہیں جہاں آپ کو خوشگوار اور غیر متوقع طور پر کتابیں مل جاتی ہیں اور اس بات کو آن لائن دہرانا ممکن نہیںہے۔ اگر آپ ایسی خوشی چاہتے ہیں تو آپ کو ایک اچھے بک سٹور کی ضرورت ہے‘‘۔

بارنیز اینڈ نوبل کے چیف ایگزیکٹو جیمز ڈانٹ نے انڈسٹری کے جس مسئلے کی تشخیص کی ہے وہ انتہائی سادہ ہے۔ اچھے بک سٹور اپنی بقا کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جبکہ برے بک سٹور جلد اپنے افسوس ناک انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کرتے ہیں کہ آن لائن شاپنگ اور ای ریڈرز بک سٹورز کے خاتمے کے ایسے نقیب ہیں جن کی سردست مزاحمت ممکن نہیں رہی۔ انہوںنے مجھے مزید بتایا کہ ’’میراخیال تو یہ ہے کہ بک سٹور ز کی ایمازون کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے میں ناکامی کی بڑی وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ اتنے اچھے نہیں تھے۔ اور کِنڈل کے مقابلے میںاپنا دفاع کرنے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ یہ بک سٹور اتنے اچھے نہیں ہوں گے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement